رواداری کی ضرورت
سانحہ راولپنڈی پر جس طرح پورے ملک میں ردعمل سامنے آیا،وہ ایک فطری سا عمل ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں سے ،جب سے دہشت گردی کی جنگ نے پاکستان اور اس کے عوام کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے،نجانے کیسے کیسے سانحات اس قوم پر ہو گزرے ہیں۔20کروڑ نفوس پر مشتمل اس قوم کی شاید ہی کوئی آنکھ ایسی رہ گئی ہو جو ان جان لیوا سانحات کی بناءپر نم نہ ہوئی ہو۔یہ قوم کبھی سانحہ کار ساز پر روئی تو کبھی بے نظیربھٹو کی شہادت پر، کبھی رحمان بابا کے مقبرے پر حملے نے اسے دکھی کیا تو کبھی عبدالرشید غازی کے مزار پر حملے کی بدولت لوگوں کی دل آزاری ہوئی، کبھی کراچی میں محرم کے جلوس کو خودکش دھماکے نے آ لیا اس بار بدقسمتی سے راولپنڈی میں ایسا واقعہ ہو جاتا ہے کہ جس کی راولپنڈی کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔راولپنڈی کے لوگ ہمیشہ سے باشعور اور صلح جورہے ہیں، اس کی تاریخ میں بے گناہوں اور معصوم لوگوں کا خون بہایا جانا شامل نہیں ہے، لیکن اس بار دسویں محرم کے جلوس میں نجانے ایسا کیا ہوا کہ معاملہ ہاتھ سے نکل گیا۔
لوگوں کو اپنی پولیس سے بہت سی توقعات ہوتی ہیں، لیکن وقت نے ثابت کیا کہ پولیس ایسے مواقع پر اکثر ناکام رہی ہے۔ دراصل پولیس کی ترجیحات ہی اور ہیں۔ نام کے محافظ ہاتھ میں ڈنڈا پکڑ کر بظاہر عوام کی حفاظت پر مامور دکھائی دیتے بھی ہیں ،مگر ان کے ذہنوں میں کوئی نہ کوئی پلان گردش کررہا ہوتا ہے کہ سامنے سائیکل یا ریڑھے پر آنے والے اشخاص سے سو پچاس کس طرح سے بٹورنے ہیں۔فرض شناس اور دیانت دار اہلکار آٹے میں نمک کے برابر ہیں، اس لئے دکھائی بھی نہیں دیتے۔پولیس کا ہوم ورک اگر اچھا ہوتا تو شائد راولپنڈی سانحہ کی نوبت ہی نہ آتی۔بہرحال حکومت نے فوری طور پر پاک فوج کے دستوں اور رینجرز کو بلوا لیا،جس سے حالات مزید خراب نہیں ہوئے۔ملک کی سیکیورٹی فورسز غنیمت ہیں کہ وہ ہر مشکل گھڑی میںہر اول دستے کا کام کرتی رہیں۔
بہرکیف سانحہ کی شدت ہی ایسی تھی کہ راولپنڈی میں کرفیو لگائے بغیر بات نہ بنتی۔سب سے بڑا خطرہ سانحہ کے بعد آنے والے جمعتہ المبارک کے اجتماع کے حوالے سے تھا اور اندیشہ تھا کہ لوگ نقص امن کا باعث بنیں گے اور حالات مزید بگڑ جائیں گے،لیکن جماعت اہل سنت کے سربراہ نے جمعتہ المبارک میں شریک نمازیوں سے حلف لے کر کہ وہ نماز کے بعد سیدھے اپنے اپنے گھروں اور اپنے اپنے کام کاج کی جانب جائیں گے اور کسی قسم کا جلوس یا مظاہرہ نہیں کریں گے،حالات کو قابو میں کرلیا، جس سے کم از کم ایک پیغام ضرور مل گیا کہ ہر مسلک کے سربراہ کو رواداری کے فروغ میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔اگر علمائے کرام دل سے فرقہ واریت اور تفرقہ بازی کے خاتمے کے لئے اقدامات عمل میں لائیں تو یہ قوم پھر ایک مٹھی بن کر رہ سکتی ہے۔
پاکستانی عوام میں بڑی طاقت ہے، بہت مضبوطی ہے، انہیں آپس میں لڑانے کے لئے دنیا کے بڑے بڑے ممالک ،جن میں بعض اسلامی ممالک بھی شامل ہیں ،فنڈنگ کرتے ہیں، اس کے باوجود پاکستانی قوم کے اندر برداشت کا مادہ بہت زیادہ ہے۔حال ہی میں ”واشنگٹن پوسٹ“ میں میکس فشر کا ایک مضمون شائع ہوا ہے،جس میں اس نے نسل پرستی کے حوالے سے پاکستان کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان میں صرف 6.5فیصد لوگ ایسے ہیں جو نسل پرستی کی جانب مائل ہیں، جبکہ بھارت میں 43.5فیصد اور اردن میں 51.4فیصد لوگ نسل پرستی کی جانب مائل ہیں۔گویا پاکستانی قوم میں بہت قوت ہے، انہیں صرف سلجھی ہوئی اور باشعور قیادت کی ضرورت ہے،جس قسم کی روادری اور فہم و تدبر کا ثبوت جماعت اہل سنت نے دیا ہے، اس کا مظاہرہ دیگر فرقوں اور مسالک کی جانب سے بھی کیا جانا ضروری ہے، تاکہ پاکستان اور اس کی قوم کو مزید افراتفری اور نقصان سے بچایا جائے، کیونکہ قوم جن تاریک راہوں پر چل نکلی ہے، ان سے صرف رواداری اور عدم برداشت کے جذبوں سے سرشار ہو کر ہی بچا جا سکتا ہے، وگرنہ اندھیرے مزید گہرے ہوتے چلے جائیں گے اور اس قوم کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔
اپنا مستقبل سنوارنے کے لئے قوم کے ہر فرد کو خود اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔بیرونی طاقتوں پر انحصار کرنا کہ وہ آئیں اور ہماری مدد کریں اور ہماری نجات دہندہ ثابت ہوں، بہت طفلانہ سی خواہش ہے۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کی دیگر اقوام ہمیں دہشت گردی کے عفریت، فرقہ پرستی اور نسلی تفریق میں ڈالنے میں تو کردار ادا کرسکتی ہیں،ہمیں ان مسائل سے نکالنے کے لئے ان کی کاوشیں کبھی بھی مخلصانہ نہیں ہوں گی،اس لئے ہم صرف رواداری اور باہمی محبت کے فروغ کی پالیسی پر گامزن ہو کر ہی قوم کو نفرت اور خون ریزی سے نکال سکتے ہیں۔ ٭