مون سون شجر کاری مہم
صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے کراچی میں سالانہ مون سون شجر کاری مہم کے تحت نیم کا درخت لگایا اور عوام سے اِس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی اپیل کی۔اُنہوں نے اِس موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ بڑھتے ماحولیاتی مسائل کے پیشِ نظر شجر کاری کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے،رسول اللّٰہ ؐ نے بھی درخت لگانے کی ترغیب دی۔اُنہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے۔پاکستان کے کْل رقبہ کے صرف 5 فیصد حصے پر جنگلات موجود ہیں، لکڑی کی بڑھتی ہوئی مانگ اور دیگر زمینی استعمال کے باعث درختوں کو تیزی کے ساتھ کاٹا جا رہا ہے، قومی سطح پر جنگلات کی شرح میں اضافے کی ضرورت ہے، موسمیاتی تبدیلی،عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے منفی اثرات کم کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں، نوجوان اور سول سوسائٹی جنگلات کے رقبے کو بڑھانے کے لیے مدد کریں۔ صدر مملکت کا یہ بھی کہنا تھا کہ مون سون درخت شجرکاری مہم جنگلات میں اضافے، ملک میں ہریالی بڑھانے، ماحول صحت مند اور صاف بنانے کا بہترین موقع ہے، جنگلات اور ہریالی میں اضافہ ماحول کو آنے والی نسلوں کے لیے صحت مند اور محفوظ بنائے گا، پاکستان نے مینگرووز کی بحالی کا کامیاب اقدام کیا ہے۔واضح رہے کہ18 اگست پاکستان میں مون سون میں درخت لگانے کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
اِس میں دو رائے نہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلے کی شکل اختیار کر چکی ہے اور بہت سے ممالک اِس کے اثرات بھگت رہے ہیں وہ بھی جو اِس کے ذمہ دار ہیں اور وہ بھی جن کا گلوبل وارمنگ میں کوئی حصہ نہیں ہے جیسا کہ پاکستان کا ماحولیاتی آلودگی میں ایک فیصد بھی حصہ نہیں ہے لیکن اِس کے باوجود اِسے بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ہر سال نہ صرف قیمتی انسانی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے بلکہ مال اور مویشی کے علاوہ اربوں روپے مالیت کی فصلیں اور انفراسٹرکچر کا نقصان بھی اُٹھانا پڑتا ہے، 2022ء کے سیلاب میں پاکستان نے اربوں ڈالر کا نقصان اُٹھایا، دو سال گزر جانے کے باوجود ملکی معیشت پر اِس کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
نیشنل اوشیئنک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (این او اے اے) کی 2023ء کی سالانہ موسمیاتی رپورٹ کے مطابق 1850ء کے بعد سے ہر دہائی میں زمین اور سمندر کے مجموعی درجہ حرارت میں اوسطاً0.11 ڈگری فیرن ہائیٹ اضافہ ہوا ہے، 1982ء سے اب تک گرمی کی شدت تین گنا زیادہ ہو چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر یہی صورتحال رہی تو 2050ء تک درجہ حرارت میں اضافہ2.7 فارن ہائیٹ تک پہنچ جائے گا۔ موسمیاتی عدم توازن اور بگاڑ کی وجہ سے دنیا میں موسم کی شدت اور دورانیے میں تبدیلی آ گئی ہے،کسی ملک میں موسم گرما طویل تر اور موسم سرما مختصر ہوتا جا رہا ہے تو کہیں حالات اس کے برعکس ہیں۔ دنیا کی زمینی سطح کا تقریباً دس فیصد حصہ گلیشیرز سے ڈھکا ہوا ہے لیکن یہ تیزی سے پگھل رہے ہیں،ہر سال برف کی تہہ کم ہونے کی شرح بڑھ رہی ہے اور عالمی سطح پر سمندر کے پانی میں 21 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اِسی وجہ سے دریاؤں اور سمندروں میں طوفان آ رہے ہیں۔اِس ساری صورتِ حال سے اگر کوئی چیز مقابلہ کر سکتی ہے تو وہ درخت ہیں۔ واضح رہے کہ اِس وقت پوری دنیا کا 31 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے،جس میں سے20.1 فیصد جنگلات روس، 12.2 فیصد برازیل جبکہ 8.6 فیصد کینیڈا میں ہیں۔ نیشنل فاریسٹ پراڈکٹس سٹیٹسٹکس آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں جنگلات کی شرح صرف 0.05 ہیکٹر فی کس ہے جبکہ دنیا کی اوسط 1.0 ہیکٹر فی کس ہے، اِسی وجہ سے پاکستان کا شمار جنگلات کے لحاظ سے نسبتاً کمزور ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں تیزی سے بڑھتی آبادی کی شرح جنگلات میں کمی کا سبب بن رہی ہے، کبھی سڑکیں بنانے کے لئے درخت کاٹ دئیے جاتے ہیں تو کبھی ہاوسنگ سوسائیٹیاں آباد کرنے کے لئے درختوں کی قربانی دے دی جاتی ہے۔ 90ء کی دہائی کے بعد سے پاکستان میں جنگلات کا رقبہ مسلسل کم ہو رہا ہے۔
درختوں کے فوائد سے تو سب ہی واقف ہیں، یہ زمین کا کٹاؤ روکنے اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنے میں معاون ہونے کے ساتھ ساتھ حدت میں کمی کا موثر ذریعہ ہیں۔ یہ سالانہ اربوں میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں، ماہرین کے مطابق درخت جتنی کاربن باہر پھینکتے ہیں اِس سے دو گنا زیادہ جذب بھی کرتے ہیں جس کی وجہ فضا سے گرین ہاؤس گیس کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ مون سون درختوں کی نشو و نما کے لیے موزوں ترین سمجھا جاتا ہے، اِس وقت گرمی کی شدت کم ہو چکی ہوتی ہے، بارشوں کی وجہ سے فضا اور مٹی نم ہوتی ہے اس لئے اس موسم میں شجر کاری مہم کافی فائدہ دے سکتی ہے۔ صدرِ مملکت نے شجر کاری مہم میں نیم کا درخت لگا کر حصہ ڈالا ہے، جس کے بہت سے فوائد ہیں۔اِس سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ علاقوں میں مقامی پودا ہی لگانا چاہئے کیونکہ اس میں پھلنے پھولنے اور ماحول کے حساب سے خود کو ڈھالنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔پاکستان میں شجر کاری کی مہمات کا آغاز تو ہوتا ہی رہتا ہے، سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں سونامی درخت پراجیکٹ شروع کیا گیا تھا جس کے مثبت اثرات بھی سامنے آئے تھے لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ ماند پڑ گیا۔ پاکستان کی آبادی اِس وقت کم و بیش 25 کروڑ ہے جس میں 64 فیصد کے قریب نوجوان ہیں، ہر نوجوان مہینے میں ایک پودا بھی لگا دے تو پاکستان ہرا بھر ہو سکتا ہے۔ ارباب اختیارکو چاہئے کہ سرکاری زمینوں پر درخت لگانے کے بعد ان کی پرورش اور حفاظت کا بھی مناسب بندوبست کریں۔حکومت بھلے ہی بدلتی رہی ماحول سے متعلق پالیسیوں میں تسلسل بہر حال برقرار رہنا چاہیے۔یاد رہے کہ درخت لگانا اہم ہے مگر کس جگہ پر کس طرح کا پودا لگنا چاہئے اور اسے پروان چڑھانے کے لئے کیا تدبیر کرنی چاہئے، اِس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے ورنہ چند ہی دنوں میں پودا جل جائے گا یا مرجھا جائے گا۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنے اور کامیاب شجرکاری مہم کے لئے درست سمت میں قدم اٹھانا لازم ہے۔