کتابوں کی دنیا

کتابوں کی دنیا
کتابوں کی دنیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  

کتابوں سے محبت در حقیقت شعور، وجدان اور تاریخ و تہذیب سے محبت ہے۔ دنیا کی جتنی بھی مہذب تاریخ ہے وہ اسی محبت کے طفیل آگے بڑھی ہے۔ جن قوموں نے کتاب کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا وہ نہ صرف اپنے لمحہ، موجود کو سنوار گئیں بلکہ انہوں نے اپنے فردا کو بھی روشن و منور کر لیا۔ کہتے ہیں جس گھر میں کتابیں نہیں ہوتیں وہ تہذیبی شعور کے لحاظ سے بنجر ہوتا ہے۔ زمانہ کتنا ہی ترقی کر جائے، کتنی ہی تبدیلیاں آ جائیں کتاب کا نعم البدل کوئی چیز نہیں بن سکتی۔ کتاب کا عشق آج بھی ایک زندہ حقیقت ہے، اس عشق میں مبتلا کروڑوں افراد کتابوں پر اسی طرح فدا ہوتے ہیں جیسے کوئی عاشق صادق اپنی محبوبہ پر فدا ہوتا ہے۔ پاکستان میں کتاب دوستی اور کتاب سے عشق کا رجحان آج بھی قابل قدر ہے۔ کتابیں بڑی تعداد میں شائع بھی ہو رہی ہیں اور کتابوں کی خریداری کا ایک قابل رشک سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس رجحان کو نئی نسل میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہر گھر میں بزرگوں کو اس کے لئے خود مثال بننا چاہئے۔ آج کتابوں کی دنیا میں دو نئی کتابوں کا تذکرہ مقصود ہے۔ دونوں کتابیں شعری مجموعے ہیں اور ان میں ایک پنجابی کے نعتیہ کلام پر مشتمل ہے، جبکہ دوسرا غزلیات، قطعات اور نظموں کا مجموعہ ہے۔ نعتوں کا شعوری مجموعہ پنجابی کے معروف شاعر اور استاد ڈاکٹر رزاق شاہد کی تخلیق ہے۔ جو ”ازلاں دا سر ناواں“ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جبکہ دوسرا شعری مجموعہ ممتاز محقق، نقاد اور شاعر اکرم کنجاہی کا ”الوداع“ ہے، جس میں خوبصورت شاعری قارئین کے لئے دامن وا کئے ہوئے ہے۔

ڈاکٹر رزاق شاہد کا تعلق بنیادی طور پر ملتان سے ہے۔ وہ ایک عرصہ تک ایمرسن کالج جو اب یونیورسٹی بن چکا ہے، میں پنجابی پڑھاتے رہے۔ تعلیمی بورڈ لاہور کے سیکرٹری بھی رہے، ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے لاہور کو اپنا مسکن بنایا اور گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ پنجابی میں تدریس کے فرائض ادا کرتے رہے۔ پھر انہیں دیال سنگھ ٹرسٹ لاہور کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا اور اب یہ ادارہ ان کی سربراہی میں گراں قدر کام کر رہا ہے۔ خاص طور پر سکھ برادری کے لئے ان کی خدمات اور پنجابی اور گورمکھی کے فروغ کے لئے ان کی کوششیں قابل قدر ہیں۔ آج کل وہ ڈائریکٹر عالمی ادارہ برائے پنجابی کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ ان کے اس سے پہلے چھ پنجابی شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ پنجابی زبان ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ان کا شمار پاکستان کے ان گنے چنے افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے پنجابی زبان اور ادب کو بام عروج پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کا تازہ نعتیہ مجموعہ ”ازلاں دا سر ناواں“ عشق نبیؐ میں ڈوب کر لکھی گئی شاعری کا ایک بے مثال مرقع ہے۔ ڈاکٹر رزاق شاہد کو چونکہ پنجابی زبان کے تہذیبی رچاؤ اور اس کی ڈکشن کے باریک حوالوں پر دسترس حاصل ہے اس لئے ان کی نعتوں میں جو مٹھاس اور عقیدت کا رچاؤ موجود ہے وہ پنجابی شاعری میں ایک نئی لہر کو ظاہر کرتا ہے اس کتاب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر رزاق شاہد شاہد نے پنجابی نعت کے سفر پر ایک مبسوط مقالہ بھی لکھا ہے۔ چونکہ پنجابی ادب ان کا مضمون ہے اور وہ اس میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں، اس لئے ان کا یہ مقالہ پڑھنے والے کو ان تمام منزلوں سے متعارف کراتا ہے جو پنجابی نعت نے طے کی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پنجابی نعت پر اتنا کام نہیں ہوا جتنا ہونا چاہئے تھا، اردو نعت گوئی کی طرح پنجابی نعت بھی اپنے اندر شاعری کے اعلیٰ اوصاف کے ساتھ ساتھ معانی و مفہوم کی ایک لا متناہی دنیا آباد کئے ہوئے ہے۔ ڈاکٹر رزاق شاہد کا یہ شعری مجموعہ عشق رسولؐ میں ڈوب کر لکھی گئی شاعری کا ایک پر نور حوالہ ہے۔ ڈاکٹر رزاق شاہد کو زبان و بیان پر جو قدرت حاصل ہے، اس کا اس مجموعے میں ہر صفحہ پر اظہار ہوا ہے۔ نعت نگاری میں شاعر کے پاس غزل کی طرح کھل کر اظہار کرنے کے مواقع نہیں ہوتے کیونکہ قدم قدم پر احترام اور عقیدت کی نزاکتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے، تاہم اس مجموعے میں شامل نعتیں جہاں عقیدت کا اظہار ہیں وہاں وہ ایک طرح سے سیرتؐ و اسوہئ حسنہ کی عظمتوں کا بیان بھی ہیں۔ ڈاکٹر رزاق شاہد کو اس مجموعے کی اشاعت پر دلی مبارکباد۔

اکرم کنجاہی کراچی میں مقیم ہیں۔ پیسے کے لحاظ سے بینکر ہیں لیکن اپنی زندگی ادب و شعر کے لئے وقف کی ہوئی ہے۔ وہ درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں جن میں ہر صنف کی کتابیں شامل ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کی اہلیہ سفینہ اکرم طویل علالت کے بعد دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ یہ صدمہ جانکاہ اکرم کنجاہی کے لئے کسی بڑے المیے سے کم نہیں، اسی کیفیت میں انہوں نے جو شاعری تخلیق کی اور اس سے پہلے جو تخلیق کرچکے تھے، اسے انہوں نے ”الوداع“ کے نام سے شعری مجموعے میں شامل کر دیا ہے۔ یہ مجموعہئ نظم و غزل ہے تاہم غزل کا شعبہ زیادہ دقیع ہے کہ اس میں ایسی غزلیں سرزد ہوئی ہیں جو کسی بڑے درد میں ڈوبے بغیر نہیں لکھی جا سکتیں اس کتاب کے آغاز میں اکرم کنجاہی نے اپنی اہلیہ کی رفاقت میں گزرے ماہ و سال اور پھر ان کی بیماری اور آخری دنوں کا جو احوال بیان کیا ہے، وہ بذات خود ادب کا خوبصورت شہ پارہ ہے۔ جب درد کی انی کسی تخلیق میں ڈھل جاتی ہے تو ایک شاہکار تخلیق ہوتا ہے۔ جو اپنے قاری کو ترفع کے اس مقام پر لے جاتا ہے جہاں پہنچنا سوائے ایک جان لیوا احساس کے ممکن نہیں ہوتا۔ ان کی اس مجموعے میں شامل شاعری کے حوالے سے شاعر علی شاعر نے لکھا ہے۔ ان کے اشعار قارئین کا کلیجہ چیرے دے رہے ہیں، یہ اپنے پڑھنے والوں کے چہروں کی خوشی کو غمی، تازگی کو اداسی، اور مسرت کو پریشانی میں بدل رہے ہیں۔ ہر سوچنے والے ذہن کو اپنے حصار میں لے رہے ہیں اور دیکھنے والی آنکھوں کو دریا کر رہے ہیں۔ موضوعاتی شاعری میں یکسانیت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن اکرم کنجاہی  کے اس مجموعے میں اگرچہ غزلیں اسی الوداعی کیفیت کے زیر اثر ہیں، جو اہلیہ کی وفات کے بعد طاری ہوئی، لیکن شاعری کا الزام اور غزل کا تغزل و چاشنی کہیں بھی یکسانیت کا شکار نہیں ہوئی۔ یہ ایک نوحہ گری ہے مگر اسے کسی فرد تک محدود نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ ایک عالمگیر دکھ کی تعبیر کرتی شاعری ہے، جسے پڑھنے والا اپنے دل میں اس کی کسک محسوس کرتا ہے۔

جاتا ہے جو بھی لوٹ کے آتا ہے کون سا

رستہ ترے دیار کو جاتا ہے کون سا

اب تو چلا گیا ہے تو صورت یہی ہوتی

اب باغباں بھی پھول کھلاتا ہے کون سا

مزید :

رائے -کالم -