ویسے تو اس پر بہت لکھا جا چکا ہے لیکن بدقسمتی سے اسکا فائدہ نہیں ہوا ہے۔۔یہ مافیا کیسے بنا؟ ہم نے بنایا یا ہمیں مجبور کیا گیا کہ اس مافیا کے سامنے سر جھکا دیں؟ آج سے پندرہ بیس سال پہلے جو پرائیویٹ سکولز میں بچے تعلیم حاصل کرتے تھے،اِنہیں نالائق سمجھا جاتا تھا کہ یہ بچے سب بچوں کے ساتھ مل کر نہیں چل سکتے تو اس لیے اِنہیں الگ کردیا گیا۔۔۔
پرائیویٹ سکول بھی چندبڑےناموں کےعلاوہ اِکا دکاتھے۔ گورنمنٹ سکول میں پڑھانےوالے اساتذہ کا معیار کافی بلند تھا، انگریزی بھلے چھٹی کلاس سے شروع ہوتی تھی لیکن بچوں کو اچھی خاصی واقفیت تھی۔۔۔اُردو بولنا اور صحیح تلفظ سے ادا کرنا خوب جانتے تھے،گنتی اُردو انگریزی دونوں میں آتی تھی۔۔۔پھر وقت یا ہماری قسمت نے پلٹا کھایا اور ہم ان پرائیویٹ اداروں میں پھنس گئے۔۔۔
گورنمنٹ کے اداروں کو جان بوجھ کےتباہ کیاگیایاان پرتوجہ نہیں دی گئی اور گلی گلی انگلش میڈیم سکول کے نام پےپانچ پانچ مرلے میں ذہنی مریض بنانے کی نرسریاں بنائی گئیں۔ان نرسریوں کے خوش نما جملوں نے جہاں والدین کو سحرزدہ کیا،وہیں کچھ پڑھےلکھےنوجوان بھی مرعوب ہوئے۔اب یہ پورے ملک میں جونک کی طرح چمٹ گئے ہیں،اب ایک طرف والدین اِن بھاری فیسوں کی مدمیں پستےنظرآتےہیں تو دوسری طرف پسنےوالےوہ نوجوان ہیں جواِن اداروں میں کام کرتےہیں۔۔۔
والدین سےفیسیں پوری لی جاتی ہیں جبکہ استحصال اساتذہ اور دوسرے عملے کا کیا جاتا ہے۔چند ہزار تنخواہ سے سکول کےمعیارکوبھی رکھناہےجبکہ اپنی ضروریات کوبھی پورا کرناہے،اس مہنگائی کےدورمیں یہ ممکن نہیں رہاہے۔اگرکبھی انکےخلاف آواز اُٹھائی گئی تو یہ کہہ کر خاموش کروا دیا جاتا ہے کہ لاکھوں نوجوانوں کو روزگار دیا ہوا ہے، کیا وہ روزگار مفت دیا ہوا؟ کیا بچوں سے فیسیں نہیں لی گئیں؟؟؟
تعلیم، علم جو پیغمبری پیشہ ہے،اسے صرف ایک کاروبار بنا دیا،جس میں صرف کمائی مالکان کی ہورہی ہے۔ جبکہ بچوں سے پوچھیں تو چندجملےاردویاانگریزی کےوہ نہیں بول سکتے۔۔۔ تربیت کرنے نہیں دی جاتی بس پالیسی ہے کہ رٹوائے جاؤ۔۔کتابی جملے ، کتابی لفظوں سے زیادہ وہ ایک لفظ نہیں سمجھ سکتے۔ ذرا سی ڈانٹ ڈپٹ ہو جائے تو والدین کی شکایات الگ اور سکول انتظامیہ کی الگ ہوتی ہیں،اس میں یہ نوجوان طبقہ پس کےرہ گیاہے۔رہی سہی کسرقدرتی آفات پوراکردیتی ہیں،جیسےابھی کوروناآیاتومتاثروالدین ہوئےبغیر کلاسز کےفیسیں پوری لیں اِن اداروں نےجبکہ اساتذہ اور باقی عملے کو یا تو مکمل فارغ کردیا گیایاپھرتنخواہوں میں کٹوتیاں کی گئیں اور اب ویکسین نا لگوانے والوں کی تنخواہیں آدھی دی گئیں مگر کوئی نہیں ہے جو اس ظلم کےخلاف آوازاٹھاسکے۔۔۔
اگر ان پانچ پانچ مرلے کی نرسریوں کے بجائے ہنر مندی کی فیکڑیز لگائی جاتیں تو آج یہ ملک اپنی ضروریات کی چیزیں خود بنارہاہوتا،حکومتیں اپنی سرپرستی میں چلنےوالےتعلیمی اداروں پر توجہ دیتی تو ہم بھی جابر بن حیان، عبدالسلام اور نیوٹن پیدا کررہے ہوتے ناکہ رٹاوی نسل اور اب یہ تباہی سکول سے نکل کر کالج اور پھر کالج سے نکل کر یونیورسٹیوں تک پہنچ گئی ہے۔
لوٹ مارکابازارگرم ہے،پرائیویٹ کالج اوریونیورسٹیوں کےفیس پیکجزاورفنکشنز،ان پرآنےوالےاخراجات نے والدین کی کمردہری کردی اوراخلاقیات الٹا تباہ ہوئیں۔پھرگورنمنٹ کےسب کیمپسزکےنام پے الگ لوٹ مار۔خدارا اِس نسل کو بچائیں،اِس تعلیمی نظام اور پرائیویٹ اداروں سے۔۔۔اِن کےہاتھوں ہونے والے استحصال سے۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی حوصلہ شکنی کیجئے، گورنمنٹ کےاداروں پر توجہ دیجیے،لاکھوں میں تنخواہیں اورپھرساری زندگی پینشنزلینےوالوں کوبھی تھوڑا نگاہ میں رکھیے۔۔۔اسی طرح کی رٹاوی اور ذہنی مریض جن میں قوت برداشت زیرو ہے،آتی رہی تومستقبل روشن ہونےکےبجائے تاریک ہوگا۔۔۔ابھی سوچیئے، ابھی وقت ہے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔