اصل امتحان

پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ کے ابھی تک جو نام سامنے آئے ہیں اس حوالے سے ابھی تک فیصلہ نہیں ہو سکا لیکن میری اطلاعات کے مطابق قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ کے نام کا قرعہ سابق ٹیسٹ کرکٹر،کپتان مصباح الحق کے نام نکل چکا ہے بس ایک رسمی کارروائی باقی ہے اور چند روز میں وہ بھی ہو جائے گی جبکہ ثقلین مشتاق،ڈین جونز نے بھی درخواست پی سی بی میں جمع کروا رکھی ہے اور ہو سکتا ہے کہ وسیم اکرم کے زیادفہ قریب ہونے کا فائدہ ڈین جونز کو بھی مل جائے اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس منصب پر کون فائز ہوتا ہے۔
اس کے بعد دوسرا مسئلہ چیف سلیکٹر کا ہو گا تو جن لوگوں کو ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ان کو یہ بتانا ضروری سمجھوں گا کہ پی سی بی میں نیوزی لینٖڈ کرکٹ بورڈ والی پالیسی عمل میں لانے کے امکانات روشن ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ چیف سلیکٹر کے نام کا قرعہ بھی سلیکٹ ہونے والے کوچ کے نام ہی نکلے گا۔
اور اگر ڈین جونز قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ منتخب ہو جاتے ہیں تو پھر مصباح الحق بیٹنگ کوچ کے فرائض سر انجام دے سکتے ہیں۔جو بھی ہو گا البتہ مصباح اور ڈین جونز میں کوچ کی جنگ جاری ہے اور عنقریب قوم کے سامنے ہمارا نیا کوچ نمودار ہو جائے گا۔
جہاں تک میرا خیال ہے اس میں برائی بھی نہیں کیونکہ کوچ کو ٹیم سلیکٹ کرنے کا مکمل اختیار مل جائے گا اور ان کی کوچنگ میں ہائی پرفارمنس دینے والے کھلاڑی ان کی نظروں میں بھی جلد آجائیں گے اور ٹیم میں بھی جلد جگہ بنا لیں گے۔
لیکن اس کے لیے کوچ کو ذہنی طور پر خود کو تیار کرنا ہو گا کیونکہ یہاں ایک شکست کے بعد سارا ملبہ کوچ و چیف سلیکٹر پر ڈال دیا جاتا ہے اور دونوں کو الگ الگ جواب دہ ہونا ہوتا ہے لیکن اس مرتبہ منتخب ہونے والے ہی دونوں چیزوں کا سامنا کریں گے۔
مصباح کے کوچ بننے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں قومی ٹیم کے فٹنس کیمپ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جبکہ ان کی قیادت میں قومی ٹیم ٹیسٹ فارمیٹ میں پہلے نمبر پر بھی رہ چکی ہے۔
دوسری جانب ایم ڈی پی سی بی وسیم خان بھی اس بات کے قائل ہیں کہ قومی کرکٹ ٹیم کے لیے کوچ و چیف سلیکٹر ایک ہی ہو لیکن یہاں ایک بات اہم ہے کہ اگر ایسا کرنا ضروری ہے تو پھر چیف سلیکٹر اپنی ذمہ داری کیسے نبھائے گا کیونکہ ملکی و غیر ملکی دوروں کے دوران کوچ قومی ٹیم کے ساتھ ہوں گا اور ملک میں جاری ڈومیسٹک کرکٹ سے ملنے والے کھلاڑیوں کی کارکردگی کا جائزہ کو ن لے گا اور اگر یہ کام ممبران نے ہی کرنے ہیں اور فیصلہ کوچ نے کرنا ہے تو پھر بہتر ہے کہ انہیں صرف کوچ ہی رہنے دیا جائے اور سلیکٹ ہونے والے کوچ پر چیف سلیکٹر کی اضافی ذمہ داری نہ ڈالی جائے۔
اور پھر چیف سلیکٹر بھی نیا ہی لایا جائے نیوزی لینڈ طرز کو ٹی ٹوئنٹی کپ تک موٗخر کر دیا جائے۔
اب جبکہ سری لنکا بورڈ نے بھی قومی کرکٹ ٹیم کے ساتھ ٹیسٹ میچز پاکستان میں کھیلنے کی یقین دہانی کروا دی ہے جو کہ ایک بڑی خبر ہے۔جس کے سینٹرز کے لیے لاہور اور کراچی کو چنا گیا ہے ایسی صورت میں ان میچوں کے دوران شائقین کو سٹیڈیم لانا پی سی بی کی ذمہ داری ہو گی اور ایم ڈی وسیم خان اس میں کیسے پورا اتریں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
کیونکہ کافی عرصہ بعد ملک میں ٹیسٹ کرکٹ واپس آرہی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ لنکن ٹیم کو ملنے والی سیکیورٹی کو فول پروف بنا یا جائے اور شائقین کو سٹیڈیم لانے کے لیے الگ سے بس سروس شروع کی جائے۔
یہ تو لنکن بورڈ کی دریا دلی ہے کہ انہوں نے ٹیسٹ چیمپئن شپ کی اس سیریز کو اس ملک میں کھیلنے کی درخواست کو قبول کیا جہاں ان پر حملہ ہوا تھا لیکن اب وقت کچھ اور ہے دنیا نے پی ایس ایل کے میچز پاکستان میں ہونے کے باعث پاکستان کا اصل چہرہ دیکھ لیا ہے جس کے بعد ورلڈ الیون،زمبابوے،ویسٹ انڈیز جیسی ٹیموں نے بھی رخ کیا لیکن ایک مکمل ٹیسٹ سیریز کے لیے کوئی بھی ٹیم پاکستان آنے کو تیار نہیں تھی ایسے میں لنکن بورڈ نے اپنی ٹیم کو پاکستان کے دورے کے لیے راضی کر کے ہم پر اور کرکٹ پر ایک احسان کیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح ہمارا بورڈ ان میچز کے دوران شائقین کو سٹیڈیم میں لاتا ہے اور کیا حکمت عملی تیار ہو گی۔اس کے ساتھ لنکن ٹیم نے پاکستان کے دورے سے قبل کیویز کو پہلے ٹیسٹ میچ میں شکست دے کر پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔اب دیکھنا ہے کہ قومی ٹیم کس حکمت عملی کے تحت سری لنکا کے خلاف میدان میں اترے گی اور کون سے کھلاڑی ٹیم میں شامل ہوں گے۔
ری حیب پروگرام میں شرکت کرنے سے قومی ٹیم کے سابق بلے باز اور مایہ ناز کھلاڑی شرجیل خان پر قومی ٹیم کے دروازے کھل سکتے ہیں۔اگر یہ بات سچ ہے تو اچھی ہے لیکن اگر یہ بات بالکل اسی طرح ہے جیسے سلمان بٹ کے ساتھ ہوئی تو میرا شرجیل خان کو مشورہ ہے کہ وہ اس پروگرام میں شرکت کرنے کے بعد ٹی وی پر بطور تجزیہ نگار نظر آئیں تو زیادہ بہتر ہو گا کیونکہ ایسے پروگرام میں شرکت کھلاڑی سے اس وقت کروائی جائے جب اس پر الزام ثابت ہو گیا ہو اور اس کی سزا شروع ہو گئی ہو،ڈھائی سال ایک بندہ کرکٹ سے دور رہنے کے بعد کچھ تو سیکھ گیا ہو گا۔
کیا شرجیل خان کو ایسے پروگرام کا شروع میں حصہ نہیں بنایا جا سکتا تھا اب موصوف تین ماہ تک ری حیب پروگرام میں شرکت کر کے اپنے آپ کو اس قابل بنائیں گے پھر ان پر ڈومیسٹک کے دروازے کھلیں گے جس کے بعد کوچ کی مہربانی ہوئی تو ان کی سوئی ہوئی قسمت جاگ جائے گی ورنہ جیسا سلمان بٹ کے ساتھ ہو رہا ہے ویسا ہی ان کے ساتھ بھی ہو گا۔
حالانکہ سلمان بٹ نے تو اپنی اہلیت پھر سے ثابت بھی کر دی تھی لیکن سابق چیف سلیکٹر صاحب کو ایک آنکھ بھی نہ بھا سکے جس کے باعث ان کا کیرئر غیر رسمی صورتحال سے دوچارنظر آتا ہے۔ اور ممکن بھی یہی ہے کہ سلمان بٹ قومی ٹیم میں جگہ نہ بنا پائیں اور یوں ہی ریٹائرمنٹ کی سیڑھی پر قدم رکھ دیں۔