اب تو سبق سیکھ ہی لیں!!!

 اب تو سبق سیکھ ہی لیں!!!
 اب تو سبق سیکھ ہی لیں!!!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 سانحہ سقوط ڈھا کہ پر کف ِ افسوس ملتے ہیں اور بس۔۔۔ زندہ قوموں کی طرح اِس سے سبق ہی حاصل کرنے کی کوشش ہمارے رویوں میں نظر نہیں آتی۔اِس سانحہ عظیم کا حقیقی سبق یہ ہے کہ اگر دعویٰ جمہوریت کا ہو تو اکثریت کی رائے کا احترام لازم ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں 1970ء کے انتخابات کو واحد غیر جانبدارانہ اور منصفانہ الیکشن کہا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اِس الیکشن کے نتیجے میں وطن عزیز دو لخت ہو گیا۔ گویا ہم آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے متحمل ہی نہیں ہیں حالانکہ درست بات یہ ہونی چاہئے کہ ہم غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا کریں، عوام کی پسندیدہ اور مقبول قیادت کو ختم یا بے اثر کرنے کا رویہ ترک کر دیں۔ 1970ء کا الیکشن فوجی حکومت نے کرایا تھا، اُس کا فارمولا ”ون مین ون ووٹ تھا“۔ قدرتی بات تھی کہ مشرقی پاکستان کا ووٹ زیادہ تھا اور تقسیم بھی نہیں تھا۔ مغربی پاکستان کا ووٹ کم تھا اور تقسیم تھا،لہٰذا مشرقی پاکستان کے عوام نے میچ یکطرفہ بنا دیا۔ عوامی لیگ کو ایک کروڑ 29 لاکھ سے زیادہ ووٹ ڈال دیئے۔ مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کی 162 نشستوں میں سے 160 پر عوامی لیگ جیت گئی، سات کی سات مخصوص نشستیں بھی اسے مل گئیں۔ مغربی پاکستان سے پیپلزپارٹی سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھری۔ اس کو 61 لاکھ 49 ہزار ووٹ ملے اور وہ  قومی اسمبلی کی 81 نشستیں جیت گئی جبکہ پانچ  مخصوص نشستیں بھی اسے مل گئیں اِس طرح اُس کی نشستیں 86 ہو گئیں جو عوامی لیگ سے نصف تھیں۔ قیوم مسلم لیگ مغربی پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی تھی جبکہ عوامی نیشنل پارٹی دولتانہ مسلم لیگ،جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی نے بھی نشستیں حاصل کیں۔ جمہوری فارمولے کے تحت اقتدار پر عوامی لیگ کا بلا شرکت غیرے حق تھا مگر اُسے تسلیم نہ کیا گیا جبکہ شیخ مجیب الرحمن کو پابند سلاسل کرکے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ اُدھر تم اِدھر ہم کے نعرے لگ گئے۔ مشرقی پاکستان میں احتجاجی تحریک شروع ہوئی جسے دبانے کے لئے کارروائی کی گئی تو بھارت کی مدد سے احتجاجی تحریک علیحدگی کی تحریک بن گئی،بھارت کی فوجی جارحیت نے مشرقی پاکستان کو کاٹ کر نیا ملک بنگلا دیش بنا دیا اور اُس کو وہاں کے عوام کی حمایت بھی حاصل ہو گئی۔


اس کے بعدبچا کھچا مغربی پاکستان ہی پاکستان بن گیا۔ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اُسے کچھ عرصہ نیا پاکستان بھی کہا پھر اِسی کو دھیرے دھیرے مکمل وطن پاکستان سمجھ لیا گیا۔1977ء کے انتخابات ہوئے، اپوزیشن نے نتائج تسلیم نہ کئے، دھاندلی کے الزامات تھے،احتجاجی تحریک چلی، فوج آ گئی،مقبول عوامی قیادت کو حکومت سے ہی نہیں دنیا سے ہی رخصت کر دیا گیا۔ طویل مارشل لاء کا خاتمہ طیارے کے حادثے سے ہوا تو انتخابات کی داغ بیل ڈالی گئی۔ 1985ء کے انتخابات غیر جماعتی تھے مگر سیاسی تقسیم جماعتی بنیادوں پر ہی تھی۔ غیر جماعتی نظام میں میاں نواز شریف اُبھرے اور مقبول ہوتے چلے گئے۔ 1997ء کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت جیتنے کا کارنامہ انجام دے دیا۔اتنا سیاسی عروج ہی اُن کے زوال کا پیش خیمہ بن گیا، اُن کا تختہ اُلٹ کر اُنہیں جیل میں بند کر دیا گیا۔ پھر مقدمے، سزائیں، جلا وطنیاں، سیاسی کردار کشی اُن کی اِسی ابتلاء و آزمائش کے دوران کرکٹ ہیرو، سیاسی ہیرو بن کر اُبھرے۔ عمران خان نے اپنی مقبولیت انتخابات میں بھی ثابت کی اور اقتدار تک پہنچے، پھر وہی داستان دہرائی جا رہی ہے کہ مقبول سیاسی قیادت کو اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں لپیٹ کر محروم اقتدار کر دیا گیا۔ تجزیئے اور عوامی سروے کہتے ہیں کہ اُن کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے، وہ اب سوشل میڈیا پر ثابت شدہ اپنی مقبولیت کو انتخابات میں ثابت کرنے کا عزم لے کر شہر شہر گھوم رہے ہیں لیکن بظاہر یہ مطالبہ تسلیم ہوتا نظر نہیں آ رہا جبکہ اُن کی مقبولیت کو گہنانے کے مصالحے تیار ہو رہے ہیں،اِن مصالحوں کے اجزائے ترکیبی خود کپتان کے اردگرد موجود لوگوں سے میسر آ رہے ہیں:
کچھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کچھ مینوں مرن دا شوق وی سی


والا معاملہ چل رہا ہے۔ تیاریاں تو یوں لگ رہی ہیں کہ ایک مقبول سیاستدان کو نا اہلی کی سولی پر لٹکا کر سیاست بدر کر دیا جائے لیکن اس بار کوئی نیا متبادل تیار ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ماضی کا سیاسی مقبول لیڈر بھی فی الحال جلا وطن ہے۔ کیا سیاسی خلاء پیدا ہونے دیا جائے گا؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایوان صدر کی پھرتیاں، رابطے، مذاکرات کچھ نیا کر ڈالیں، اِس کے امکانات البتہ کم کم ہیں۔اِس ساری صورت حال میں اصل سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اب ہم سبق سیکھ ہی لیں، عوام کی رائے کو اہمیت دیں، ووٹ کو عزت دیں، اُس ووٹ کو بھی کہ جو ہماری مرضی و منشا کے برعکس ڈال دیا جائے۔
جمہوریت اِک ایسا طرز حکومت ہے کہ جس میں 
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
پھر جب بندوں کو گن لیا جائے تو پھر مان بھی لیا جائے۔ گنتی کر کے نہ ماننا اَلمیوں کو جنم دیتا ہے، اب تک کے اَلمیوں کا یہی سبق ہے اگر کوئی مان لے، سیکھ لے۔ نئے سے نئے المیے کا انتظار کرنا،اُس کا ایندھن بننا تو خود کشی ہے، اجتماعی خود کشی۔۔۔

مزید :

رائے -کالم -