عمران خان یہ سنگین غلطی نہ کریں!
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے گزشتہ دنوں عدالت میں حاضری کے موقعہ پر میڈیا سے گفتگو کے دوران جو بیان دیا وہ بے حد معنی خیز اور قابل غور ہے، انہوں نے جو موقف اختیار کیا اس کی وجہ سے ہماری قومی تاریخ کے انتہائی افسوسناک دور کی یاد کو تازہ کر دیا۔ عمران خان نے کہا کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں عام انتخابات کے موقعہ پر حکومتی انتظامیہ نے شیخ مجیب اور ان کی پارٹی کو کامیابی سے روکنے کے لئے کیا کچھ نہ کیا لیکن وہاں سے شیخ مجیب نے 162 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی تھی۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران خان کو اپنے اور شیخ مجیب کے حالات کی یکسانیت کے حوالے سے کوئی مثال دینے کی ضرورت نہیں۔ شیخ مجیب کو بھارت کی مکمل فوجی اور سیاسی سرپرستی حاصل تھی۔ اس کے کارکنوں نے مکتی باہنی کے طور پر پر تشدد کارروائیوں سے بھارتی سرپرستی میں وہاں الیکشن کا یکطرفہ ماحول پیدا کر رکھا تھا جس کے نتیجے میں شیخ مجیب نے 162 نشستیں حاصل کر لیں جبکہ عمران خان اور ان کی پارٹی کو قطعی مختلف حالات کا سامنا ہے۔ اللہ نہ کرے کہ عمران خان بھی شیخ مجیب کے نقش قدم پر سنگین غلطی کرتے ہوئے بھارت یا کسی اور پاکستان دشمن ملک کی فوجی سرپرستی کا تصور بھی کریں۔ عمران خان نے شیخ مجیب کی مثال دے کر انتہائی افسوسناک حالات کی یاد تازہ کر دی ہے۔ عمران خان کو یاد رکھنا چاہئے کہ شیخ مجیب نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے جو فاش غلطی کی تھی اس کا انجام یہ ہوا تھا کہ اقتدار ملنے کے کچھ ہی ہفتوں بعد ایک نوجوان فوجی گروپ نے رات کو شیخ مجیب اور ان کے بیٹے کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ شیخ مجیب کا یہ حشر ہوا تھا کہ تین دن تک کفن دفن ہونا نصیب نہ ہوا تھا۔ لاشوں سے بدبو آنے لگی تو دو تین افراد کی ڈیوٹی لگائی گئی جنہوں نے بالٹیوں سے پانی بھر بھر کر پھینکا اور پھر ان لاشوں کو دفن کرنے کے لئے بھیجا گیا۔
اِدھر موجودہ پاکستان میں بنگالی رہنماؤں نور الامین اور محمود علی کو حکومت پاکستان کی طرف سے عزت و احترام سے نوازا گیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار ملا تو ایک خصوصی سیکرٹ ریڈ فائل بنائی گئی دونوں رہنماؤں کے لئے بھٹو صاحب نے اپنے ہاتھ سے یہ فیصلہ لکھا کہ انہیں تا حیات حکومتی مراعات حاصل رہیں گی۔ چنانچہ جناب نور الامین کو صدر مملکت اور محمود علی کو وزیر مملکت کا عہدہ دیا گیا۔ محمود علی نے (عوامی خدمت کے لئے) از خود اصرار کر کے اپنے لئے چیئرمین برائے سوشل ویلیفیئر کا نوٹیفیکیشن کا آرڈر جاری کروایا تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں تو ان کے وفاقی وزیر جن کے پاس سوشل ویلفیئر کا محکمہ بھی تھا کی طرف سے محمود علی کے کام میں مداخلت کی گئی۔ جس پر محمود علی نے جارحانہ انداز میں وفاقی وزیر کو باز رہنے کے لئے کہا۔ اس پر وفاقی وزیر نے بڑا شور مچایا تو بے نظیر بھٹو نے پیغام دیا کہ محمود علی سبکدوش ہو جائیں۔ جواباً محمود علی نے بے نظیر بھٹو کے پرنسپل سیکرٹری سے کہا کہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو فلاں ریڈ فائل منگوا کر سٹڈی کریں۔
جب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے وہ خصوصی فائل پڑھی تو انہوں نے اپنی کابینہ کے وفاقی وزیر سے کہا کہ محمود علی صاحب کے لئے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی تا حیات تعیناتی کے لئے اپنے ہاتھ سے جو کچھ لکھا اس کا احترام ہم پر فرض ہے کہ وہ قائد عوام میرے والد کا فرمان ہے۔ بے نظیر بھٹو نے زور دے کر کہا کہ محمود علی صاحب کے لئے جو کچھ اس فائل میں لکھا ہوا ہے اس کا پورا پورا احترام ہمیں لازماً کرنا ہوگا۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے مذکورہ وفاقی وزیر کو ہدایت کی کہ آئندہ محمود علی صاحب کے کام میں کبھی کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہئے اس موضوع پر آئندہ کوئی بیان نہ دیا جائے۔
اس تفصیلی پس منظر کو بیان کرتے ہوئے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ شیخ مجیب نے مکمل بھارتی سرپرستی میں اقتدار حاصل کیا تھا۔ اس کا جو عبرت ناک حشر ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے لہٰذا کسی کو اس مثال پر موقف دینے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے۔ شیخ مجیب کو ایک غدار اور بھارتی ایجنٹ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ کسی بھی محب وطن اور مخلص پاکستانی کے لئے بھارت جیسے ازلی پاکستان دشمن کا کردار کسی طرح بھی قابل عزت نہیں سمجھا جا سکتا۔ عمران خان جیسے سیاسی رہنما کو 26 سال سے زائد عرصہ تک پارٹی چیئرمین کا تجربہ حاصل ہے۔ وہ ایک بار پاکستان کے وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے لئے قطعی طور پر یہ مناسب نہیں کہ وہ خود کو شیخ مجیب کے نقش قدم پر چلنا پسند کریں، کیا عمران خان ایک بھارتی ایجنٹ اور مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے والے شیخ مجیب کی مثال کو اپنے لئے اعزاز پسند کریں گے؟ خدارا، اقتدار حاصل کرنے کے جنون میں اپنے لئے وہ کردار پسند نہ کریں، جو انتہائی افسوسناک اور قابل نفرت ہے۔ اسمبلی کی نشستیں کم یا زیادہ حاصل کرنا اہم بات نہیں، ایک انتہائی ناپسندیدہ شخص کے کردار کو اپنے کردار سے جوڑنا کسی طرح جائز نہیں۔ یہ کہنا کہ جس طرح شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان میں کلین سویپ کیا تھا۔ اسی طرح پی ٹی آئی بھی موجودہ الیکشن میں زیادہ سیٹیں حاصل کرے گی، بالکل غلط اور افسوسناک بات ہے بہتر ہوگا کہ پی ٹی آئی کی کامیابی کی پیش گوئی کے لئے کسی دوسری مثال کو تلاش کیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ شیخ مجیب کی مثال کو بعض لوگ غلط معنوں میں استعمال کریں اور عمران خان یا ان کی پارٹی کے رہنماؤں کو وضاحتیں دینی پڑ جائیں۔
زندگی ہم تیرے داغوں سے رہے شرمندہ
اور تو ہے کہ سدا آئینہ خانے مانگے
عمران نہ ہوں گے تو کسی اور کے چرچے ہوں گے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
(احمد فراز کی روح سے معذرت کے ساتھ)