قومی خزانے کی ”جیویلن تھرو“

  قومی خزانے کی ”جیویلن تھرو“
  قومی خزانے کی ”جیویلن تھرو“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  

ایک مرتبہ پھر میرے سامنے قومی خزانے کی  ”جیویلن تھرو“ ہوئی جس کی اگرچہ مالیت کم تھی لیکن احتجاج تو بنتا ہے لیکن میں ایک دفعہ سوچ میں پڑ گیا۔ میرے کالموں کو باقاعدگی سے پڑھنے والے ایک نوجوان نے مجھے یاد دلایا کہ میں نے 14اگست کے حوالے سے ”غبار آلود یوم آزادی“ کے عنوان سے جو کالم لکھا تھا اس میں اس تہوار پر خوشی کے اظہار کے بس چند ایک جملے ہی تھے جبکہ میں نے اپنا زیادہ زور بیان ان غاصبوں کی مذمت میں صرف  کیا جو اس خطے کی ”سونے کی چڑیا“ کو لوٹنے میں مصروف رہے۔ بات درست تھی لیکن میں کیا کروں۔ میں اوورسیز پاکستانی ہی سہی لیکن اپنے آپ کو محب وطن سمجھتا ہوں۔اس لئے ریاستی اثاثوں اور قومی خزانے کی لوٹ مار برداشت نہیں  کر سکتا۔

تاہم اس کے ساتھ ساتھ مجھے اپنے امیج کی فکر ہے۔ میں اپنی روز مرہ کی زندگی میں پر سکون رہتا ہوں۔ غصہ بالکل نہیں کرتا۔ کوئی بات ناپسند آئے تو اس پر شور نہیں مچاتا۔ معاملہ بگڑتا ہوا نظر آئے تو خاموشی سے اُٹھ کر چل پڑتا ہوں۔ میں اپنی تحریروں میں اکثر ناپسندیدہ باتوں کا ذکر کرتا ہوں لیکن مجھے سخت باتیں ٹھنڈے ٹھار طریقے سے کرنے کا سلیقہ آتا ہے،اس لئے میں چاہتا ہوں کہ میری تحریروں سے میرے قنوطی یا خبطی ہونے کا تاثر نہ بنے۔

ہوا یوں کہ پاکستان کے ایک نوجوان اتھلیٹ ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں ”جیویلن تھرو“ میں گولڈ میڈل حاصل کر لیا۔ اولمپکس میں چالیس سال بعد ایسی کامیابی پاکستان کے حصے میں آئی۔ اس پر پاکستانیوں نے اس اتھلیٹ کی آمد پر زبردست استقبال کیا اور جشن منایا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس پر انعامات کی بارش ہوئی۔ ایک پاکستانی ہونے کے ناتے مجھے بھی اس کامیابی پر بہت خوشی ہوئی اور یہ اتھلیٹ یقیناً انعامات کا بھی حقدار تھا۔ لیکن یہ انعامات جن کے ہاتھوں سے تقسیم ہوئے کیا یہ ان کی جیبوں سے نکلے۔ جنہوں نے دعوتیں دیں کیا اس کا خرچہ انہوں نے اپنی جیب سے ادا کیا؟ اگر نہیں تو پھر وہ کس بات کا کریڈٹ لے رہے ہیں؟ یہ سب کیسے ہوا، کس طرح ہوا یہ میری دلچسپی کا باعث بنا جو میں ابھی آپ سے شیئر کرتا ہوں۔

اس اتھلیٹ کو کروڑوں روپے نقدا ور اثاثوں کے علاوہ لاکھوں روپے کی دعوتیں دینے والوں نے جس فراخ دلی سے قوم کے اس سپوت کو نوازا اور خبروں میں اس فیاضی کا کریڈٹ لیا انہوں نے ایک روپیہ بھی اپنی جیب سے خرچ نہیں کیا۔ مجھے پاکستان میں سیلاب کے دنوں میں متاثرین کے لئے عطیات کی اپیل کرنے اور پھر ان عطیات کو متاثرین تک پہنچانے کے ذمہ دار اعلیٰ حکومتی عہدیدار یاد آ گئے۔ کم از کم میرے علم میں نہیں ہے کہ گزشتہ سیلاب یا کسی آفت کی صورت میں وفاق اور صوبوں میں حکمرانی کرنے والے خاندانوں نے اپنی جیبوں سے کوئی عطیات دیئے ہوں جن کے ذاتی اثاثوں کی کوئی حد اور  حساب نہیں ہے۔

اسی طرح پاکستانی اتھلیٹ کو نوازنے کے لئے صرف ”قومی خزانے کی جیویلین تھرو“ ہوئی۔ بے بہا دولت کے مالک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سربراہوں سمیت سرکاری عہدیداروں نے تباہ حال عوام اور مقروض قوم کی ملکیت قیمتی خزانے کو ایک اتھلیٹ پر بے دریغ لٹا دیا۔ سعودی عرب پر ایک مرتبہ پھر قدرت ”مہربان“ ہوئی۔ وہ پہلے ہی تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ حال ہی میں کھدائی کے دوران تیل کے بہت سے کنوئیں دریافت ہوئے۔ ہماری قوم کا جشن سعودیوں سے بھی بڑھ گیا۔ اس کے دو سبب تھے میرے خیال میں ایک تو ملک کو بہت سے بحرانوں کا سامنا ہے۔

اس طرح کا جشن منانے میں حکمرانوں نے بہت دلچسپی کا اس لئے بھی مظاہرہ کیا کہ کم از کم کچھ عرصے کے لئے احتجاج میں مصروف لوگوں کی توجہ بٹ جائے۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ ارشد ندیم سے پہلے  ”جیویلن تھرو“ میں اول آنے کا کریڈٹ ایک بھارتی اتھلیٹ کے پاس تھا۔ پاکستانی عوام ہر اس عمل پر زیادہ جوشیلے انداز میں خوشی کا اظہار کرتے ہیں جس میں پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں کامیابی ملے۔ 

پاکستانی قوم کا جشن درست اور میں بھی اس میں شریک ہوں میں نے سوال صرف یہ اٹھایا ہے کہ مالیت بلا شک کم تھی قومی خزانے کو لٹا کر جن حکمرانوں نے اس کا کریڈٹ لینا تھا وہ اس کی بجائے اپنی ذاتی جیبوں کو استعمال کرتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ مجھے یقین ہے جشن کے جوش میں کسی نے اس پہلو پر غور نہیں کیا ہوگا۔ میری معلومات نا مکمل ہو سکتی ہیں لیکن میڈیا سے جو کچھ پتہ چلا ہے اس کے مطابق کے پی کے، کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اپنی ذاتی جیب سے پچاس لاکھ اور مولانا طارق جمیل نے پانچ لاکھ انعام دیئے ہیں۔ نہ میں تحریک انصاف کا حامی ہوں اور نہ مولانا کا مرید لیکن انہوں نے وہ کام کیا ہے جو درست ہے۔ علی امین گنڈا پور نے یہ مثال قائم کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی خزانہ کسی کے باپ کا نہیں ہے کہ اس سے انعامات دیئے جائیں۔ انعام دینا ہے تو اپنی جیب سے دو۔ میں ان کی طرح سخت لفظ استعمال نہیں کر سکتا لیکن اصولی طور پر ان سے متفق ہوں۔ کم ہو یا زیادہ قومی خزانے کی  ”جیویلن تھرو“ہو گی تو پھر ہم تو بولیں گے۔

   

مزید :

رائے -کالم -