کشمیر کی آزادی…… نوشتہ ء دیوار

بھارت کے جھوٹے غبارے سے پچاس سال بعد پھر ہوا نکل گئی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پھر یہ تصدیقی مہر ثبت کر دی کہ کشمیر عالمی سطح پر ایک متنازعہ مسئلہ ہے،یہ بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں۔ بھارت اب اس غبارے میں نئے سرے سے کوئی ہوا بھرنے کی مذموم کوشش کرے گا، لیکن یہ بے فائدہ ثابت ہو گی، کیونکہ دنیا کے سب سے معتبر سفارتی فورم پر نصف صدی بعد بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ کشمیر حل طلب قضیہ ہے، جسے بھارت اور پاکستان کو پُرامن طور پر حل کرنا چاہیے۔ بھارت امن کی زبان تو سمجھتا ہی نہیں، خاص طور پر نریندر مودی کے آنے سے تو اس میں وحشت اور ظلم کا چلن عام ہو چکا ہے، جس کا اظہار بھارتی وزیر دفاع نے بھی دو روز پہلے کیا اور یہ ہذیانی بیان دیا ہے کہ بھارت ایٹمی حملے میں پہل نہ کرنے کی پالیسی تبدیل بھی کر سکتا ہے۔ یہ دھمکی بھارتی وزیر دفاع نے کسی اور کو نہیں، بلکہ دنیا کو دی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کرانے کی کوشش کی گئی تو ایٹمی جنگ چھیڑ دیں گے۔ جب کسی ملک کا وزیر دفاع اتنی خوفناک گیدڑ بھبھکیوں پر اُتر آئے تو سمجھو کہ وہ ملک اب دنیا کے لئے خطرہ بن گیا ہے۔ ایک سفارتی و انسانی مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایٹمی حملے کی دھمکی دینے والا ملک اپنے موقف میں کتنا کمزور ہے، اس کا اندازہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔
نریندر مودی نجانے کس ترنگ میں انسانی حقوق کو پامال کئے چلے جا رہے ہیں۔ اب ان کے لئے یہ مسئلہ بن گیا ہے کہ کھیل سے جان کیسے چھڑائیں۔ کرفیو لگا کر لاکھوں کشمیریوں کو گھروں میں محبوس کرنے کے بعد انہیں کوئی راستہ نہیں مل رہا کہ اس آگ کو ٹھنڈا کیسے کریں جو کشمیریوں کے دلوں میں بھڑک اٹھی ہے۔ کرفیو جب بھی اٹھا، وہ ایک طوفان بن کر گھروں سے نکلیں گے اور بھارتی فوج کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں گے۔ اس دوران اگر فوج نے نہتے کشمیریوں کو اسلحے کی بنیاد پر روکنے کی کوشش کی اور وحشت و ظلم کا مظاہرہ کیا تو ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ پھر بھارت کے لئے اپنی جمہوری و انسانی ساکھ تک بچانا مشکل ہو جائے گا۔ وہ سلامتی کونسل، جس نے ابھی دبے دبے لفظوں میں صورتِ حال کو سنبھالنے کی بات کی ہے، شاید کوئی بڑا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائے۔
کشمیر کا ذکر 50سال بعد سلامتی کونسل میں ہونا ایک بڑی کامیابی ہے۔ سلامتی کونسل کوئی گلی محلے کی پنچائت نہیں، جس کا اجلاس کسی وقت بھی طلب کیا جا سکے، نہ ہی اس میں ایسے مسائل زیر بحث آتے ہیں جن کا تعلق علاقائی معمولی جھگڑوں سے ہو۔ یہاں اگر کسی معاملے کو قابلِ غور سمجھا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ مسئلہ اپنا ٹھوس وجود رکھتا ہے اور اس کی وجہ سے عالمی امن کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سلامتی کونسل کے مشاورتی اجلاس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا وہ غالباً عالمی مسائل کو گڈے گڈی کا کھیل سمجھتے ہیں۔ یہ تو بھارت سے پوچھا جائے کہ اس کی اس اجلاس کے بعد کیا حالت ہے۔ نیویارک میں اس کے مستقل مندوب کی صحافیوں کے ہاتھوں جو درگت بنی، وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ بھارت نے دنیا کی نظروں میں جو دھول جھونک رکھی تھی، اس کا پردہ چاک ہو گیا ہے۔ پچاس سال تک اس نے کشمیر پر اقوام متحدہ کا کوئی اجلاس نہیں ہونے دیا اور اسے اندرونی معاملہ قرار دے کر کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشت گردی کا رنگ دیتا رہا۔ اُلٹا مظلومیت کی چادر اوڑھ لی اور پاکستان پر دراندازی کے الزامات لگاکر ہمارے خلاف مسائل کھڑے کئے نریندر مودی کی حماقتوں نے آج یہ دن دکھایا ہے کہ بھارت اب خود کٹہرے میں آ کھڑاہوا ہے۔ اب بھارت خود ایک غاصب، جارح اور انسانی حقوق کی پامالی کرنے والا ملک بن کر سامنے آیا ہے۔
”لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا“ والی بات آج بھارت پر صادق آتی ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے بھارت دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا ہے۔ اس نے ایک متنازعہ علاقے پر زبردستی اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا، جسے سلامتی کونسل نے مسترد کر دیا۔ گویا اب اس کے پاس یہ اختیار بھی نہیں رہا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کو خصوصی علاقہ قرار دے کر اپنے ساتھ رکھ سکے۔ اب تو وہ واضح طور پر ایک غاصب اور قابض کی حیثیت سے کشمیر میں موجود ہے اور اس حیثیت میں اگر وہ کشمیریوں پر ظلم ڈھاتا ہے، ان کی نسل کشی کرتا ہے، انہیں فوج کے بل بوتے پر غلام رکھتا ہے تو دنیا بھارت کا دفاع کرنے سے ہاتھ کھینچ لے گی۔ یہی سلامتی کونسل جس نے آج کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دے کر اس کا پُرامن حل تلاش کرنے کی بات کی ہے، کسی بڑے انسانی المیے کی صورت میں اس علاقے میں اقوام متحدہ کی امن فوج بھیج سکتی ہے۔
طاقت اور ہندوازم کے نشے میں چُور نریندر مودی اور اس کے ساتھیوں کو اس پہلو کا علم ہے یا نہیں، البتہ یہ نوشتہء دیوار ہے، آج نہیں تو کل اس نے وقوع پذیر ہو کر رہنا ہے…… لیکن اب ہمارا اور کشمیریوں کا مشترکہ مشن یہ ہے کہ آزادی کی اس جنگ کو ٹھنڈا نہیں ہونے دینا۔ یہ پہلی کامیابی ہے کہ کشمیر کو عالمی سطح پر پھر متنازعہ مسئلہ تسلیم کر لیا گیا ہے، اب وہاں جدوجہد آزادی بھی جائز ہو گئی ہے اور کشمیریوں پر ظلم کے خلاف ہماری آواز بھی بلا جواز نہیں رہی۔ بھارت کا ہر قدم اسے مزید شکست سے دوچار کرے گا۔ اس نے اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے ہیں،مگر اسے ہر گھر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ برہان وانی جیسے مجاہدوں کی بڑی تعداد بھی آزادی کی اس جنگ میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہے، اس کے بعد بھارت کی چیخیں تو نکلیں گی، مگر اب ان چیخوں کو مظلوم کی نہیں ظالم کی چیخیں سمجھا جائے گا۔
آج پوری دنیا کا میڈیا چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں انسان عملاً قیدی بنا دیئے گئے ہیں۔ ایک سویلین بھی بھارت کا حامی نہیں۔سوائے فوجی بوٹوں کے وہاں کوئی اور آواز سنائی نہیں دے رہی۔باوجود ان سب پابندیوں کے مغربی میڈیا پھر بھی اس مقبوضہ وادی کے حقائق سامنے لا رہا ہے، جب کرفیو ہٹے گا اور کشمیری باہر نکلیں گے تو کیا عالم ہو گا، اس کی خبریں بھارت کے چہرے پر پڑے جمہوریت کے آخری ماسک کو بھی اتار دیں گی۔ پاکستان اور کشمیریوں کے نقطہ ء نظر سے بات اب ”جدوجہد تیز کرو“ کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف اکثر اپنے انٹرویوز میں کہتے ہیں کہ ہم نے کارگل کی جنگ میں بھارت کو گردن سے دبوچ لیا تھا، مگر پھر ہم نے جنگ بندی قبول کر لی۔ وہ تو خیر ایک جنگ تھی، تاہم اب بھارت کو سفارتی طور پر گردن سے دبوچنے کا وقت آ گیا ہے۔ ایک طرف کشمیری مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کا جینا دوبھر کر دیں، مظاہروں میں شدت لے آئیں، جہاں بھارتی فوج مظالم کرے اس کا منہ تور جواب دیں اور دوسری طرف پاکستان اپنی سفارتی سرگرمیاں تیز کر دے۔
بھارتی جارحیت اگر بڑھ جاتی ہے تو پھر چین کے ذریعے سلامتی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ عالمی برادری کو جگانے کی مسلسل کوششیں کرے۔ بھارت کی دہشت گردی اور درندگی کا پردہ چاک کرے۔ نہتے کشمیریوں کی مظلومیت کو اجاگر کرے۔ یہ بہت اہم موقع ہے، اس وقت پوری دنیا یہ جان چکی ہے کہ بھارت نے ایک متنازعہ معاملے کو زبردستی ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کشمیریوں پر زمین تنگ کر دی ہے۔ اب کشمیر انسانی حقوق کی پامالی کے لحاظ سے دنیا کا سب بڑا فلیش پوائنٹ بن گیا ہے۔ بھارت کہیں بھی اس کا کوئی جواز فراہم نہیں کر سکتا۔ دو ہفتے سے زائد کرفیو لگا کر اس نے خود ہی دنیا کو بتا دیا ہے کہ کشمیر میں رہنے والے اس کے اقدامات سے تنگ ہیں اور اس کا قبضہ غاصبانہ اور ظالمانہ ہے۔ بھارت اپنے جال میں خود پھنس گیا ہے، اب کشمیری عوام اور پاکستان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ بھارت کو اس جال سے نکلنے نہ دیں، تاوقتیکہ وہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے سامنے گھٹنے نہ ٹیک دے۔