سیاست کہاں ہے

سیاست کہاں ہے
سیاست کہاں ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کراچی کے وکلاء نے لاہور میں دل کے ہسپتال والے مریضوں اور ڈاکٹروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے جلوس نکالا۔ یہ ایک زندہ ضمیر رکھنے والوں کا احتجاج تھا۔ انہوں نے کسی اور کو تو نہیں انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کے لئے ہمیشہ آواز بلند کرنے والے سینیٹر رضا ربانی کو یقینا احساس دلایا ہو گا کہ ابھی پاکستان میں ہر طرف موت کا سناٹا نہیں ہے۔ ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی ہم پیشہ برادری کے انسان دشمن رویوں کے بارے میں نہ صرف جمِ غفیر کا حصہ نہیں بنتے، بلکہ ان کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات بھی کرتے ہیں۔پی آئی سی کے شرمناک واقعہ کے بعد ایک بلوچ نوجوان نے کہا کہ یہ حادثہ صرف لاہور ہی میں ہو سکتا تھا اور یہ صرف پنجاب کے وکلاء ہی کر سکتے تھے کہ جاں بلب مریضوں کی سانسوں کو روک دیں۔ برصغیر میں برطانوی راج کے دوران پنجاب پولیس اپنی شقاوتِ قلبی کے لئے مشہور تھی۔ کہا جاتا تھا کہ اگر کسی انسان پر تصور سے آگے بھی کوئی تشدد،کوئی نفسیاتی حملہ کیا جا سکتا ہے تو وہ پنجاب پولیس کر سکتی ہے اور پنجاب پولیس نے پوری جانفشانی کے ساتھ اپنا یہ کردار آج تک محفوظ رکھا ہے، بلکہ بعض حوالوں سے کچھ آگے ہی بڑھی ہے۔ ساہیوال جیسے بے شمار واقعات اس کے ”کریڈٹ“ پر ہیں۔

پنجاب میں نوکر شاہی اور سرکاری دفاتر، تحصیلدار، پٹواری، محکمہ تعلیم کے افسر، یہ سب پاکستان کے دوسرے صوبوں کی نسبت انسانی رویوں کے حوالے سے ”ممتاز“ مقام رکھتے ہیں۔ ہمارے سابق ”خادم اعلیٰ“ نے اپنے ہر دور میں اس کردار کو مزید مضبوط کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ مسلم لیگ(ن) تو پنجاب پولیس کو باقاعدگی کے ساتھ پارٹی کا حصہ سمجھتی تھی اور شائد آج بھی پنجاب پولیس اپنے آپ کو مسلم لیگ (ن) کا ہی حصہ سمجھتی ہے۔ اس صوبے کے آئی جی نے اپنی حفاظت کے لئے رینجرز طلب کر لی ہے،اب وہ یہ بتا دیں کہ پنجاب کے عوام کس طرف دیکھیں؟ لاہور میں دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر جن مقامات کو قلعہ بنایا گیا، وہ لاہور کے تھانے تھے۔ آئی جی نے کئی برس تک اپنے دفتر کے سامنے سے گزرنے والی دو رویہ سڑک کی ایک رہگزر بند کئے رکھی۔


سول لائن پولیس سٹیشن باقاعدہ ایک بنکر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس کے بعد عوام دشمن دہشت گردوں نے حملے بچوں کے لئے مخصوص پارکوں میں کئے۔ پاکستان کے عوام نے ”جہادِ افغانستان“ کی وہ قیمت چکائی کہ دوسری جنگ عظیم کے یورپ کی یاد آ گئی۔ یورپ نے تو دو کروڑ انسانوں کی قربانی دے کر اپنے آپ کو سنبھال لیا، لیکن ہم تاحال یہ بھی نہیں کر سکے۔ صرف یہی نہیں کہ ہم مادی طور پر کمزور ہوئے، ہم اخلاقی اور سماجی رویوں میں بھی دہشت گردوں کی پیروی کرنے لگے۔ ملک میں قبضہ گروپ، منشیات فروش، اغوا برائے تاوان، اسلحہ فروش تو ایسے طاقتور ہوئے کہ پارلیمنٹ کے لئے معتبر ٹھہرے۔ انہوں نے پورے ملک میں طاقت کے قانون کو ہی آئین بنا دیا، قانون بنا دیا۔ شہروں میں ایسے ایسے گروہ پیدا ہوئے جن سے نمٹنا اب قانون کے لئے آسان نہیں۔ مقدس ناموں کو اور قابلِ احترام پیشوں کو بھی قبضہ گیری کے لئے استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا گیا تو پھر وکیل کسی سے پیچھے کیوں رہتے؟ سابق قاضی القضاۃ نے تو کمال ہی کر دیا، وہ ہر کام میں مداخلت اپنا حق سمجھتے تھے۔


افتخار احمدچودھری نے جرنیلوں کے سامنے کھڑے ہونے کا انعام سود سمیت وصول کیا۔ یہی وہ دور تھا جب ہمارے وکلاء کی جرات نے مہمیز پکڑی اور پھر بابا رحمتے نے شاہین کو پہاڑوں کی چٹانوں پر بٹھا دیا۔ اب اتنی اونچائی سے انہیں تمام دنیا چھوٹی چھوٹی اور حقیر نظر آنے لگی ہے۔ عدلیہ کے جج، پولیس، صحافی، سائل، سرکاری دفاتر کے اہل کار، ہر چھوٹے بڑے مسئلے پر ہر روز عدالتیں بند…… ہڑتال، اگر نہ ہو سکی تو سانحہ ساہیوال کے فیصلے کے خلاف نہ ہو سکی۔ پوری قانونی برادری کو سانپ سونگھ گیا، لیکن ہم آج ہی اپنے رویوں پر ایک نظر ڈالنے کے لئے تیارنہیں۔ ایک طرف دنیا میں انسانی آزادی کی تمام ممکنہ رکاوٹیں دور کی جا رہی ہیں۔ انگلستان میں سکاٹ لینڈ الگ ہونے کی بات کرتا ہے۔

اسے ریفرنڈم کی اجازت دی جاتی ہے۔ ہم محض انسانی اور سماجی حقوق مانگنے والوں پر غداری کا الزام عائد کردیتے ہیں۔ پی آئی سی کا واقعہ ہمارے سماج کی عدم برداشت کی حقیقت کو واضح کر رہا ہے۔ یہاں ریاستی ادارے ہی نہیں، قوم کے لئے آئین اور جمہوریت کی بالادستی کے لئے محافظ تصور کئے جانے والے ادارے بھی اس خوفناک عدم برداشت کا شکار ہو چکے ہیں۔ معاشرتی ٹوٹ پھوٹ کا ایک منظر نامہ ابھر رہا ہے۔ پاکستان کے سیاستدانوں، دانشوروں، طالب علموں، صحافیوں، مزدوروں اور کسانوں کے لئے اپنے ملک کے تحفظ اور معاشرے کی یکجہتی کے لئے سوچنے کا وقت ہے۔ کیا پاکستان کے سیاستدان اپنے فروعی اختلافات بھلا کر اس ملک اور اس ملک کے سماج کے لئے سوچنے کا وقت نکال سکتے ہیں؟ تاریخ نے ان کے لئے ایک موقع پیدا کیا ہے۔ یہ خطرناک صورت حال ہمیں متحد ہونے کے لئے آواز دے رہی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -