پورے بھارت کے مسلمان کشمیریوں کی مدد کے لئے سری نگر پہنچیں
درگاہ اجمیر شریف کے گدی نشین سید سرور چشتی نے بھارتی مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے حقوق کی جنگ لڑیں، مسلمانوں پر ظلم ناانصافی اور زیادتیوں کی انتہا ہوگئی ہے۔ ہم ایک اور کربلا کی طرف جا رہے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو خبردار کیا کہ طوطے کی طرح آنکھ بند کرلینے سے بلی جھپٹا مارنا نہیں چھوڑے گی، شتر مرغ کی طرح زمین میں سر ڈالنے سے طوفان نہیں ٹلے گا، انہوں نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ امام حسینؓ کے انکار کی طرح ڈٹ جائیں، کیونکہ کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے ظلم کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ سید سرور چشتی نے کہا کہ وزیراعظم مودی نے نعرہ لگایا تھا کہ سب کے مسائل حل کئے جائیں گے اور سب کا تعاون حاصل کیا جائے گا، لیکن آج تک ہمارے مسائل حل نہیں ہوئے، اور نہ ہی مسلمانوں کو کبھی اس ملک کا شہری سمجھ کر اعتماد میں لیا گیا۔ انہوں نے مودی سے مخاطب ہوکر کہا کہ کیا وہ ہندو ذہنیت سے باہر نکل کر کچھ سوچ سکتے ہیں، اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہے تو وہاں کرفیو کیوں؟ کشمیری بچے دودھ کے لئے کیوں ترس رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھارت چلے گا تو گاندھی کے اصولوں پر چلے گا۔ سید سرور چشتی نے کہا کہ ہمیں ہندوؤں سے محب وطن ہونے کا سرٹیفکیٹ نہیں چاہئے۔ ہمارے مسلمان حاکم برطانوی حکمرانوں کی طرح کھربوں ڈالر لے کر نہیں گئے بلکہ یہیں سب چھوڑ کر اس مٹی میں دفن ہیں، سید سرور چشتی نے یہ باتیں ایک وڈیو پیغام میں کہیں۔
بھارت میں مسلمانوں کو دو طرح کے بحران درپیش ہیں ایک تو قیادت کا بحران ہے۔ 20کروڑ سے زائد مسلمان کسی بڑے مرکزی دھارے میں شامل نہیں اور نہ انہیں کوئی قدآور سیاسی لیڈر رہنمائی کے لئے دستیاب ہے، مسلمانوں کی کوئی ملک گیر سیاسی جماعت بھی نہیں، مسلمان ماضی میں کبھی کانگرس کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے رہے اور کبھی دوسری جماعتوں کا ساتھ دیتے رہے۔ انہوں نے ایک مرحلے پر بی جے پی کی حمایت بھی کی تھی لیکن یہ مودی کی نہیں واجپائی کی بی جے پی تھی، جس سے مسلمانوں نے توقعات وابستہ کر رکھی تھیں جو پوری نہ ہوئیں۔ نریندر مودی جب سے برسراقتدار آئے ہیں انہوں نے مسلمانوں کو دیوار کے ساتھ لگانے کا خصوصی اہتمام کیا ہے، بی جے پی نے 2014ء اور 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں کسی مسلمان کو الیکشن لڑنے کے لئے ٹکٹ نہیں دیا تھا اور کہا تھا کہ اسے جیتنے کے لئے مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں، اگرچہ ہندو اکثریت کی وجہ سے مودی کی یہ حکمت عملی کامیاب ثابت ہوئی ہے اور اسے الیکشن میں پہلے سے بھی زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ہے، لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سیکولر بھارت ہندو قوم پرست ریاست کا روپ دھار چکا ہے اور مودی کے بعض اقدامات کے خلاف معتدل ہندو دانشور بھی میدان عمل میں آگئے ہیں۔
مسلمانوں کو اپنی آبادی کے تناسب سے بھارتی پارلیمینٹ میں 15فیصد کے لگ بھگ نشسیں حاصل ہونی چاہئیں، لیکن اس وقت لوک سبھا میں مسلمانوں کی تعداد 50سے زیادہ نہیں ہے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی اپنی کوئی مرکزی جماعت ہے نہ لیڈر۔ جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ حلقہ بندیاں اس انداز میں بنائی جاتی ہیں کہ مسلمان آبادی بھاری اکثریت میں ہونے کے باوجود قابل ذکر نشتیں نہیں لے پاتی، یہ تو پارلیمینٹ میں نمائندگی کا معاملہ ہے، پورے بھارت میں بی جے پی کی مادر جماعت راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے تشدد کے ذریعے خوف و دہشت کی جو فضا پیدا کر رکھی ہے اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو برسرعام قتل کیا جا رہا ہے۔ گائے رکھشا کے نام پر گائے کا ریوڑہانک کر لے جانے والے کسانوں اور چرواہوں کو اس شبے میں قتل کر دیا جاتا ہے کہ وہ گائیں ذبح کرنے کے لئے لے جارہے تھے۔ ریفریجریٹر میں گوشت رکھنے کی پاداش میں بھی لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے اور یہ تک معلوم نہیں کیا جاتا کہ گوشت گائے کا تھا بھی یا نہیں۔
سید سرور چشتی نے بھارت کے مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے خطرات سے آنکھیں پھیر کر موجودہ مصلحت آمیز روش اختیار کئے رکھی اور ظلم و ستم سے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑے نہ ہوئے تو ان کے لئے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ اس لئے وہ بپھرے ہوئے طوفان کے آگے بند باندھنے کے لئے میدان عمل میں آئیں اور ان لوگوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں جو مسلمانوں کو بھارت میں زیر کرنا چاہتے ہیں اور انہیں ملک چھوڑنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں، کشمیر میں اس وقت جو حالات ہیں وہ بھی پورے بھارت کے مسلمانوں کو دعوت عمل دے رہے ہیں۔ اب جس طرح بھارتی حکومت نے غیرریاستی عناصر کو کشمیر میں آباد کرنے کی راہ ہموار کر دی ہے اور آر ایس ایس کے غنڈے للکارتے ہوئے کشمیر کی طرف بڑھنے کا اعلان کر رہے ہیں اس کا مقابلہ کرنے کے لئے بھارت کے مسلمانوں کوبھی کشمیریوں کی مدد کے لئے کشمیر کارخ کرنا چاہئے اور زبردستی کرفیو کی پابندیاں توڑ کر انہیں خوراک اور ادویات پہنچانی چاہیں، یہ اسی طرح کا محاصرہ ہے جس طرح کا اسرائیل نے غزہ میں کر رکھا تھا اور ترکی کے جہاز خوراک اور ادویات لے کر اسرائیل پہنچے تھے۔ اب بھارت میں بسنے والے مسلمانوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کے لئے کشمیر کا محاصرہ توڑ دیں، اور خوراک و ادویات کے ٹرک لے کر سری نگر پہنچیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کریں، اگر اس موقع پر کشمیریوں کو کمک نہ پہنچائی گئی تو آر ایس ایس کے غنڈے کشمیر میں دندناتے پھریں گے اور پابندیوں کے ستائے ہوئے کشمیری عوام ان کا بھر پور مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ اس لئے بھارت کے طول و عرض سے مسلمانوں کو کشمیر کا رخ کرنا چاہئے اور اپنے بھائیوں کی امداد کے لئے راست اقدام کرنا چاہئے۔
طویل المدت منصوبہ بندی کے تحت بھارت کے مسلمانوں کو اپنی سیاسی قوت بھی مجتمع کرنی چاہئے اور تمام چھوٹی بڑی سیاسی اور دینی جماعتوں کا ایک ملک گیر کنونشن منعقد کرکے ایک ایسی نئی سیاسی جماعت تشکیل کرنی چاہئے جو آنے والے وقت میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابل اپنا موثر کردار اداکرسکے، بی جے پی سے تو مسلمانوں کو اب کسی خیر کی توقع نہیں نہ وہ چاہے گی کہ مسلمان اس انداز میں منظم ہوکر سامنے آئیں کہ اپنی آبادی کے مطابق پارلیمینٹ میں نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں آجائیں۔ کانگرس بھی بی جے پی کے زیر اثر ہندوؤں کو رام کرنے کی پالیسی پر ہی گامزن رہے گی اور اپنے مزاج کے مطابق مسلمانوں کی اشک شوئی بھی کرتی رہے گی، لیکن ایک حد سے آگے نہیں جائے گی، اگر مسلمانوں نے اپنے آپ کو ملک گیر سطح پر منظم کرلیا اور اپنی کوئی ایسی سیاسی قیادت سامنے لے آئے جو ہندو جماعتوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جائے تو چند برس کے اندر اندر مسلمان پارلیمینٹ میں از سر نو ایک قوت بن کر ابھر سکتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب بھارت میں صدر یا نائب صدر کا عہدہ کسی مسلمان کے پاس ہوتا تھا، اب بی جے پی نے پورے اہتمام کے ساتھ یہ دونوں عہدے ہندوؤں کو دے دیئے ہیں اور مودی کے راج میں ایساکوئی امکان نہیں کہ کوئی مسلمان ان دونوں میں سے کوئی عہدہ حاصل کر سکیں گے۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو سیاسی طور پر منظم کریں اور کسی متحدہ سیاسی پلیٹ فارم سے مشترکہ جدوجہد کا آغاز کریں اور پارلیمینٹ میں ایک طاقت بن کر سامنے آئیں، اگر ایسا نہ ہوا تو آنے والے دن مسلمانوں کے لئے مشکل ثابت ہوں گے۔ سید سرور چشتی نے بروقت خبردار کردیا ہے ان کی آواز پر کان دھرنے کی ضرورت ہے۔