آرمی چیف نے جمہوری نظام کے تسلسل پر مہر تصدیق ثبت کردی

تجزیہ سہیل چوہدری:
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں گزشتہ روز پارلیمنٹ میں غیر معمولی مناظر دیکھنے کو ملے ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی اعلیٰ عسکری قیادت کے ہمراہ پارلیمنٹ آمد اور اراکین سینیٹ کے ساتھ ان کی 4گھنٹے سے زائد طوالت پر مبنی نشست جس میں تمام تکلفات کو برطرف رکھتے ہوئے تمام اہم قومی امورپر کھل کر بات چیت ہوئی ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ایک نہایت بے تکلف شخصیت کے مالک سمجھے جاتے ہیں جو بغیر کسی لگی لپٹی کھل کر حال دل بیان کرتے ہیں ، جبکہ اراکین سینیٹ بھی اسٹیبشلمنٹ کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں، سول اور ملٹری تعلقات ہمیشہ سے ہی نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں ، تاہم کچھ عرصہ سے سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کے بعد ایک تاثر تھا کہ سول و فوجی تعلقات میں تناؤ بڑھ رہاہے ، بسا اوقات بعض ایشوز پر بھی تاثر ملتا تھا کہ شائد سول و فوجی امور میں مطلوبہ ہم آہنگی کا فقدان ہے، ملک کی داخلی سیاستی صورتحال میں بڑھتی ہوئی محاذ آرائی ، اداروں کے مابین اعتماد کے فقدان کی بدولت الزام تراشیوں کا سلسلہ غیر ضروری حد تک بڑھتا ہوا نظر آرہاتھا ، دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ مل کر اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان کے سر تھونپنے میں شد و مد اختیار کرتی ہوئی نظر آرہی ہے، داخلی و خارجی ان سنگین چیلنجز کے تناظر میں سول ملٹری تعلقات میں اعتماد سازی کے حوالے سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی پارلیمنٹ میں آمد ایک خاص پیغام کی حامل ہے ، اگر چہ پارلیمنٹ میں کسی آرمی چیف کی آمد یہ پہلا واقعہ تو نہیں لیکن قبل ازیں جنرل اشفاق پرویز کیانی ،سابق ڈی جی آئی ایس آئی شجاع پاشا کے ہمراہ ایبٹ آباد کے واقعے کے بعد قومی اسمبلی کو بریف کیا تھا ، جبکہ جنرل راحیل شریف نے آپریشن ضرب عضب سے قبل تمام پارلیمانی رہنماؤں کو اعتماد میں لیا تھا ، تاہم اس کے باوجود کسی آرمی چیف کی سینیٹ آمد اور اراکین کے ساتھ گھنٹوں سیر حاصل بحث پاکستان کی تاریخ کا پہلا موقع ہی ہے ، آرمی چیف نے ہر سوال بلکہ بعض تلخ یا تنقیدی سوالات کا جواب بھی نہایت خندہ پیشانی کیساتھ اپنے روایتی کھلے ڈلے اندازمیں دیا ، آرمی چیف کا سینیٹ کی ہول کمیٹی میں جواب دہی کی پہل کا کریڈٹ ان کے ساتھ ساتھ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کو بھی جاتاہے ، کیونکہ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے اپنے تمام عرصہ میں اپنے پختہ کردار ،جمہوریت کیلئے عزم کے ساتھ اپنے عہدہ کے تقاضوں کے عین مطابق ایک ایسا نیو ٹرل کردار نبھایا ہے کہ ان کی شخصیت تمام اداروں اور سیاسی جماعتوں کیلئے قابل قبول ہے ، وہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے حوالے سے ایک نہایت پختہ سوچ کے مالک ہیں اور وہ وقتاًفوقتاًاس حوالے سے اظہار خیال بھی کرتے رہتے ہیں، لیکن اس کے باوجود سابق چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی بھی ہول کمیٹی آف سینیٹ میں ان کی دعوت پر آئے تھے ، چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی ریاستی اداروں میں حد درجہ توقیر کے حامل گردانے جاتے ہیں ، اس لئے انکی دعوت پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سینیٹ میں آگئے بلکہ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ انہیں اس سے بھی پہلے بلا یا جانا چاہئے تھا ،آرمی چیف کے دورہ پارلیمنٹ کے موقع پر سکیورٹی کے معمول کے انتظامات نظرآئے جبکہ وہ ہیلی کاپٹر پرآئے اوراسی پر واپس چلے گئے، آرمی چیف اپنے وفد کے ہمراہ پارلیمنٹ پہنچے تو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے سیکرٹری سینیٹ امجد پرویز کے ہمراہ ان کا استقبال کیا چیئرمین سینیٹ نے اپنے دفتر کے باہر انکا استقبال کیا ، چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی جب انہیں سینیٹ ہال لے جانے لگے تو چند لمحوں کیلئے انہیں اپنی قائم کردہ ’’دستورگلی ‘‘کے سامنے رکے اورانہیں اس بارے میں بتایا ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اراکین سینیٹ کے تمام سوالات کے تفصیلی جوابات دیئے اور بیشتر اراکین سینیٹ جب کمیٹی کی میٹنگ سے باہر نکلے تو ان کے تاثرات مثبت تھے ، سینیٹر مشاہد اللہ نے حالیہ دھرنے میں فوج کے کردار کے حوالے سے سوا ل کیا جس کے جواب میں آرمی چیف نے کہا کہ اگر دھرنا کروانے میں فوج کا کوئی کردار ثابت ہوجائے تو وہ مستعفی ہونے کیلئے تیار ہیں، دھرنے کے خاتمے کیلئے حکومتی ہدایات پر عمل کیا لیکن اس کیلئے بلا شبہ کچھ آوٹ آف دی وے اقدامات بھی کرنا پڑے، انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ پاکستان میں صدارتی نظام کی کوئی گنجائش نہیں ، سینیٹر پرویز رشید کی جانب سے حافظ سعید کی سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ بھی اتنے پاکستانی ہیں جتنے باقی شہری،تاہم مرکزی دھارے کے سیاست دان اگر خلا فراہم کرینگے تو کوئی نہ کوئی اس کو پر کرئے گا، انہوں نے کہا کہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کررہی ،آرمی چیف نے اہم ترین بات پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کی ، انہوں نے کہا کہ اگر سول حکومت اور پارلیمنٹ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر اور مسئلہ کشمیر حل کرنے کی سفارتی کوشش کرنا چاہے تو فوج ان کی حمایت کریگی ، تاہم بھارت کا مذاکرات کیلئے غیر سنجیدہ اور ہٹ دھرم رویہ اس میں بڑی رکاوٹ ہے ، انہوں نے سعودی عرب میں اسلامی اتحاد میں جنرل راحیل شریف کی تقرری کی حمایت کی لیکن واضح کیا کہ پاکستان ایران اور سعودی عرب کے تنازع میں نہیں پڑے گااور اسلامی اتحاد میں پاکستان کی شرکت کو یہاں فرقہ واریت کو ہوا دینے کی اجازت نہیں دی جائیگی ، جبکہ اسلامی اتحاد میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے ابھی ٹی او آرز نہیں بنے ، فوج کے احتساب کے حوالے سے انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آپ لوگ میری جواب دہی کریں لیکن اپنے افسروں اور جوانوں کا احتساب میں خود کرونگا اس کا ایک جامع میکانزم فوج کے اندر موجود ہے ، انہوں نے کہا کہ اب پیچھے کی طرف نہ دیکھیں آگے بڑھیں، مستقبل کی طرف دیکھ کر سفرکا آغاز کریں فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا اور ملکی سلامتی کے اقدامات کرنا ہیں، جمہوریت کو مضبوط کریں ہمارے لئے پالیسیاں بنائیں ہم ان پر عمل درآمد کرینگے ، آپ لوگ ذہن سے نکال دیں کہ فوج سیاست میں مداخلت کریگی ، آرمی چیف نے شام کو نجی ٹی وی چینلوں پر ریٹائر فوجی ماہرین اور تجزیہ کاروں سے فوج کی مکمل لا تعلقی کا بھی اعلان کیا ، چیف آف آرمی سٹاف کے سینٹ اراکین سے اس اشتراک کار سے ملک میں بڑھتی ہوئی بے یقینی کے بادل ضرور چھٹے ہیں آرمی چیف کے خطاب نے جمہوریت اورنظام کے تسلسل پر مہر ثبت کردی، سینیٹرز آرمی چیف کی گفتگو سے خوب متاثر نظر آرہے تھے ، سول و فوجی تعلقات میں توازن قائم کرنے کے حوالے سے یہ ایک غیر معمولی پہل تھی جسے ملک کے تمام حلقوں نے خوب سراہا ہے ، ازراہ تفنن شائد آرمی چیف کی پارلیمنٹ آمد کی برکت سے حلقہ بندیوں کے بل کیلئے اراکین سینیٹ کی مطلوبہ تعداد بھی پوری ہوگئی اور ائندہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے تناظر میں گزشتہ روز مبارک ثابت ہوا، ایک طرف بروقت انتخابات کے انعقاد کیلئے سینٹ سے بل پاس ہوگیا تو دوسری طرف آرمی چیف سے اشتراک کار سے جمہوریت اور نظام کے تسلسل کے ذریعہ ائندہ انتقال اقتدار کی راہ ہموار ہوگئی ۔