وزیر اعظم کو پولیس میں بہتری لانے کی ضرورت

لیاقت آباد لاہور کے رہائشی شوکت علی کیلئے 15 دسمبر کی رات قیامت بن کر آئی تھی اس رات ان کے جوان بیٹے 30سالہ جہانگیر کو جو تین کمسن بچیوں کا باپ تھا اپنے ہی علاقے میں پولیس کے ساتھ ایک مبینہ مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا،سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آنے کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ مقتول گرا ہوا تھا اور پولیس نے اسے فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا،پولیس مقابلے کی سی سی ٹی وی ویڈیو نے ڈولفن فورس کے جعلی مقابلے کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ چند ماہ قبل اس سے ملتا جلتا واقعہ وحدت روڈ پر بھی پیش آیا تھا جہاں ڈولفن سکواڈ اہلکار دن کی روشنی میں ڈاکوؤں کا تعاقب کر رہے تھے۔ یہاں بھی اہلکاروں اور ڈاکوؤں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور ایک گولی موٹر سائیکل پر اپنے والد کے ہمراہ جانے والی ایک نوجوان لڑکی کو لگی، جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہلاک ہو گئی تھی۔ ڈولفن پولیس نے موقف اختیار کیا تھا کہ لڑکی ڈاکوؤں کی گولی لگنے سے ہلاک ہوئی تھی، افسوس ناک امر یہ ہے کہ مقامی پولیس، جعلی مقابلوں کے حوالے سے واضح حکمت عملی ترتیب نہیں دے سکی، جس کے باعث آئے روز شہر میں پولیس مقابلوں کی گونج سنائی دیتی رہی اور کم و بیش ہر مقابلے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کے باعث میڈیا شور مچاتا نظر آتا ہے لیکن پولیس حکام ان خبروں کی بجائے مقابلہ کرنے والے ملازمین کی رپٹس اور رپورٹس کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، پاکستانی آئین اور پاکستان میں رائج تعزیرات فوجداری قوانین تعزیرات پاکستان، انسداد دہشتگردی ایکٹ اور دیگر کوئی بھی قانون ملک میں جعلی پولیس مقابلوں کی اجازت نہیں دیتا۔
اس میں کو ئی شک نہیں کہ آئی جی پولیس پنجاب انعام غنی محکمہ پولیس میں پائی جانیوالی خامیوں کو دور کرنے کے لیے دن رات اپنی کوششوں میں مصروف ہیں تاہم ایسے واقعات پولیس کی بڑی بدنامی کا باعث بنتے ہیں جس کے لیے سخت اقدامات کی اشد ضرورت ہے،علاوہ ازیں لاہور کے علاوہ آئی جی کی ٹیم کے سبھی آر پی او صاحبان انتہائی ایماندار اور پیشہ وارانہ مہارت کے حامل پولیس آفیسرز ہیں تاہم سی پی او ز اور ڈی پی اوز میں کئی ایسے آفیسرز شامل ہیں جنہوں نے اپنی کار کردگی کو میرٹ کی بجائے پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی خدمت سے مشروط کر رکھا ہے جس سے ادارے کی ساکھ بری طرح متاثر ہو رہی ہے،اس بات کا بھی آئی جی پولیس کوفوری نوٹس لینا چاہیے، لاہور میں پی ڈی ایم کے جلسے کی بہترین حکمت عملی کا کریڈٹ پولیس کو ہی جاتا ہے کہ یہاں ملتان جلسہ روکنے جیسی صورت حال پیدا نہیں ہونے دی گئی،اس کا ساراکریڈٹ ڈی آئی جی آپریشن اشفاق احمد خان کو دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کیو نکہ انھوں نے صحت اور نیند کی پرواہ کیے بغیر آخری پانچ روزمسلسل دن رات کام کیا اورجلسے سے ایک روز قبل ایس ایس پی آپریشن احسن سیف اللہ جو کورونا کا شکار ہونے کی وجہ سے چارج نہیں لے پائے تھے انھیں بھی بلوا لیا دونوں افسران نے خوب محنت کی 12 ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے جلسے کے باوجود لاہور میں امن کی فضا کو پرسکون بنانے اور اپنے دونوں کمانڈرکی عزت پر آنچ نہیں آنے دی،کمانڈر کی عزت کروانے کا فن جو ہم نے ڈی آئی جی اشفاق احمد خان میں دیکھا ہے اس کی جھلک آپ کو بہت کم کسی دیگر آفیسرز میں دیکھنے کو ملے گی۔
افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ انتہائی شاندار اور اعلی کارکردگی کے باوجود کوئی بھی آفیسرزلاہورسیٹ اپ میں کام کرنے کے لیے تیار نہیں، ڈی آئی جی انوسٹی گیشن کے بعد ڈی آئی جی آپریشن اشفاق احمد خان بھی ”تبادلے کی کو ششوں میں مصروف ہیں“مگروزیر اعلی پنجاب اور آئی جی پولیس انھیں کسی صورت تبدیل نہیں کر نا چاہتے ان تبادلوں کی وجہ سی سی پی او لا ہور کا جارحانہ رویہ بیان کیا جاتا ہے تین ماہ قبل تعینات ہونیوالے سی سی پی او لاہور نے یہاں کی پولیس کو نیویارک کی پولیس بنانے کا عندیہ دیا تھا اور وہ اپنی مرضی کی ٹیم بھی بنارہے تھے دو ایسے ایس پی صاحبان جنہیں کوئی بھی آئی جی لاہور تو کیا کہیں بھی تعیناتی دینے کو تیار نہ تھا،عمر شیخ صاحب نے انھیں لاہور تعینات کروا لیا،عمر شیخ نیویارک پولیس والا خواب تو پورا نہیں کر سکے مگر کمانڈر نے ان کے لگوائے دونوں ایس پی محکمانہ بے ضابطگیوں کے پیش نظر انھیں فارغ ہی نہیں سلنڈر بھی کر دیا ہے،فراغت کا مقصد ایک ”واضح پیغام“ سسٹم میں رہ کر سب کو کام کر نا ہو گا محسوس ہو تا ہے،
سی سی پی او لاہور تعیناتی کو یاد گار اورپر سکون بناناچاہتے ہیں تو پھرانھیں اپنے رویے میں تبدیلی لانے کے ساتھ اپنے کمانڈرلاہور پولیس کے آفیسرز کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا،اگر سی سی پی او لاہور فروری سے قبل گریڈ 21حاصل نہ کر سکے تو پھر پرموشن کا خواب پورا نہیں ہو سکے گاگریڈ 21کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ انھیں اپنے کمانڈر کی حمایت حاصل ہو نی چاہیے اگروہ یہ ذمہ داری بھی ڈی آئی جی آپریشن اشفاق احمد خان کو دے دیں تو ممکن ہے ان کی منزل آسان ہوجائے اس میں کوئی شک نہیں کہ سی سی پی او لاہور نے آتے ہی کچھ ایسے اقدامات بھی کیے ہیں کہ مستحق لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کے لیے انتہائی دعاگو بھی ہے لیکن بہت سارے معاملات ایسے بھی ہیں جن سے ان کی اپنی ٹیم کے آفیسرز اور کمانڈر خوش نہیں ہیں،محکمہ پولیس میں بگاڑ کے خاتمے کے لیے آئی جی کے ساتھ وزیر اعظم پاکستان کو بھی اپنا کردار ادا کر نا چاہیے۔ حکمرانوں کو یہ سب حقائق معلوم تو ہیں مگر سیاسی ”عزم کی کمی“صورتِ حال کی بہتری میں آڑے آتی ہے۔ اکثر سیاسی جماعتیں یہی چاہتی ہیں کہ پولیس انہی کی وفادار بن کر رہے۔ ایسے میں بہتری کیسے ممکن ہوگی؟