ہجوم عاشقاں
سہیل وڑائچ صاحب سے ہماری پہلی ملاقات جناب ڈاکٹر اجمل نیازی کی دختر نیک اختر کی شادی کی تقریب میں ہوئی مدھم سی مسکراہٹ میں دھیمے لہجے کی پھوار بتارہی تھی کہ یہ شخص(سہیل وڑائچ)شخص سے شخصیت کا سفر طے کرچکا ہے۔ مشرف دور تھا چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلی پنجاب تھے پرویز الٰہی بھی وہیں اجمل نیازی صاحب کو تقریب کا وقار دیکھ کر داد دے رہے تھے ہم کہ جنہیں محافل راس نہیں آتیں یہ چکا چوند آنکھوں میں چبھتی ہے۔ خامشی تنہائی ہماری طبعیت کو موزوں ہے لیکن اجمل نیازی صاحب سے تعلق اس قدر پختہ اور دیرینہ تھا کہ جائے بغیر چارہ نہ تھا یہ وہ دور تھا جب ایک کالم کی اشاعت آج کے ٹی وی چینلز پر چلنے والے ٹاک شوز سے کہیں زیادہ پر اثر ہوتی۔ سہیل وڑائچ صاحب کی بات چلی ہے تو عرض کروں کہ ان کی طبیعت میں قدرت نے بردباری۔اور خلوص کو جیسے ودیعت کر رکھاہے ایسے ملنسار اور منکسرالمزاج ہیں کہ ان میں اپنائیت کے سارے رنگ پائے جاتے ہیں انہوں نے اپنی سچی لگن اور انسان دوستی سے یہ مرتبہ پایا ہے کہ آج لوگ انکے دیوانے ہیں وہ جہاں جاتے ہیں لوگ انکی طرف امڈتے ہیں۔ میں سہیل وڑائچ جیسے اخباری مرتبے پر فائز دوسرے صحافیوں سے بھی واقف ہوں بلکہ کچھ سے بہت زیادہ آشنائی ہے وہ کسی بھی تقریب میں جاتے ہیں تو لوگ انہیں پہچانتے بھی نہیں اگر پہچان بھی لیں تو گریز کرتے ہیں وہ لوگ بڑے اخبارات کے مدیر ہیں لیکن معاف کیجئے اپنے اخلاق اور کردار کے حوالے سے بڑے نحیف اور ضعیف ہوچکے ہیں اور ان کے سلوک سے ان اخبارات کی ساکھ بڑی متاثر ہوکر رہ گئی ہے حتیٰ کہ ان اخبارات کے پرانے قارئین بھی ان سے شکستہ دل نظر آتے ہیں۔
لیکن سہیل وڑائچ جیسی شخصیات اپنے ادارے کا چہرہ ہوتے ہیں وہ بھی خوبصورت چہرہ جسے دیکھ کر پیار آجائے جن سے بات کرنی بھی باعث سکون قلب ہے سہیل وڑائچ صاحب کی کتاب کی تقریب رونمائی کا اہتمام لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں تھا سہیل وڑائچ کی کتاب کی رونمائی کی تقریب کا اہتمام یقیناً ایسے ہی ہوٹلز میں بنتا تھا جنکی ملائم روشنیاں خوبرو چہروں پہ پڑ کر ماحول کر اوربھی اجلا کر دیتی ہیں۔
سہیل وڑائچ صاحب کی کتابی رونمائی میں ماہتابی چہروں کی رونق اپنی بہار دکھا رہی تھی ہمارے محسن جناب مجیب الرحمٰن شامی کہ جنکی ادارت میں چھپنے والے کالم پر ہم ناز کرتے ہیں آپ بھی جلوہ افروز تھے بلکہ یوں کہئے کہ مجیب الرحمٰن شامی صاحب ہی جلوہ افروز تھے یا سہیل وڑائچ صاحب تھے باقی بھیڑ تھی لیکن اس بھیڑ میں بھی علم و ادب کے ستاروں کی کہکشاں تھی جنکے نور سے تقریب چمک دمک رہی تھی ہم اس تقریب میں ہرگز مدعو نہیں تھے لہذا قارئین کو گماں نہ گذرے کہ جیسے ہم اس تقریب کے انتظامی امور سنبھالے ہوئے تھے۔
کالم لکھنے کا سبب تو سہیل وڑائچ صاحب سے نسبت ہے اور مجیب الرحمٰن شامی صاحب کی شرکت ہمارے اس کالم کے لکھنے کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ جناب مجیب الرحمٰن شامی کسی بھی محفل کے حسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں لیکن اس محفل میں پانچ لگائے گئے چارچاند مجیب الرحمٰن شامی صاحب کے اور ایک چاند سہیل وڑائچ صاحب خود تھے اس لئے چاند ستاروں سے مزین اس تقریب نے صحافت اور ادب میں جو جمود تھا اسے توڑا ہے مجھے ایک دوست نے اس تقریب کے احوال لکھنے کا کہا تو میں نے عرض کیا حضور اس تقریب کا احوال کیا لکھئیے؟ مختصر سی بات ہے مجیب الرحمٰن شامی صاحب اور جناب سہیل وڑائچ کے گرد ہجوم عاشقاں تھا اور بس!البتہ یہاں معزز شخصیات میں ایک محترم شخصیت بھی رونق افروز تھی جن سے مجھے بہت پیار ہے بڑی عقیدت ہے جنہوں نے ہمیشہ رہنمائی فرمائی ہے جناب سید ارشاد احمد عارف۔ ارشاد احمد عارف صاحب سے ہمارا محبتوں اور عقیدتوں کا سلسلہ دو دہائیوں پر محیط ہے جناب ارشاد احمد عارف کوئی بیس سال ادھر جب نوائے وقت کے اداراتی صفحات کے سنئیر ایڈیٹر تھے تو جناب اجمل نیازی (مرحوم)کے ساتھ راقم دیر تک ارشاد عارف صاحب کی قربت سے فیضیاب ہوتا انکی باتوں سے حظ اٹھاتا۔
وہاں اختر شمار۔مرحوم۔اور ایسی دیگر ادبی شخصیات بھی آجاتیں ارشاد احمد عارف اپنے ظرف کے اعتبار سے بلند مرتبے پر فائز ہیں جو چھوٹے صحافیوں کو بھی اپنے ساتھ بٹھا کر انکا قد بڑا کردیتے ہیں کسی کی صحافتی راہوں کا تعین کرنے میں پس و پیش سے کام نہیں لیتے اپنے جونئیرز سے شفقت و محبت فرماتے ہیں۔ ہمارے ہمدم دیرینہ ڈاکٹر تنویر حسین صاحب بھی سنئیر صحافی جناب ارشد جیلانی اورجناب سید مجتبی نقوی کے قافلہ مستانہ میں اس تقریب میں پہنچے شاداں و فرحاں اور خود پہ اترائے ہوئے۔ پروفیسر تنویر حسین صاحب کا اترانا بنتا بھی تھا کہ تقریب ہی ایسی شاندار تھی ڈاکٹر تنویر حسین صاحب بھی خلوص کا مرقع ہیں بلکہ مجھے کہنے دیجئے کہ ڈاکٹر تنویر حسین خلوص کا مربہ ہیں اور ڈاکٹر صاحب کے کچھ دوست حسب منشا اور وقت ضرورت اس مربے کا استعمال کرتے آئے ہیں۔
مذکورہ تقریب میں پیر ضیاء الحق نقشبندی صاحب جو کتاب کے مصنف ہیں لیکن پیر ہیں اور جنکے نام کے ساتھ پیر لگ جائے انکے بارے زیادہ کیا کہئے کہ وہ خود بڑے معزز ہیں ایسی معزز شخصیت نے جناب مجیب الرحمٰن شامی اور جناب سہیل وڑائچ سے چاہتوں کا جو جہان آباد کررکھا ہے دعا خدا اسے ہمیشہ آباد رکھے آمین