صرف انتخابات ہی مسئلے کا حل نہیں ہیں

صرف انتخابات ہی مسئلے کا حل نہیں ہیں
 صرف انتخابات ہی مسئلے کا حل نہیں ہیں

  

 ہم ایک ایسے معاشرے کی کہانی ہیں جو گزشتہ پینسٹھ برسوںسے ایک ہی دائرے میں بے مقصد گھوم رہا ہے، یا بے سمت صحرا نوردی کی صعوبتیں اٹھارہاہے اور ابھی تک ہم نہ تو اپنے قومی مقاصد کا تعین کر پائے ہیں اور نہ ہی اس کثیر الالسانی اور پیچیدہ ثقافت کے حامل معاشرے کے لئے کسی قابل ِ قبول سیاسی نظام کو طے کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ بطور قوم ہماری بقاکا مسئلہ جتنا شدید ہے اتنا ہی غیر یقینی بھی ہے۔ افسوس کہ یہ نوآزاد شدہ قوم آزادی کے بعد سیاسی جغرافیائی خدوخال میں پنہاں خامیوں پر قابو پانے کے چیلنج سے عہدہ برآ نہ ہو سکی۔ سب سے پہلے لسانیت کے آسیب نے ہمیں جکڑ لیا آج انہی لسانی تعصبات کا نام ثقافت، تاریخ اور علاقائی ترجیحات رکھ دیا گیا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں جاگیرداری اور قبائلی نظام نے اپنے پنجے اتنی مضبوطی سے گاڑے ہوئے ہیں کہ نظام میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن دکھائی نہیں دیتی ہے۔ انہوں نے ملک میں اصلاحات لانے کی ہر کوشش کی مزاحمت کی ،کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ اس کے نتیجے میںان کی ملک پرجابرانہ گرفت ڈھیلی پڑجائے گی اور ان کے مفادات کو نقصان پہنچے گا، چنانچہ ان ناگزیر ، لیکن مفاد پرست، قوتوں کے ہوتے ہوئے اس امر میں حیرت نہیںہے کہ ہم ملک میں قیادت کا سنگین بحران دیکھ رہے ہیں بلکہ حکومت نامی کوئی چیز ہی دکھائی نہیں دیتی ۔ ان حالات میںقوم کو کسی صاحب ِ بصیرت نجات دہندہ کا شدت سے انتظار ہے تاکہ وہ ملائیشیا کے مہاتیر محمد اور سنگاپور کے لی کن یو کی طرح اُن کے مسائل حل کرتے ہوئے ملک کو درست سمت میں گامزن کردے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ انیس سو سنتالیس میں معرض ِ وجود میں آنے والاپاکستان صرف پچیس سال بعد ہی اپنا وجود کھو بیٹھا تھا، چنانچہ آج کے ناگہانی حالات میںخوش فہمیوں کا شکار ہو کرسنہرے التباسات کی امید لگائے ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر ِ فردا نہیں رہ سکتے ، اور نہ ہی غیر جانبدار ”ناظرین “ کی طرح بیٹھے رہنے سے اس ڈرامے کا ڈراپ سین خود کو ہماری خواہشات کے آئینے میں ڈھال لے گا۔ انیس سو تہتر کے آئین کے باوجود آج باقی ماندہ پاکستان وفاقی نظام کی ہمارے ہاں جڑ پکڑ جانے والی بنیادی خامیوں کو دور نہیں کر سکا ہے ، چنانچہ تقویت پاتی ہوئی علاقائی قوتوں کے مرکز گریز رویے کی وجہ سے اس کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے۔

پے در پے رونما ہونے والے سانحات سے بچنے کے لئے ہمیں قومی سطح پر سنجیدہ اور بامقصد کوشش درکار ہے جو ، اس سے پہلے کے بہت دیر ہو جائے،تمام نظامِ حکومت کا جائزہ لیتے ہوئے بحالی اور بچاﺅ کے اقدامات تجویز کرے۔ افسوس، جب ہمیں سنگین ترین مسائل کا سامنا ہے، ہم شتر مرغ کی طرح بے حسی کی ریت میں سر دیئے پڑے ہیں ،کیونکہ ہم ان کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔ ہماری لاچارگی کا احساس اس رویے سے ہوتا کہ جب ہم خود کچھ نہیں کرسکتے تو ہم اُن افراد کا مذاق اُڑاتے ہیں جو معاملات درست کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اپنی تاریخ کے اس نازک ترین موڑ پر ہم بطور ایک قوم خود کوبے رحم حالات کے دھارے یا اس ناقص نظام کی بہتری کی امید، جو التباس کے سوا کچھ نہیںہے، پر نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم اس معصومانہ خواہش پر بھی تکیہ نہیں کر سکتے کہ اگر ہم صبر کا دامن تھامیںرکھیں تو مشیت ِ ایزدی سے حالات خود بخود ٹھیک ہو جائیںگے، کیونکہ فطرت افراد سے تو اغماض برت لیتی ہے، لیکن اقوام کو گناہوں کی سزا بھگتنا ہوتی ہے۔

اس وقت ضروری ہے کہ ہم اپنے داخلی مسائل پر بیرونی طاقتوںکو موردِ الزام ٹھہرانے کی بجائے کھلے دل سے اس حقیقت کو تسلیم کر لیںکہ ہمارے نظام ِ حکومت میں بنیادی طور پرکوئی نہ کوئی سنگین خامی، جیسا کہ قواعدو ضوابط سے انحراف، ضرور ہے۔ چونکہ ہمارے مسائل بیرونی عوامل کی مداخلت کی بجائے ہماری داخلی کوتاہیوںکا نتیجہ ہیں، اس لئے ہمیں سب سے پہلے ترجیحی بنیادوںپر انہی پر توجہ دینی ہے۔ اس ضمن میں صرف انتخابات پر تکیہ نہیں کیا جاسکتا ، بلکہ نظام کی تبدیلی ناگزیر ہے اوراس تبدیلی کے لئے ذاتی مفاد پر مبنی خواہشات کی بجائے معقولیت کا دامن تھامنے کی ضرورت ہے۔ اپنی آزادی کے وقت سے لے کر اب تک ہمارا ناقص سیاسی رویہ اور مسخ شدہ جمہوری قدریں اس امر کی غمازی کرتی ہیںکہ ہم دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح ابھی پارلیمانی نظام ِ حکومت کے اہل نہیںہیں۔

برطانیہ نے، جہاں آج پارلیمانی جمہوریت کی قدریں نہایت مضبوط ہیں، صدیوں تک اس منزل کے حصول کے لئے جدوجہد کی۔ اگر برطانوی معاشرے کی ذہنی بلوغت کا اپنے معاشرے سے موازنہ کریں تو لگتا ہے کہ ہمیں اُ س منزل کے حصول کے لیے لامتناہی وقت تک جدوجہد کرنا ہوگی۔ ہماری ذہنی استعداد کو دیکھتے ہوئے بانی ِءپاکستان قائد اعظم ؒ نے بھی ہمارے لئے صدراتی نظام ِ حکومت تجویز کیاتھا، کیونکہ اُ ن کو شک تھا کہ ہم ابھی پارلیمانی جمہوریت کے تقاضے نہیں نباہ سکتے ۔ بادشاہت تلے طویل زندگی بسر کرتے ہوئے شاید ہمارے خمیر میں صدارتی نظام ِ حکومت کا رچاﺅ موجود ہے۔ پے در پے ناکامیوں کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ جو پتھر (پارلیمانی جمہوریت )ہماری برداشت سے باہر ہے ، ہم اس کو اٹھائے رکھنے پر اپنے اعصاب شل نہ کریں،بلکہ صدارتی نظام کو پاکستانی ضروریات کے سانچے میں ڈھال کر اپنا لیں۔

متناسب نمائندگی ، جس کے تحت قومی اسمبلی میں نشستیں سیاسی جماعتوںکو حاصل کردہ کل ووٹوں کے تناسب سے ملتی ہیں، ہمارے لئے بہتر تجویز ہے۔ اس کی وجہ سے پارلیمان میں جاگیرداروں اور وڈیروں اور سرمایہ داروں کی بجائے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے ذی فہم افراد کے پہنچنے کی گنجائش نکل آئے گی موجود ہ نظام میں تو عام آدمی انتخابات میں حصہ لینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ملک میں جمہوری کلچر کو ترقی دینے کے لیے شخصیت پرستی چھوڑ کر سیاسی جماعتوں کو اپنی تشکیل ِ نو کے مرحلے سے گزرنا چاہیے ۔ کوئی چیز بھی وراثتی سیاست سے زیادہ جمہوریت کی روح کے خلاف نہیں ہوسکتی ہے، چنانچہ اس پر پابندی لگائی جائے اور قانون سازی کرتے ہوئے جماعتوں کو اپنے اندر ونی انتخابات کرانے کا پابند بنایا جائے۔ اس کے علاوہ جمہوری قدروں میں نکھار پیدا کرنے کے لئے ضابطہ ِ اخلاق کی پیروی کرنے کا رواج بھی عام کیا جائے۔

 علاقائی مسائل کے قابل ِ عمل حل کے لئے موجود صوبائی اور وفاقی نظام پرمنطقی اور انتظامی، نہ کہ لسانی، بنیادوں پر نظر ِ ثانی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہمارا موجودہ صوبائی نظام نہ صرف بدعنوانی اور ناقص انتظام ِ حکومت کا باعث بنتا ہے، بلکہ یہ ملک کے مختلف علاقوں میں رہنے والے گروہوںکے درمیان عدم اتفاق اور کشیدگی کا بھی موجب ہے۔ ہمارا موجودہ آئین صوبوںکے حجم اور اس کی مناسبت سے ملنے والے سیاسی اور مالی فوائد کا کوئی حقیقی حل نہیں پیش کرتا ہے،چنانچہ اپنے ناقص سیاسی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے دقیانوسی وفاقی نظام، جو صرف تعصبات کے شعلوںکو ہوا دیتا ہے، کو یکسر تبدیل کرلیں ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔

جب ہم دیگر ترقی یافتہ، بلکہ ترقی پذیر، جمہوری ممالک کو دیکھتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے جیسے نظام ِ حکومت کی دنیا میں کہیں بھی کوئی مثال موجود نہیںہے۔ دنیا کا کوئی ملک اس طرح کی لسانی ، نسلی اور قبائلی تقسیم کا شکار نہیں اور نہ پاکستان جیسی آبادی اور جغرافیائی خدوخال رکھنے والے کسی ملک کے اتنے وسیع و عریض صوبے ہیں۔ محدود ذاتی اور گروہی مفاد پرستی کے جذبات کی حد بندیوں میں تقسیم اس معاشرے میںکوئی نظام ِ حکومت نہیں چل سکتا ہے۔ یہ صورت ِ حال، جس کا ہم تجربہ کر رہے ہیں، صرف انتشار اور بے عملی کو ہی دعوت دے سکتی ہے۔ ہمارا موجودہ صوبائی نظام بہت دیر سے سیاسی عدم استحکام کا باعث بنتے ہوئے ملکی سلامتی کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے۔

اس وقت پاکستان میں بیس سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں، جبکہ مختلف علاقوں میں ان کے300 کے قریب لہجے پائے جاتے ہیں۔ یہ تنوع علاقائی اور صوبائی تناﺅ کا باعث بنتا ہے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف قانون سازی کا عمل مجروح ہوتا ہے، بلکہ مرکز کی حاکمیت بھی کمزور ہوتے ہوئے ہر وقت خطرے کی زد میں رہتی ہے۔ آج کل لسانی اور نسلی بنیادوںپر نئے صوبوں کی تشکیل کا مطالبہ سامنے آرہا ہے۔ اگر اس رجحان میں اضافہ ہوتا گیا تو ہمارے پاس وفاق کے نام پر ایک کمزور اور بے عمل ڈھانچہ ہی بچے گا، جبکہ مفاد پرست، بدعنوان اور متعصب سیاست دان ملکی سلامتی سے کھیل رہے ہوںگے۔ اس مسئلے کا حل چار صوبوںکی بجائے انتظامی بنیادوں پر کم از کم چالیس نئے یونٹس ،جو جغرافیائی خدوخال اور آبادی کے تناسب سے تشکیل دیئے جائیں۔ ان یونٹس کو اگرچہ لسانی اور نسلی بنیادوںپر تشکیل دینے سے احتراز کیا جائے، لیکن اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ یہ شناختیں مجروح نہ ہوں۔اس سے ملک پر پڑا ہوا بھاری اور غیر ضروری بوجھ بھی کم ہوجائے اور بدعنوانی کے مواقع میں بھی کمی واقع ہو گی، چنانچہ عوام کی فلاح و بہبود کے کاموںکے لئے درکار وسائل میں اضافہ ہوگا۔ اگرہمارے ہاں توانا اور مراعت یافتہ روایتی سیاسی ذہنیت اس تبدیلی کے لئے راضی نہ ہو تو ان چار صوبوں کو ریاستیں قرار دے کر (بھارت کی مثال سامنے ہے) مزید صوبائی اکائیوں کے لئے آئینی گنجائش پیدا کی جا سکتی ہے۔ ان ”ریاستوں “ کے اندر صوبائی اور ضلعی حکومتوں کی ایک منتخب شدہ گورنر ، جو وفاق کا نمائندہ ہوگا، نگرانی کرے گا ،جبکہ انتظامی پولیس، قانون اور عدلیہ معاملات میں اُسے فاق کی معاونت حاصل ہوگی۔ اس صورت میں چاروں ”ریاستوں “ کو بہت کم افسرشاہی کی ضرورت پڑے گی۔

حکومتی عملداری کو لسانی اور گروہی مفادات سے پاک رکھنے کے لیے تمام انتظامی ذمہ داریاں مقامی حکومتوں کو سونپ دینی چاہئیں۔ اس طرح ان” ریاستوں“ کو وزرائے اعلیٰ ، وزراءاور بھاری بھرکم سیکرٹریٹ کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ ہر ”ریاست “ کو دس یا مزید ”صوبوں“ .... جو انتظامی یونٹس ہوں.... میں تقسیم کر دیا جائے۔ یہ اقدام سیاسی اور جغرفیائی معروضات کے پیمانوں میں اعتدال اور توازن قائم کرے گا۔ حد بندیوںکے کام میں آسانی پیدا کرنے کے لئے موجودہ ڈویژنوں اور بڑے اضلاع کو ”صوبے “ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان صوبوں میں ایک منتخب شدہ نمائندہ (اُسے وزیر ِ اعلیٰ کا نام دے لیں یا کوئی اور عنوان چن لیں) انتظامی امور کی نگرانی کرے گا۔ اس نئے نظام میں اضلاع کو انتظامی معاملات میں سب سے زیاد ہ اہمیت حاصل ہوگی۔ یہاں بھی ایک منتخب شدہ نمائندہ ہی امور کی انجام دہی کی نگرانی کرے گا۔ اس طرح ملک کی چھوٹے چھوٹے انتظامی یونٹس میں تقسیم سے ہم تعصبات اور تناﺅ کا خاتمہ کرتے ہوئے مقامی سطح پر انتظامی اختیارات منتقل کرنے میں کامیاب ہو جائیںگے۔ یہاںسے پاکستان بہتری کی طرف گامز ن ہونا شروع ہو جائے گا۔

 نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔  ٭

مزید :

کالم -