چھ ماہ گزر گئے۔پونگال کا تہوار آیااور خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔دیہات میں بیل گاڑیوں پر رنگا رنگ روغن کیا گیا۔ بیلوں کے سینگ بھی رنگ دیے گئے۔ہرطرف میلے ٹھیلے کا سا سماں تھا۔ بچے،بوڑھے اور جوان سب یکساں مسرور نظر آتے تھے۔
گوپال سوامی نے یہ تہوار پاناپتی میں منانے کا فیصلہ کیا۔اس نے اپنے پورے خاندان کو کار میں بٹھایا اورسفر شروع کیا۔اس کے ساتھ سیٹھ نرائن اس کی بیوی اور ایک بچی بھی تھی۔معلوم نہیں باپ کے دل میں پاناپتی جانے خیال کیوں سمایا مگر بیٹے کے دل ودماغ میں طوفان برپا تھا۔ یہ جنگل اور یہ بستی اس کے لیے کربناک یادوں کی علامت تھی۔ کیارا پجاری کی معصوم لڑکی مروی اس کے دام محبت میں گرفتار ہو کر یہ سمجھ بیٹھی کہ وہ اس سے شادی کرے گا۔پھر اس نے اپنے باپ کوبھی سب کچھ بتا دیا۔ لڑکی حد سے بڑھ گئی تھی اور اسے ٹھکانے لگانے کے لیے ہزاروں روپے خرچ کرنے پڑے۔خصوصاً اپنے شوفر،داس کا منہ بند رکھنے کے لیے بار بارکثیر رقم ادا کرنا پڑی۔اس کا شوفرجانتا تھا کہ سیٹھ نرائن نے لڑکی کو غوا کیا ہے مگر بعد میں نوجوان سیٹھ نے اسے کار سے اتار دیا تھا کہ وہ بدقسمت لڑکی کا حشر نہ دیکھ سکے۔
آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان... قسط نمبر 59 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہی نہیں منحوس لڑکی کا باپ جرات کرکے دھرمپورہ میں اس کے باپ کے پاس شکایت لے کر پہنچ گیا۔وہ تو غنیمت تھا کہ گوپال سوامی صرف ایک روز پہلے مدارس چلا گیا تھا، چنانچہ کیا را کو ٹھکانے لگانے کے لیے چھوٹے سیٹھ کوپوری پوری مہلت مل گئی۔اس نے غریب پجاری کا گلا گھونٹ دیا اور داس کی مدد سے اس کی لاش چالیس میل دور سڑک کے کنارے ایک گہرے تالاب میں پھینکوا دی۔
ایک ادنیٰ ملازم کے پاس نہایت قیمتی راز تھے۔ اس کے مطالبے بڑھتے رہے۔ابھی پچھلے ہفتے دونوں کے درمیان سخت تکرار ہو چکی تھی۔ داس اس سے مزید مطالبہ کررہا تھا۔ اس وقت شوفر کی آنکوں میں شیطنیت جھلک رہی تھی۔
سیٹھ نرائن نے بھی ذہن میں ایک منصوبہ تیار کرلیا۔پونگال کے تہوار سے فارغ ہوتے ہی وہ ایک شکاری مہم پر روانہ ہو گا۔داس بھی اس کے ساتھ ہو گا۔جنگل میں اسے گولی مار کر ہمیشہ کے لیے اسے اپنے راستے سے ہٹا دے گا۔ اسے یقین تھا کہ پولیس کی گرفت سے بچانے کے لیے اس کا باپ تجوریوں کے منہ کھول دے گا۔
وہ سب کار کے ذریعے جنگل تک پہنچے،وہاں کار کھڑی کی اور پیدل چلتے ہوئے پاناپتی کی طرف بڑھے۔وہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ڈھول باجے بجائے گئے۔کھیل ہوئے۔شام کو فارغ ہو کر انہوں نے پجاریوں سے اچھی طرح اطمینان کر کے کہ جنگل ہاتھیوں سے پاک ہے، واپسی کا سفر کیا۔
وہ پاناپتی اور سڑک کے درمیان ہی تھے کہ ایک حادثہ رونما ہوا۔
سیٹھ نرائن اور اس کا باپ گفتگو میں محو آگے آگے چل رہے تھے۔پیچھے سیٹھ کی بیوی بچے کی انگلی پکڑے چلی آرہی ھی۔بچہ رونے لگا۔ جنگل میں کوئی انسانی آواز خطرے کا باعث بن جاتی ہے اور درندے تو معصوم بچے کی فریاد پربھی کان نہیں دھرتے۔اچانک غراہٹ سنائی دی۔معلوم نہیں سیاہ دھاریوں والا درندہ زمین سے نکلا یاآسمان سے ٹپک پڑا۔اس نے بچے کو دبوچ لیا۔ بے چاری ماں خوفزدہ ہو کر چیخی مگر ساتھ ہی اس کی ممتا انگڑائی لے کربیدار ہو گئی۔اس نے بچے کو بچانے کے لیے اپنے آپ کو شیر کے سامنے گرادیا۔شیر نے اسے بھی دبوچ لیا۔ دونوں آدمیوں نے شیر کی گرج سن کر دم بھر کے لیے پیچھے کی طرف دیکھا۔ پھر وہ دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
سیٹھ نرائن جوان تھا،اس لیے پہلے سڑک پر پہنچ گیا لیکن گوپال سوامی بوڑھا تھا،وہ راستے میں کئی بار ٹھوکریں کھا کر گرا آخر گرتا پڑتا وہ بھی کار تک پہنچ گیا۔داس نے انہیں فوراً سوار کیا اور کار اسٹارٹ کردی۔اگلی صبح وہ ایک جم غفیر لے کر جنگل کی طرف گئے۔ماں اوربیٹھا جائے حادثہ پراسی طرح مرے پڑے تھے۔ بچے کے گلے پر دانتوں کے نشان تھے اور ماں کے دل کے عین اوپر پنجوں کی خراشیں آئی تھیں۔اردگرد زمین پر شیر کے پنجوں کے نشان کہیں نظر نہ آئے۔
ہر شخص تصور کر سکتا ہے کہ آس پاس دیہات میں خوف اور دہشت کی کیسی شدید لہر دوڑ گئی ہو گی۔ ان دنوں پورے جنگل میں کسی آدم خور شیر، چیتے یا ہاتھی کی خبر نہ تھی، پھر سیٹھ کی بیوی اور بچے کو کس چیز نے موت کے گھاٹ اتارا! قاتل کہاں سے نمودار ہو گیا تھا؟اس سوال کا جواب کوئی شخص نہ دے سکا۔ پھر اس درندے نے انہیں چٹ کیوں نہیں کیا!یہ ایک اور اسرار تھا۔
لائیو ٹی وی پروگرامز، اپنی پسند کے ٹی وی چینل کی نشریات ابھی لائیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
میں اس واردات کے وقت بیس میل دور شمال کی جانب اپنی زمنیوں پر تھا لیکن میرے کانوں میں اسکی بھنک تک نہ پڑی۔میں انچیتی سے روانہ ہو کرایک اور ’’پتی‘‘جس کا نام گندالم تھا،میں پہنچا اور پھرسولہ میل دور دریا کاویری کے سنگھم پر میں نے پہلی بار اس داستان کو سرگوشیوں کے انداز میں سنا۔ یہاں کے مچھیرے پاناپتی کے اس واقعے پر تبصرہ کررہے تھے۔
میں مختصر راستے سے دریائے چنار کے کنارے کنارے پاناپتی پہنچ گیا۔ ایک گھنے درخت کے سائے میں بیٹھے چرواہے اور پجاری حالیہ واردات پر بحث کررہے تھے۔شیرکے ڈر کے مارے اپنے مویشی جنگل میں لے کر نہ گئے تھے۔اکثر چرواہوں کا خیال تھا کہ خوف کی کوئی وجہ نہیں۔جس شیر نے واردات کی ہے وہ آدم خور نہیں،کیونکہ اس نے اپنے شکار کو چھوا تک نہیں۔نہ یہ شیر، مویشیوں کا شوقین ہے کیونکہ ایک عرصے سے کبھی کسی مویشی کے غائب ہونے کی اطلاع نہیں ملی۔یہی نہیں وہ عام شکار بھی نہیں کر تا کیونکہ آج تک کہیں کسی ہرن یا سانبھر کی بچی کچی ہڈیاں دیکھنے میں نہ آئی تھیں۔در حقیقت یہ نہ شیر تھا نہ چیتا!یہ گوشت پوست کا درندہ تھا ہی نہیں،یہ تو پجاری کی روح تھی جو درندے کے روپ میں اپنا انتقام لے رہی تھی۔
ایک بڑے بوڑھے نے میرے کان میں سرگوشی کی:’’ابھی ڈرامہ منطقی انجام کو نہیں پہنچا۔ کیا را کی پھٹکار نے اثر دکھایا ہے۔حقیقی مجرم تو بچ نکلے تھے۔ سیٹھ نرائن اور شوفر داس بھی مکافات عمل کو پہنچنے والے ہیں۔‘‘(جاری ہے )
آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان... قسط نمبر 61 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں