پرویز مشرف کی نعش کو پھانسی دینے کا حکم غیر قانونی اور اختیارات سے تجاوز ہے
تجزیہ:سعید چودھری
چیف جسٹس پشاورہائی کورٹ مسٹر جسٹس وقاراحمدسیٹھ،سندھ ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس نذراکبراورلاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس شاہد کریم پرمشتمل خصوصی عدالت نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیاہے،مسٹر جسٹس وقار احمد سیٹھ اور مسٹرجسٹس شاہد کریم نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مجرم قراردیتے ہوئے سزائے موت کا حکم سنایاہے جبکہ مسٹرجسٹس نذراکبر نے دونوں ججوں سے اختلاف کرتے ہوئے پرویز مشرف کو اس جرم سے بری الذمہ قراردیا،تینوں ججوں نے الگ الگ فیصلے تحریر کئے،مسٹر جسٹس وقاراحمد سیٹھ نے اپنے فیصلے کے پیراگراف نمبر66میں لکھاہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پرویز مشرف کی سزا پر عمل درآمد کے لئے انہیں واپس لائیں، اگر وہ وفات پاجائیں تو ان کی نعش کو گھسیٹ کر ڈی چوک اسلام آباد پاکستان لایا جائے اور اسے 3دن تک لٹکایا جائے۔مسٹر جسٹس شاہد کریم نے جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزائے موت کی حد تک تو بنچ کے سربراہ مسٹر جسٹس وقار احمد سیٹھ سے اتفاق کیا ہے لیکن پرویز مشرف کی نعش کو پھانسی دینے اور3روز تک لٹکائے رکھنے کے ان کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا، مسٹر جسٹس شاہد کریم نے مسٹر جسٹس وقاراحمد سیٹھ سے عدم اتفاق کرتے ہوئے قراردیاہے کہ ایساکرنے کاکوئی قانونی جواز نہیں ہے،ایسا حکم عدالتی دائرہ اختیار سے تجاوز ہوگا،حکومت کی طرف سے پرویز مشرف کی نعش کو پھانسی دینے کے حکم پر شدید تنقید کی گئی ہے اورجسٹس وقاراحمد سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنے کافیصلہ کیاگیاہے،کیا جسٹس وقار احمد سیٹھ کا فیصلہ قابل عمل اور قانون کے مطابق ہے اورکیا کسی فیصلے کی بنیاد پر کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجا جاسکتاہے؟جہاں تک پرویز مشرف کی نعش کو پھانسی پر لٹکانے کی بات ہے،اس کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے،ایساکرنانعش کی بے حرمتی کرنے کے مترادف ہوگا، ملکی اور اسلامی قوانین کے تحت نعش کی بے حرمتی ایک جرم ہے،جس کے ارتکاب کا حکم نہیں دیا جاسکتا،
پاکستان کا آئین،فوجداری قوانین اور سپریم کورٹ کے فیصلے تو سرعام پھانسی کی اجازت نہیں دیتے،1994ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹرجسٹس نسیم حسن شاہ،جسٹس شفیع الرحمن، جسٹس سعد سعود جان،جسٹس عبدالقدیر چودھری اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کالارجر بنچ بھی سرعام پھانسیوں کے خلاف ازخود نوٹس کیس میں قراردے چکا ہے کہ کسی مجرم کو سرعام پھانسی دینا آئین کے آرٹیکل 14(1) کے منافی ہے۔اس آرٹیکل کے تحت ہرانسان کی حرمت اوروقار کی ضمانت دی گئی ہے،1990ء کی دہائی میں اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان نے سپیڈی ٹرائل کی خصوصی عدالتوں کے قانون مجریہ 1992ء کے تحت سرعام پھانسیوں کے معاملے پر از خود نوٹس لیا تھا اور 6فروری 1994ء کو مذکورہ لارجر بنچ نے اس پر اپنا فیصلہ سنایا تھا۔اس وقت کے ڈپٹی اٹارنی جنرل ممتاز علی مرزا نے عدالت کو حکومت کی طرف سے یقین دہانی کروائی تھی کہ آئندہ کسی شخص کو سرعام پھانسی نہیں دی جائے گی،جس پر یہ از خود نوٹس کیس نمٹا دیا گیا تھا۔سپیڈی ٹرائل کی خصوصی عدالتوں کا ایکٹ مجریہ1992ء ملکی تاریخ کا واحد قانون تھا جس کے سیکشن10میں واضح کیا گیا تھا کہ حکومت کسی شخص کو پھانسی دینے کے لئے جگہ کا تعین کرسکتی ہے۔اس قانون کے تحت حکومت کو اختیار تھا کہ مجرم کو پھانسی دینے کے لئے جیل سے باہرکسی بھی چوراہے یا میدان کا تعین کرسکتی تھی،اب یہ قانون بھی تحلیل ہوچکا ہے،سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے بعد اس قانون کے تحت بھی سرعام پھانسیاں روک دی گئی تھیں۔ملک میں اس وقت کوئی ایسا قانون رائج نہیں جو سرعام پھانسی کی اجازت دیتا ہوچہ جائیکہ کسی انسان کی نعش کو 3دن تک ڈی چوک میں لٹکائے رکھا جائے،اس بابت 1994ء ایس سی ایم آر 1028کو حوالہ کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ماضی میں 100بچوں کے قاتل جاوید اقبال کو ٹرائل کورٹ نے مینار پاکستان پر پھانسی دینے اور اس کے 100ٹکڑے کرکے تیزاب میں ڈالنے کا جو حکم دیا تھا اس پر بھی اعلیٰ عدالتوں نے عمل درآمد روک دیا تھا جبکہ سرعام پھانسی اور قاتل کے ٹکڑے کرکے تیزاب میں ڈالنے کے عدالتی فیصلے کو غیر منطقی قراردینے کی آبزرویشن دی تھی۔
اب آتے ہیں اس طرف کہ کیا کسی عدالتی فیصلے کی بنیاد پر جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کیا جاسکتاہے،آئین کے آرٹیکل209(5)اے کے تحت کوئی جج جسمانی یا دماغی نااہلی کی بنا پر اپنے عہدہ کے فرائض کو موزوں طور پر انجام دینے کے قابل نہ ہو تو اس کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا جاسکتاہے، دوسری وجہ ججوں کا مس کنڈکٹ ہے،جس کی بنیاد پر ریفرنس فائل کیا جاسکتا ہے،اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے احتساب کے لئے آئین کے آرٹیکل 209کے تحت قائم سپریم جوڈیشل کونسل نے آئین کے آرٹیکل 209(8)کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے لئے یہ ضابطہ اخلاق جاری کررکھا ہے جس کی پاسداری کا جج نہ صرف حلف اٹھاتے ہیں بلکہ آئین کے آرٹیکل 209میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کوپابند بھی کیا گیا ہے کہ وہ اس ضابطہ اخلاق کوملحوظ خاطررکھیں گے۔سپریم جوڈیشل کونسل نے سب سے پہلے 1962ء کے آئین کے آرٹیکل 128(4)کے تحت ججوں کا کوڈ آف کنڈکٹ جاری کیا تھا جو 10آرٹیکلز پرمشتمل تھا۔اگست2009ء میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی صدارت میں ہونے والے سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں آرٹیکل11کی منظوری دی گئی جس کے تحت ججوں کو آئین کے منافی حلف اٹھانے سے روکا گیا ہے۔2ستمبر2009ء کو اس اضافی آرٹیکل کے ساتھ کوڈ آف کنڈکٹ جاری کیا گیاجو اس وقت نافذ العمل ہے،اگر کسی جج کا عدالتی حکم مس کنڈکٹ کے زمرہ میں آتاہواوراس کا فیصلہ اس کی قابلیت اوراہلیت پرسوالیہ نشان لگادے تو اس کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی کرسکتی ہے،ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب لاہور ہائی کورٹ کے جج کے خلاف سپریم کورٹ نے دو فیصلوں میں آبزرویشنز دیں اور بعد میں ان کے خلاف اسی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی بھی کی گئی۔لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ملک محمد قیوم اورجسٹس نجم الحسن کاظمی پرمشتمل بنچ کے بے نظیر بھٹو کیس میں فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ نے دونوں ججوں کے خلاف آبزرویشنزدی تھیں،سپریم کورٹ نے ٹیپ سکینڈل کی بنیاد پر اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ راشد عزیز خان کے خلاف بھی آبزرویشن دی تھی،جس کے بعد حکومت نے ان کے سامنے دو آپشنزرکھی تھیں کہ یا تو وہ مستعفی ہوجائیں یاپھر سپریم جوڈیشل کونسل کا سامناکریں،ان ججوں نے مستعفی ہونے کی آپشن قبول کی تھی،دوسرے لفظوں میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب ججوں کے فیصلوں کی بنیاد پر ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کی گئی لیکن اس مطلب یہ نہیں ہے کہ جس جج کے خلاف ریفرنس جائے وہ لازمی طور پر گھر چلاجائے گا،یہ فیصلہ کرنا توسپریم جوڈیشل کونسل کااختیارہے کہ جج کا فیصلہ کس حد تک آئین کے آرٹیکل209کی زد میں آتاہے۔
تجزیہ:سعید چودھری