بیلا روس میں چند روز

بیلا روس میں چند روز
بیلا روس میں چند روز

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پہلا حصہ
بیلا روس میرے لئے نیا نام نہیں،تیس پینتیس سال سے سنٹرل ایشیا میں رہتے ہوئے مجھے اس ملک کی پراگرس کا علم ہوتا رہا ہے۔اور میں ہمیشہ اس بات کا شائق رہا ہوں کہ کسی طور بیلا روس اور پاکستان کے مابین دوستی کی گانٹھ بندھ جائے۔
چند ہفتے پہلے کراچی میں ایکسپو 2017 ہوا۔ پاکستان کی لائیٹ انڈسٹری کی بھرپور نمائندگی موجود تھی لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ پاکستانی کاروباری حلقوں کے علاوہ واحد دوست ملک بیلا روس کی تین بڑی فرموں نے بھی اس میں اپنی نمائندگی پیش کی۔ باقی چند ایک پاکستان جاپان اور پاکستان چین کے جوائنٹ و ینچر تھے۔
بیلا روس کی فرموں BOBRUISKAGROMASH, اور AMKODOA نے اپنے سٹال لگا رکھے تھے۔ پاکستان میں تیار ہونے والے بیلا روس ٹریکٹر نے بھی اپنا رخ انور پیش کر دیا تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ MAZ والے تابانی گروپ آف کمپنیز کے ساتھ پہلے سے ہی کام کر رہے ہیں۔ خوش قسمتی سے مجھے موقع ملا کہ میں ان فرموں کے نمائندوں سے گپ شپ کر سکوں۔ تابانی والوں کی طرف سے ان کی مہمان نوازی کر سکوں اور حمزہ تابانی نیز منیب تابانی کی شرکت سے BOBRUISKAGROMASH والوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر دستخطوں کی تقریب میں شرکت کر سکوں۔
جونہی یہ ایکسپو 2017 ختم ہوا اور اس میں حصہ لینے والے لوگ اپنے اپنے گھروں کو سدھارے تو میں نے بھی راولپنڈی کی راہ دیکھی کہ میرا خاندان وہاں رہائش پذیر ہے۔ میں تاشقند کی طرف اڑان بھرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ خبر ملی یعنی اگلے دن پاکستان بیلا روس کے وزارتی کمیشن کے پانچویں سیشن کے لئے حکومتِ پاکستان کا وفد بیلا روس کے شہر گرودنو GRODNO روانہ ہو رہا ہے۔ اس دفعہ میں جو پاکستانی منسٹر فار کامرس اینڈ انڈسٹری محمد پرویز ملک کی سربراہی میں جا رہا تھا درج ذیل حضرات شامل تھے ۔جناب عارف احمد خاں سیکرٹری اکنامکس افیئرز ڈویژن ، جناب اعجاز احمد ایڈیشنل سیکرٹری، جناب عامر نذیر گوندل جوائنٹ سیکرٹری، شیخ عمر فاروق ڈائریکڑ ٹو دی منسٹر فار کامرس اینڈ ٹیکسٹائل ، انجینئر سرفراز احمد ڈی جی PITAC ، مسٹر کے بی علی جی ایم EDB ، جناب سعودخاں راجہ سفیر پاکستان بیلا روس اور مسٹر نواب عادل خان سیکنڈ سیکرٹری سفارتخانہ پاکستان درمنسک۔۔۔ وقتِ آخر معلوم ہوا کہ رقم کا نام بھی اس وفد میں جناب محمد یعقوب تابانی کے مشیر کے طور شامل کیا گیا ہے۔ لوجی اب بیلا روس والوں سے سلام دعا ہوجاتی تو اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ ہم نے بھی تن ڈھانپنے کیلئے چند ضروری ملبوسات لئے اور چل کھڑے ہوئے ۔ معلوم ہوا کہ وہاں برف باری اور سخت سردی ہے۔ ہم تو تیار نہ تھے۔ بھلا ہوا ہمارے دوست شیرازی کا کہ ہر وقت ہر ایک کی مدد پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ انہوں نے بارش میں سردی کا لطف اٹھائے ہوئے میری مدد کی اور اسلام آباد و راولپنڈی کی دوکانوں سے سردی سے حفاظت کا ضروری سامان مہیا کر دیا۔


رات کے چار بجے ہم اسلام آباد استنبول کی پرواز سے روانہ ہوئے۔ جہاز کی دم میں آخری نشست ہمیں ملی۔ پاس ہی ایک خاتون محترم قدم انجا فرمائے ہوئے تھیں۔ چند لمحے بعد ایک عمردراز مانگ کے لائے ہوئے صاحب تشریف لائے اور ہمارے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گئے ۔ اب تو خاتون ان کے بالکل ساتھ والی سیٹ پر موجود تھیں۔ انہوں نے سارے جہاز کا جائزہ لیا اور بہر حال ایک سیٹ ایک خاتون کے ساتھ انہیں مل ہی گئی۔ جب خاتون ہماری سیٹ سے روانہ ہوئیں تو ہمارے ہمسایہ نے سکھ کی سانس لی اور لگے ہمارے ساتھ گپ شپ لگانے ۔ وقت اچھا گزرا محترم چیریٹی کا کام کرتے ہیں اور زراعت ومچھلی فارمنگ کو جدید طریقوں سے چمکانے میں مصروف رہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ حضرت گلریز کالونی کے رہائشیوں میں شامل ہیں اور ہمارے نزدیک ہی ہیں۔ ہم دونوں تقریباً ایک ہی عمر کے تھے، وطن کی ضرورتوں اور غیر ضرورتوں کے بارے میں ایک جیسا مؤقف رکھتے تھے ۔ لہٰذا استنبول تک چھ گھنٹے کا سفر بڑا خوشگوار گزرا۔ ائیر پورٹ پر بھی ہم اکٹھے ہی رہے ۔ پھر وہ مجھے میری پرواز کے رجسٹریشن پوائنٹ تک چھوڑ گئے کہ ان کی پرواز امریکا کے لئے تھی اور بعد میں تھی۔


اب کے جب میں جہاز میں داخل ہوا تو پھر میری نشست اور اس پاکستانی خاتون کی نشست اکٹھی تھیں۔ میرے ایک طرف وہ تھیں تو دوسری طرف سردار اعجاز احمد خان جعفر تھے۔ اب کے میرا سوویت یونین میں رہنے کا تجربہ کام آیا اور میں نے گوروں کے اندر کم گوروں کو پہچان کر فوراً اندازہ کر لیا کہ پاکستانی وفدمیں کون کون شامل ہے کہ ہمارے وفدکے علاوہ جہاز میں کوئی پاکستانی نہ تھا۔ جہاز کے اندر مزید کوئی سیٹ خالی نہ تھی لہٰذا خاتون کو مجبوراً اپنی سیٹ پر ہی برا جمان ہونا تھا۔ لہٰذا استنبول سے نسک تک دونوں اپنا اپنا سانس اور سفر کا حق ادا کرتے رہے۔ وہ مجبور کہ ایک اجنبی مرد ساتھ بیٹھا ہے اور میں مجبور کہ میرے دونوں طرف پاکستانی اعلیٰ قسم کے بیوروکریٹ بیٹھے ہوتے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ کوئی گستاخی ہو جائے۔ لیکن اعجاز صاحب بھی اور وہ خاتون بھی جو کہ بعد میں معلوم ہو اپاکستانی وزارتِ خارجہ کی طرف سے وفد کا حصہ تھی بہت ہی مہربان رہے اور سفر خوشگوار گزرا ۔


منسک ائیرپورٹ پر وفد کا استقبال بیلا روس کے وزیر صنعت جناب VITALY VOVK ان کے نائب اور دیگر سٹاف نے کیا۔ ضروری امیگریشن کے مسائل آسانی سے حل ہو گئے اور ہمیں گاڑیوں میں بٹھا دیا گیا۔ ہم پچھلی رات کے جاگے ہوئے تھے دن بھر بھی سفر میں گزرا اب شام ہو چکی تھی اور معلوم ہوا کہ اب یہ گاڑیاں نسک سے ساڑھے تین سو کلو میٹر دور گردونو شہر میں لے جائیں گے۔ سب تھکے ماندے لیکن میزبانوں کی نرم زبان اور چہرے کی مسکراہٹیں ہمارے حوصلے بڑھا رہی تھیں۔ راستے میں ایک جگہ تھوڑی دیر سستا یا گیا اور ہم رات جب آدھا سفر تمام کر چکی تھی مطلوبہ شہر گرودنو پہنچ گئے وہاں صوبے کے اعلیٰ حکام، گرودنو کے گورنر اور دیگر سٹاف نے استقبال کیا اور ایک تاریخی ریستوران میں کھانا پیش کیا گیا ، پھر ہوٹل لے جایا گیا۔ گرودنو میں تین دن تک دونوں ممالک کے وفود کے درمیان مذاکرات ہوتے رہے ۔ ایک دوسرے کی معاشی ثقافتی طاقت کا اندازہ کیا گیا اور متعدد معاہدوں پر دستخط کئے گئے ۔ ہمارے وفد کے تمام ممبران نے بھرپور محنت اور جوش وخروش کا اظہار کیا۔ تاہم راقم شیخ عمر فاروق ، انجینئر سرفراز احمد، مسٹر کے بی علی، مسعود کے راجہ ، نواب عادل جان اور ناصر حمید صاحب کے کام سے بہت متاثر ہوا ۔
بیلا روس وفد اپنے ایجنڈے پر بھرپور تیاری کر کے آیا تھا۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ وہ حضرات جو صرف ایک رات پہلے ہی کراچی سے منسک ایکسپو سے واپس پہنچے تھے رات بھر کا ٹرین کا سفر کر کے یہاں پہنچ گئے تھے، حالانکہ میں نے انہیں اسلام آباد ائیرپورٹ پر روانگی سے چند منٹ پہلے ہی ای میل سے اپنے آنے کی اطلاع دی تھی۔ میں اپنے وفد کی کارروائیوں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ سائیڈلائن پر ان سے بھی گپ شپ کرتا رہا ۔ طے یہ پایا کہ جب پاکستانی وفد چلا جاتے تو میں چند دن رک جاؤں اور بیلا روس صنعت سے واقفیت حاصل کروں۔
وفد نے جب واپسی کیلئے گرودنو سے منسک کا سفر کرنا تھا راقم انجینئر سرفرا ز احمد اور جناب کے بی علی کے ساتھ بارہ گھنٹے پہلے منسک روانہ ہو گئے۔ اس سے ہمیں ایک تو یہ فائدہ ہوا کہ ہر دو حضرات کی خوش دلی اور محبت کا اندازہ ہو دوسرے سفر انتہائی پر لطف گزرا اور تیرے ہم لوگوں نے منسک ٹریکٹر پلانٹ نیند منسک موٹر پلانٹ کی اکٹھے سیر کی۔ ہر دو اداروں نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ دونوں کی پروڈکٹس اپنی مثال آپ ہیں اور بیلا روس ٹریکٹر کی صورت میں پاکستان میں بیچی جا رہی ہیں ایک ادارے کے ٹریکٹر اور دوسرے ادارے کے انجن دنیا کے کسی بھی جدید ادارے کی پیداوار کا ہر طریقے سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔
جب سارا وفدمنسک پہنچ گیا تو شام کو سفیر محترم مسعود کے راجہ صاحب کی طرف سے نسک کی چھت پر ہمارا ڈنر کیا گیا۔ دراصل ایک بہت ہی اونچی عمارت میں یہ پر لطف کھانا تھا اور وہاں سے سارا منسک ہمارے قدموں میں روشن تھا۔ منسک کا یہ رات کو شاندار نظارہ اور سفیر منصب کا کھانا نواب عادل کی ہمراہی میں ہمیں ساری عمر یاد رہے گا۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -