بیورو کریسی کا زوال (2)
ملازمت میں آنے سے ایک نئی دنیا سے تعارف ہوا۔ کچھ سرکار کے اسرار و رموز سے آگاہی ہوئی اور پاکستان کے طول و عرض ناپنے کے علاوہ جہاں گردی کا بھی خاصا موقع ملا۔ اسلام آباد تو مستقل ٹھکانہ بن گیا لیکن اس کے علاوہ کوئٹہ، کراچی، پشاور اور فیصل آباد میں قیام سے وہاں کی رنگارنگی جذب کرنے کا موقع ملا۔ پھر معاملہ ملک سے نکل کر کئی براعظموں تک جا پہنچا ذاتی اور سرکاری دوروں پر کوئی چالیس کے قریب ملکوں میں خلق خدا کے رنگ دیکھے کئی جگہ بار بار جانا ہوا۔کئی دفعہ VVIPS کی ہم رکابی کا موقع بھی ملا۔ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہااور اب تک میں امریکہ، برطانیہ،کینیڈا، انڈونیشیا، ملائشیا، ترکی اور سری لنکاکا وزٹ کر چکا ہوں۔
تقریباً چار سال نیو کیمپس کے ہوسٹلوں میں رہائش بھی ایک قیمتی تجربہ تھا۔اُس زمانے میں پاکستان میں یونیورسٹیاں بہت کم تھیں لہٰذا رحیم یار خان سے لیکر پشاور تک کے طلباء پنجاب یونیورسٹی کا رُخ کرتے تھے حتیٰ کہ بعض عرب ملکوں اور ملائشیا سے طالب علم یہاں زیرتعلیم تھے لہٰذا بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔مختلف لوگوں سے دوستیاں ہوئیں جو اب بھی قائم ہیں اگرچہ کافی لوگ ہمیشہ کیلئے ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ ڈاکٹر پروفیسر مغیث الدین شیخ، اشرف تنویر، ملک غلام رسول، ایوب دیوان اور کئی دوسروں کے علاوہ پروفیسروں میں پروفیسر وارث میر، پروفیسر مسکین حجازی اور ڈاکٹر منیر الدین چغتائی کی یادیں بھی حافظے کا حصہ ہیں۔ کچھ عرصہ اولڈ کیمپس میں Woolner ہوسٹل میں بھی قیام رہا اُن دنوں انار کلی اور مال روڈ پرخوب مٹر گشت رہی۔
یونیورسٹی میں رائٹ اور لیفٹ کی جنگ میں میرا جھکاؤ رائٹ کی طرف ہی رہا۔ اگرچہ میں سوچتا ہوں کہ سارا سچ ایک طرف نہیں تھا اور پھر اس کے نتیجے میں تلخی بڑھی۔ دھڑے بندی کا کلچر پیدا ہوا اور یوں میرٹ کا قتل ہوا۔ اگرچہ میں سرخ آندھی سے متاثر نہیں ہوا لیکن عملی زندگی میں رویہ لبرل رہا تاہم مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں Believer ہوں۔
مفتی صاحب کی کتاب میں سینئر بیوروکریٹس کے ساتھ ناروا اور انتہائی توہین آمیز سلوک کی کہانی پڑھ کر انتہائی دکھ ہوا۔ جو بھی حکمران آتے رہے انہوں نے یہی سمجھا کہ اُن کی راہ میں بیوروکریسی ہی ایک رکاوٹ ہو سکتی ہے،کیونکہ سیاست دان تو اکثر وفاداریاں تبدیل کر لیتے ہیں کچھ کوایبڈو اور یوڈو جیسے قوانین کے ذریعے میدان سے باہر نکال دیا گیا۔ ہر نئے حکمران نے سول سرونٹس کو بلا کر ڈرایا دھمکایا اور عموماً پہلی میٹنگ میں ہی کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو گیا۔ جنرل یحییٰ خان نے افسروں سے خطاب کیا تو قدرت اللہ شہاب نے کہا کہ اب پاکستان مزید مارشل لاء برداشت نہیں کر سکتا انجام یہ ہوا کہ شہاب صاحب ایک کانفرنس کے سلسلے میں باہر گئے تو وہاں سے استعفیٰ بھیج دیا۔ اگرچہ ان کی ریٹائرمنٹ میں 9 سال باقی تھے۔ استعفیٰ ایک سال تک منظور نہیں کیا گیا اور تین سال تک پینشن جاری نہیں کی گئی۔ ظاہر ہے شہاب صاحب نے مشکل وقت گزارا۔ جنرل ضیاء الحق آئے تو انہوں نے اعلیٰ سرکاری افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کافی سخت اور نامناسب باتیں کیں۔ سب خاموش رہے، لیکن لاء سیکرٹری جسٹس صمدانی نے انہیں اُسی زبان میں جواب دیا۔ صدر نے کہا کہ اجلاس کے بعد آپ مجھ سے ملیں۔ چائے پر سب لوگوں نے صمدانی صاحب کو کہا کہ آپ معافی مانگ لیں۔ صدر کے ساتھ میٹنگ میں انہوں نے بھی کہا کہ آپ معافی مانگ لیں لیکن صمدانی صاحب نے کہا کہ آپ معذرت کر لیں تو میں بھی کر لوں گا۔ صمدانی صاحب کا انجام بھی افسوسناک ہوا۔
مفتی صاحب نے اپنے کولیگس امین اللہ چوہدری اور سید منیر حسین کی کتابوں سے بھی کچھ واقعات کا ذکر کیا ہے۔ سید منیر حسین نے کتاب کے عنوان "Surviving The Wreck" میں بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ مجھے یہ کتاب بھی پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ منیر حسین صاحب نے لکھا ہے کہ وہ بلوچستان کے چیف سیکرٹری تھے ایک دن ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے انہیں فون کرکے حکم دیا کہ کوئٹہ کی پارسی فیملی کو پیپلزپارٹی میں شامل کریں۔ مفتی صاحب نے امین اللہ چودھری صاحب کی کتاب سے ایک حوالہ دیا ہے کہ کس طرح جنرل تنویر نقوی نے 1997 ء میں رحیم یار خان میں کچھ زمین خریدی لیکن ڈپٹی کمشنر نے اس مشکوک سودے میں جنرل صاحب کی مدد کرنے سے معذرت کی۔اس پر جنرل نقوی صاحب نے کہا کہ ایسے ڈپٹی کمشنروں کو درست کرنا پڑے گا۔ دو تین سال بعد اس کا موقع آ گیا۔ جنرل صاحب بیورو آف ری کنسٹرکشن کے سربراہ بن گئے تو انہوں نے بیوروکریسی سے متعلق اصلاحات کے پیکج میں ڈپٹی کمشنر کا عہدہ ہی ختم کر دیا۔ بھٹو صاحب نے جب 1300 افسروں کو نکالا ان میں بعض ایسے بھی تھے جن کی شہرت بہت اچھی تھی کچھ ایسے بھی تھے جو فوت ہو چکے تھے۔ جس وقت وفاقی وزیر غلام مصطفی جتوئی افسروں کی برطرفی کا حکم ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر پڑھ کر سنا رہے تھے اِسی دوران انہیں ایک چٹ دی گئی اور یوں ایک اور افسر کا نام بھی شامل کر لیا گیا۔ ڈاکٹر امتیاز قزلباش کا نام بھی 1300 افسروں میں شامل تھا جنہیں چند روز پہلے ڈاکٹر مبشر حسن اور رفیع رضا نے واپڈا کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے اپنی کتاب میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ فہرست کسی مناسب طریقے سے نہیں بنائی گئی تھی۔
اس ساری کہانی کے بعد اب تک پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اب نشیب کی طرف یہ سفر رُک گیا ہے؟ یاہم مسلسل لڑھکتے جائیں گے؟ موجودہ بیوروکریسی وہ ماضی والی بیوروکریسی تو نہیں رہی اب ریاض کھوکھر، آغا شاہی اور غلام اسحاق جیسی قدآور شخصیات تو نظر نہیں آتیں، تاہم بہت سے لوگ ایسے مل جاتے ہیں جن سے اِس ادارے کا کچھ نہ کچھ بھرم قائم ہے لیکن اب بیوروکریسی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی کم افسوسناک نہیں۔ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور بیورو کریسی جیسے اہم ادارے کے درمیان دو سال کے بعد بھی ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکی اور حکومت کی خراب کارکردگی کا ذمہ دار بیوروکریسی کو ہی ٹھہرایا جا رہا ہے۔ دو سال میں پنجاب جیسے صوبے میں چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کی پانچ بار تبدیلی کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل کی پینشن جس طرح روکی گئی اُس سے قدرت اللہ شہاب کے ساتھ جنرل یحییٰ کے سلوک کی یاد تازہ ہو گئی اور پھر کراچی میں قائداعظم کے مزار پر کیپٹن(ر) صفدر اور مریم نواز کی آمد کے سلسلے میں پولیس پر جو گزری وہ بھی عوام کے سامنے ہے کیا اب بھی ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت کے درمیان غلط کاموں کا موازنہ کیا جاتا رہے گایا ہم آگے بڑھیں گے؟ اِن حالات پر اہل دانش، سیاسی لیڈروں اور فیصلے کرنے والی شخصیات کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہئے۔
کتاب کے مواد پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ صرف ذاتی رنج یا دکھ کا اظہار نہیں، بلکہ ایک طرح سے قومی نوحہ ہے۔ انہوں نے دردِ دل کو بڑے خوبصورت اور بعض دفعہ علامتی زبان سے قاری تک پہنچایا ہے۔ البتہ یہ بات قابل غورہے کہ انہوں نے ضیاء الحق کے بعد کے ادوار کو نظرانداز کر دیا ہے اس طرح یہ کہانی کچھ ادھوری رہ گئی ہے۔ (ختم شد)