بڑا ہی آسان تھا سب کچھ کہنا، وقت آ گیا ہے کہ اپنے تھکے ماندہ وجود اور زخمی روح کو تھوڑا سکون دے سکوں، پر یہاں بھی بشری فطرت آڑے آئی

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:367
ذلتوں کے مارے لوگ
فرصت اگر ملے تو پڑھنا مجھے ضرور
میں نایاب الجھنوں کی مکمل کتاب ہوں
برسوں کی اَن تھک اور مسلسل مشقت کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ میں بھی اپنے تھکے ماندہ سال خوردہ وجود اور زخمی روح کو تھوڑا سا سکون دے سکوں۔ پر یہاں بھی بشری فطرت آڑے آئی اور دوسرے تمام دنیا سے محبت کرنے والوں کی طرح مجھے بھی اپنے رب پر توکل میں کچھ کمی محسوس ہوئی، اپنے مخصوص حالات کے مدنظر، جس میں مجھے اپنے دکھوں کی صلیبیں خود ہی گھسیٹنا تھیں، میں نے سکون قلب کی خاطر اپنے مالیاتی معاملوں کو کئی بار الٹ پلٹ کر کے دیکھا اور نادان دل کو تسلی دے لی کہ جہاں اتنی کٹ گئی ہے تو باقی بھی آرام اور سکون سے گزر ہی جائے گی۔ جب میں یہ سب کچھ کر رہا تھا تو ہو سکتا ہے اللہ اوپر کہیں بیٹھا میری اس خام خیالی پر مسکرا رہا ہو گا کہ کچھ لوگ کتنے سادہ اور نادان ہوتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ شاید میری رضامندی کے بغیربھی وہ زندگی کی خوشیاں سمیٹ سکتے ہیں۔
میں کبھی بھی فرشتہ نہیں رہا تھا اور نہ میں نے کبھی ایسا ہونے کا دعوی کیا۔ ایک عام سے انسان کی طرح زندگی بسر کی جس میں خوشیاں بھی تھیں اور پریشانیاں بھی۔ ہر قسم کے اچھے برے اعمال جھولی میں ڈالے پھر رہا ہوں۔ کوشش کی تھی کہ دنیا میں کچھ ٹھیک بھی کر لوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اعمال نامے میں برائیاں اور کمزوریاں تو ہر سو بکھری ہوئی نظر آتی ہیں، لیکن نیک کام تو خال خال ہی ملتے ہیں وہ بھی شاید میرے رب نے میری عزت رکھنے کی خاطر جان بوجھ کر مجھ سے کروائے تاکہ میرا نامہئ اعمال مکمل طور پر سیاہ ہونے سے بچ جائے اور دنیا میں اپنی ہستی اور وجود کا کچھ بھرم رہ جائے۔
میں اپنی جھوٹی انا کو مطمئن کرنے کے لیے خود کو اور دوسروں کو سمجھاتا رہتا ہوں کہ اپنی زندگی اللہ کی رضا کے مطابق بسر کرنا چاہیے اور ہر شب سونے سے پہلے اس کی دی گئی بے شمار نعمتوں پر رب کا شکر ادا کرنا چاہیے۔بڑا ہی آسان تھا یہ سب کچھ کہنا، لیکن جب بات اپنے پر آئی تو دن کو کیے جانے والے سب کام اور اگلے دن کے منصوبے تو یاد رہے، لیکن خدا کی اس ذات کا ذکر اور شکر ادا کرنا بھول گیا جس کے کرم سے صحیح سلامت بیٹھ کر میں گھنٹوں اپنی خوبیاں اور دوسروں کی برائیاں بیان کیا کرتا ہوں۔ ندامت سے سر جھکا رہتا ہے۔ حقیقت میں نہ صحیح، لیکن سوچوں میں اپنے آپ کو ہمیشہ گناہ گار اور مجرم ہی پایا ہے، جس کی تار تار جھولی میں سیاہ کاریوں، پشیمانیوں اور گناہوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ جب کبھی ضمیر جاگ اٹھتا ہے اور اپنے کیے پر شرمساری محسوس ہوتی ہے تو اپنے رب کے سامنے جھک جاتا ہوں اور صدق دل سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس بوجھ سے ایک دفعہ، صرف ایک دفعہ نجات دلا دے تو میں اس دھلی ہوئی چادر کو پھر کبھی داغ دار ہونے نہیں دوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ تو ایساکر ہی دے گا لیکن یہ پھر بھی میں ہی ہوں گا جو اگلا دن ختم ہونے سے پہلے ایک بار پھر اسی کیفیت میں مبتلا ہو کر گناہ گاروں کی صف میں سب سے آگے کھڑا نظر آؤں گا۔ میری ڈھٹائی اور اپنے رب پر ایمان اور بے تحاشا اعتماد کی انتہا یہ ہے کہ اکثر ایسا بھی ہوا کہ کوئی نافرمانی یا گناہ کرتے ہوئے اچانک میرا ضمیر جاگا تو اسے تھپک کر سلا دیا،یہ کہہ کر کہ فکر نہ کر و ”وہ“ ہے نا! میں بعد میں اسے منا لوں گا؛ کیونکہ میں خطا ہی خطا ہوں اور وہ، وہ تو عطا ہی عطا ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔