”تجدید عہد کے بعد کی جماعت اسلامی“

”تجدید عہد کے بعد کی جماعت اسلامی“
 ”تجدید عہد کے بعد کی جماعت اسلامی“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سید مودودی کی جماعت اسلامی پاکستان میں بالعموم اور دُنیا بھر میں بالخصوص جمہوری پارٹی کی حیثیت سے انفرادیت کی حامل ہے، بہت کم لوگ اس بات سے آگاہ ہیں جماعت اسلامی نچلی سطح سے امیر جماعت تک جمہوری ہونے کے ساتھ ساتھ احتسابی جماعت بھی ہے، نچلی سطح سے اوپر تک وارڈ سے حلقہ اور ٹاؤن تک اور ضلع سے صوبہ اور مرکز تک خود احتسابی کے ساتھ ایک دوسرے کا احتساب بلا تفریق کرنے کا دستوری حق موجود ہے، اپنی غلطیوں کا جائزہ لینا اور پھر ان غلطیوں کی روشنی میں اپنی اصلاح اگر کوئی فرد یا جماعت کرنا شروع کر دے تو شاید اس سے بہتر جماعت یا گروہ نہیں ہو سکتا۔قیام پاکستان سے لے کر اب تک جماعت نے مختلف ادوار میں اپنی پالیسیوں کا جائزہ لیا ہے اور سیاسی اور معاشرتی پہلوؤں کے مطابق فیصلے کئے ہیں اور پالیسیاں ترتیب دی ہیں، میری طرح کے بے شمار نقاد نے پالیسیوں سے اختلاف بھی کیا اور اپنی رائے کے مطابق نشاندہی کی کوشش بھی کی۔ سید مودودیؒ کی رحلت کے بعد30سالہ دور ہے،جس میں جماعت اسلامی کی قیادت کو زیادہ بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔

میری ذاتی رائے ہے جماعت کی خوبیوں اور خامیوں پر اگر ایمانداری سے نظر ڈالی جائے تو خوبیوں کا پلڑا بھاری ہے، معاشرتی پہلو پر نظر دوڑائی جائے تو اندازہ ہوتا ہے، موجودہ دور میں سید مودودیؒ کی فکر سے متاثرہ ہزاروں افراد اگر جماعت اسلامی کا حصہ نہیں بن سکتے تو اس میں ان افراد کی بجائے جماعت کی قیادت کا قصور زیادہ نظر آتا ہے۔جماعت اسلامی کے ساتھ قربت کی وجہ سے اس کو جانچنے کا زیادہ موقع ملا ہے۔ صحافت کے طالب علم کی حیثیت سے جب بھی موجودہ حالات میں سیاسی جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کا جائزہ لیا تو جماعت کے افراد انفرادی طور پر جماعتی تربیت کے نتیجے میں جس محاذ پر بھی پہنچے اپنی صلاحیتوں کا خوب لوہا منوایا۔

ایک دوست میرے ساتھ بحث کر رہا تھا کہ جماعت اسلامی کو مخصوص لابی نے تباہ برباد کر دیا ہے، جماعتی شخصیات حاوی ہو گئیں ہیں، ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں،جماعت میں پسند نہ پسند کا عنصر زیادہ ہو گیا ہے، پسند کی بنیاد پر ذمہ داریاں دی جا رہی ہیں، پوری دُنیا کے مسلمانوں کا درد جماعت اسلامی اور اس کے ادارے محسوس کرتے ہیں،جماعت اسلامی کے کارکنان اس کے اپنے ملازمین کس حال میں ہیں، جماعتی ذمہ داران کو دیکھنے اور ان سے ملنے اور دُکھ درد شیئر کرنے کا وقت نہیں مل رہا ہے، قیادت بیورو کریسی سٹائل اپنا چکی ہے، فیصلہ کرنے کی بجائے مصلحتوں کا شکار ہے، کردار اور سیرت پر توجہ نہیں دی جا رہی۔مجھ سے زیادہ جماعت کا درد رکھنے والے دوست کی تقریر ختم ہوئی تو مَیں نے کچھ دیر خاموشی اختیار کی تو دوست جذباتی انداز میں پھر بولا آپ کے پاس جواب ہی نہیں ہے،کیا جواب دیں گے؟

تسلیم کر لیں جماعت منصورہ تک محدود ہو گئی ہے، سیاسی طور پر نہ حکومت میں ہے نہ اپوزیشن کے ساتھ، بلدیاتی انتخابات کو دو ماہ رہ گئے ہیں کوئی تیاری نہیں ہے،پھر فرمانے لگے میاں صاحب کب تک خاموش رہیں گے،آپ کو پتہ ہے اپنی زندگیاں سید مودودیؒ کے مشن کے سپرد کرنے والے پچاس پچاس سال سے جماعت اسلامی کے لئے معمولی معاوضے پر دن رات ایک کرنے والے تین درجن افراد کو فارغ کرنے کے بعد گھر خالی کرنے کے نوٹس جاری ہو گئے ہیں۔اگر مخلص کارکنان سے یہ سلوک ہو گا تو کون آپ کے قریب آئے گا۔لمبی تقریر کے بعد میرے لیے خاموش رہنا مشکل ہو رہا تھا۔ مَیں نے کہا میرے دوست آپ کے جذبات یقینا جماعت کی محبت میں ہیں،لیکن آپ بعض حقائق سے آگاہ نہیں ہیں جماعت کا دستور بھی وہی ہے اور کردار بھی وہی ہے۔ جماعت پر کسی لابی کا قبضہ نہیں ہے جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ اور شوریٰ موجود ہے۔

جماعت اسلامی کا امیر بھی مرکزی شوریٰ کے فیصلوں کے مطابق پالیسیاں جاری رکھنے کا پابند ہے۔آپ کو پتہ ہے امیر جماعت اسلامی نے دوسری دفعہ منتخب ہونے کے بعد ملک بھر کے ارکان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا اور پھر ان کے سامنے اپنے آپ کو پیش کیا۔ شوریٰ نے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے اس فیصلے کو سراہا تو سراج الحق نے خود احتسابی کے عمل کو اپنے سے شروع کر کے ملک بھر کے ارکان کے ہر سطح کے اجتماع میں جماعت کے دستور کے مطابق عہدے رکنیت دوبارہ پڑھنے اور ٹوٹی ہوئی روایات دوبارہ اجاگر کرنے کا عزم کیا۔رواں ہفتے ملک بھر کا دورہ مکمل کر کے ملک بھر کے ارکان سے تجدید عہد لے چکے ہیں۔فکری اور نظریاتی طور پر مضبوط ہونے کے لئے مطالعہ کا نصاب مقرر کر دیا ہے۔جماعت اسلامی اپنی اصل کی طرف آ گئی ہے۔

سید مودودیؒ کے فرمان کے مطابق قرآن و سنت کی دعوت ایک ایک فرد تک پہنچانے کے لئے جماعت کے کلمے والے پرچم تلے عزم صمیم کر چکے ہیں۔جماعت اسلامی کی انفرادی حیثیت منشور، انتخابی نشان کے ساتھ جماعت سینیٹ کے انتخاب میں اپنی پالیسی کا لوہا منوا چکی ہے۔ جماعت اسلامی کی کوئی سیاسی پالیسی کا تاثر زائل ہو چکا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں سب14چوری ہونے والے ووٹروں کی تلاش کر رہے تھے، جماعت کی واضع پالیسی نے پاکستان سمیت دُنیا بھر کو متاثر کیا ہے، مَیں نے بتایا میرے دوست پریشانی والی بات نہیں ہے۔جماعت اسلامی انسانوں کی جماعت ہے فرشتوں کی نہیں، انسانوں سے غلطیاں ہو سکتی ہیں،غلط فیصلے ہو سکتے ہیں، دُنیاوی مجبوری کی وجہ سے مصلحت ہو سکتی ہے،مگر سب سے اچھا عمل یہ ہے اپنی غلطیوں کا جائزہ لیا جائے، جماعت نے کارکنان کے احساس کو اپنایا ہے،مَیں نے سراج الحق صاحب سے ملاقات کے ساتھ تازہ ترین ان کا خطاب سُنا، جس میں انہوں نے مسجد کو مرکز بنانے اور ارکان کو عوام میں جانے،ان کے دُکھ درد میں شامل ہونے کا وعدہ لیا ہے۔

آپ فرماتے ہیں افراد اور ان کے ادارے حاوی ہو گئے ہیں امیر جماعت نے فرمایا ہے ہر ادارے میں جماعت اسلامی کا حلقہ بنے گا وہ جماعت اسلامی کے ارکان کے ادارے چھوٹے ہوں یا بڑے، اس کے ساتھ سراج الحق نے کارکنان جماعت اسلامی، ارکان جماعت اسلامی کی حالت زار کے حوالے سے بھی الخدمت فاؤنڈیشن اور دیگر اداروں کو ہدایات جاری کر دی گئیں ہیں جماعتی افراد کے لئے سکولوں اور ہسپتالوں میں رعایتی پیکیج ملیں گے، پھر مَیں نے دوست کو حوصلہ دیا فکر نہ کریں میری اور آپ کی باتیں کالم کے ذریعے کارکنان کے ساتھ قیادت تک بھی جائیں گی۔ امید ہے ہماری بحث کو مثبت انداز سے لیں گے اَنا کا مسئلہ نہیں بنائیں گے، فیصلے میرٹ پر کریں گے۔


تجدید عہد کے بعد جماعت اسلامی کشمیریوں سے یکجہتی کے لئے22دسمبر کو اسلام آباد میں کشمیر مارچ کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی واحد جماعت رہ گئی ہے جو اب تک کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ میں بھی کشمیر نظر نہیں آیا۔ مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی ضمانتوں کے چکر میں مصروف ہیں، کشمیر کے عوام5 اگست سے دُنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں، کشمیر کا سودا کر لیا گیا ہے یہ تاثر بڑھ رہا ہے۔ جنرل مشرف کو پھانسی کا فیصلہ آ گیا ہے، کشمیر کا مسئلہ پھر پس ِ پشت چلا جائے گا۔ جماعت اسلامی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے، ملک بھر میں کشمیریوں سے یکجہتی ارکان سے تجدید عہد کا حلف لینے کے بعد 22 دسمبر کو اسلام آباد میں بڑا شو کر رہی ہے۔اس دن کو کشمیری عوام سے یکجہتی کا دن قرار دیا گیا ہے جو بڑا نیک شگون ہے۔ البتہ ایک سو ال سب جماعتوں کے ساتھ جماعت اسلامی سے کیا جا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی عوام کی کسمپرسی،بے روزگاری، مہنگائی کے لئے مارچ کب کرے گی؟

مزید :

رائے -کالم -