ملک میں آئینی اداروں کے درمیان ڈائیلاگ کی اشد ضرورت ہے:ورچوئل فورم
اسلام آباد (خصوصی رپورٹ)پلڈاٹ کے زیر اہتمام ایک ورچوئل فورم میں شرکا نے کہا ہے کہ اس وقت ادارہ جاتی ڈائیلاگ کی اشد ضرورت ہے تاہم نیشنل سکیوٹی کمیٹی کا اس حوالے سے کوئی کردار آئین اور قانون کی حدود نہیں آتا۔ورچول فورم میں ممتاز سیاسی شخصیات، سول اور ملٹری سروسز سے ریٹائر حکام نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اداروں کے درمیان گرینڈ ڈائیلاگ کا فوری انعقاد کیا جائے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئر مین مشاہد حسین سید، سابق سکریٹری برائے وزیراعظم پاکستان فواد حسن فواد اور سابق چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹا ف کمیٹی اور ڈی جی آئی ایس آئی وایم آئی جنرل ریٹائر احسان الحق نے کہا ہے کہ ریاست کے اہم اداروں کے درمیان فوری طور پر مذاکرات کی ضرورت ہے، وزیر اعظم، وفاقی حکومت اور پارلیمان کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان کے مستقبل کیلئے فوری طور پر ایسے قومی ڈائیلاگ کو شروع کریں۔ تفصیلات کے مطابق پلڈاٹ کے زیر اہتمام ورچول آن لائن فورم کا انعقاد کیا گیا،ورچول سیشن کو پلڈاٹ کی جوائنٹ ڈائریکٹر آسیہ ریاض نے میزبانی کی۔جس میں گرینڈ ڈائیلاگ کی اہمیت اور ضرورت پر غور کیا گیا جبکہ اس سیشن میں جائزہ لیا گیا کہ کیا نیشنل سکیوریٹی کمیٹی اداروں کے مابین ڈائیلاگ کیلئے موزوں پلیٹ فارم ہوسکتا ہے یا نہیں۔اپنے ابتدائی کلمات میں پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب نے پاکستان میں ادارہ جاتی ڈائیلاگ سے متعلق مختلف تجاویز پیش کیں۔ انہوں نے خصوصی طورپر سابق چیف آصف سعید کھوسہ کی تجویز کردہ ادارہ جاتی ڈائیلاگ کے خاکے پر روشنی ڈالی۔سابق سکریٹری برائے وزیراعظم فواد حسن فواد نے کہا کہ ڈائیلاگ فقط سول اور ملٹری اداروں کے درمیان نہیں بلکہ ریاست کے تمام اداروں کے درمیان بشمول انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کے مابین مذاکرات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا آئین اداروں کی حدودو قیود کے حوالے سے واضح اور تفصیلی ہے جبکہ حکومت کے رولز آف بزنس میں بھی ہر ادارے کی حدود و قیود اور ادارہ جاتی تعلقات کی نوعیت بیان ہے تاہم آئین تشکیل دینے والوں نے ادارہ جاتی ڈائیلاگ کی گنجائش نہیں رکھی۔ آئین کے دائر ہ کار میں ڈائیلاگ ہونا چاہیے جبکہ ایسے ادارہ جاتی ڈائیلاگ کیلئے قومی سلامتی کمیٹی کا کوئی آئینی اور قانونی مینڈیٹ نہیں ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ قانون ساز فورم پر ہونا چاہیے۔ جنرل ریٹائرڈ احسان الحق نے کہا کہ ادارہ جاتی ڈائیلاگ کی اہمیت اور ضرورت پر بات کرتے وقت ہمیں تکلیف دے تاریخی سقوط ڈھاکہ کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے تاریخی طور پر پاکستان میں نیشنل سکیوریٹی کونسل کے کئی ماڈلز کے تجربات سامنے۔ نیشنل سیکیوریٹی کمیٹی کو بنانے والی جماعت سمیت کسی نے بھی انہیں فعال نہیں بنایا۔ سیکورٹی کمیٹی کے موجودہ ڈھانچے کے تحت گرینڈ ڈائیلاگ کا انعقاد ممکن نہیں جب تک کہ اس میں حزب اختلاف کی نمائندگی نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ادارہ جاتی ڈائیلاگ کوئی تقریب یا وقوعہ نہیں بلکہ مسلسل عمل ہے جو ذرائع ابلاغ اور عوام سے دور بیٹھ ہونا چاہیے تاکہ سیاسی جماعتیں اپنا بیانیہ استوار نہ کرسکیں۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ادارہ جاتی ڈائیلاگ کے انعقاد کیلئے نیشنل سکیوریٹی کمیٹی کا کوئی کردار نہیں بنتا۔ ڈائیلاگ کیلئے پارلیمان بہترین فورم ہے جیسا کہ سینیٹ کی کمیٹی آف دی ہول کی طرز کا فورم بہترین پلیٹ فارم ہوسکتا ہے۔یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ مشرقی پاکستان سے محروم ہونے کے باجوود ہم آج تک ڈائیلاگ کیلئے رولز آف دی گیم طے نہیں کرسکے۔ آرمی اور انٹیلی جنس ادارے براہ راست ڈائیلا گ کا حصہ نہیں ہونا چا ہیں بلکہ ایک کور کمیٹی سکیوریٹی اداروں سے مذاکرات کرسکتی ہے۔ پاکستان تبدیل ہوچکا ہے ایک متحرک سماج ہے یہاں پر اب کوئی مقدس گائے نہیں رہی۔ ہر کوئی طاقت پر قابض رہنا چاہتا ہے تاہم ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر پاکستان کے مستقبل کیلئے ڈائیلاگ میں شامل ہونا چاہیے۔ پارلیمان نے پہلے بھی اہم کردار ادا کیا ہے اس مرتبہ بھی کر دار ادا کرسکتی ہے۔ پاکستان کے پاس اس وقت علاقائی سطح پر گنجائش موجود ہے کہ اپنے اندرونی معاملات کو درست کرسکیں۔
ورچوئل فورم