بلڈٹرانسفیوژن اتھارٹی فعال نہیں، سیکرٹری صحت کی ڈھٹمائی، وزیراعلیٰ کو بلانا پڑیگا، ہائیکورٹ
لاہور(نامہ نگارخصوصی)لاہورہائی کورٹ نے سیکرٹری صحت پنجاب نبیل اعوان کی طرف سے بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی مکمل طور پر فعال نہ ہونے کا اعتراف کرنے پر ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے وزیراعلیٰ پنجاب کو بلانا پڑے گا،روزانہ بلڈ ٹرانسفیوژن کی مشکلات اور مسائل سامنے آرہے ہیں،یہ اتھارٹی اتنا اہم ادارہ ہے مگر اس کے لئے کچھ نہیں ہو رہا۔ چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ مسٹر جسٹس محمد قاسم خان نے کورونا کے مریضوں کوصحت مند ہونے والے مریضوں کا پلازمہ فروخت کے خلاف دائردرخواست کی سماعت 6 ہفتوں تک ملتوی کرتے ہوئے سیکرٹری صحت پنجاب نبیل اعوان کو ہدایت کی کہ آئندہ تاریخ سماعت پرعدالت کو 2015 سے اس اتھارٹی کے اجلاس اور میٹنگ کا ریکارڈ فراہم کیا جائے،عدالت نے حکومت کو یہ امر یقینی بنانے کی ہدایت کی کہ پلازمہ فروخت نہ ہو بلکہ عطیہ کیا جائے۔ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو فاضل جج نے کہا کہ بادی النظر میں اس اتھارٹی کا لائسنسنگ بورڈ مکمل فعال نہیں کیا گیا۔ اس اتھارٹی کے قیام اور تقرریوں کے معاملہ پر سقم ہے۔ سیکرٹری صحت پنجاب نے عدالت سے استدعا کی کہ جلد اتھارٹی اور لائسنسنگ بورڈ کو مکمل فعال کر دیا جائے گا، مہلت دی جائے، بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کے الگ سیکرٹری ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اس اتھارٹی کے کتنے ممبران کا تقرر ابھی تک ہوا ہے؟جس پر سیکرٹری صحت پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ کسی ممبر کا ابھی تک تقرر نہیں ہوا، فاضل جج نے پوچھا کہ اتھارٹی نے کس اجلاس میں کنوینر مقرر کیا؟سیکرٹری صحت پنجاب نے کہا کہ 22 جولائی کو اجلاس میں ایڈیشنل سیکرٹری ٹیکنکل کو اس اتھارٹی کا کنوینر مقرر کر دیا گیا۔ ڈاکٹر احمد مبین کو اس بورڈ میں ٹیکنیکل ایکسپرٹ تعینات کیا گیا ہے۔ فاضل جج نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ٹیکنکل ایکسپرٹ کی تعیناتی کی مدت کیوں نہیں رکھی۔درخواست گزار کا موقف ہے کہ کورونا مریض کی جان بچانے کے لئے پلازمہ 5سے 6 لاکھ روپے کا مل رہا ہے۔ خون کی فروخت کے خلاف قوانین کی موجودگی کے باوجود عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ ملک میں کورونا کے خلاف پلازمہ کی فروخت، قوانین کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ خون کے اس دھندے میں اب بین الاقوامی مافیا بھی شامل ہو چکا ہے۔
ہائیکورٹ