حامد سعید کاظمی پیپلز پارٹی میں شامل
الیکشن شیڈول کا اعلان ہوتے ہی جوڑ توڑ کی سیاست میں بھی شدت دیکھنے میں آرہی ہے سیاسی جماعتیں اور سیاستدان مخالفین کو شکست سے دو چار کرنے کیلئے جہاں تگ و دو میں مصروف ہیں وہاں پارٹی رہنماؤں کی طرف سے عوامی ہمدردیوں کے حصول کیلئے روایتی دعوے اور وعدے بھی زور و شور کے ساتھ کئے جارہے ہیں جن میں مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ صف اول پر موجود ہے۔یہ وہ دعوے اور وعدے ہیں جو گزشتہ کئی دہائیو ں سے ہوتے آرہے ہیں مگر بد قسمتی سے آج تک پورے نہیں ہوپائے اس پر تفصیلی گفتگو پھر کبھی ہوگی مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ روز بروز کی بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے نہ صرف عوامی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں بلکہ اب تو ان کا جینا بھی دو بھر ہوکر رہ گیا ہے ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو جواز بنا کر بڑھائی جانے والی مہنگائی اب کمی پر بھی کم نہیں ہورہی بلکہ مزید بڑھتی جارہی ہے۔ اب ایسے میں قوم کس سے فریاد کرے اور منصفی چاہے انہیں کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا کیونکہ اس حوالے سے نگران حکومتوں کے تمام تر اقدامات اور کوششیں بھی کارگر ثابت ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہیں اور مافیاز عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں جبکہ دوسری جانب سیاستدان عوام سے حالات میں بہتری کی باتیں اور وعدے کررہے ہیں عوام کے پاس ان پر اعتبار کرنے کے سوا کوئی اور حل بھی موجود نہیں ہے کیونکہ وہ ان باتوں پر گزشتہ کئی دہائیو ں سے اعتبار کرتے آرہے ہیں اور ہر بار کی طرح سیاستدان اور سیاسی جماعت اُن کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے چہرے اور نعرے بدل کر دوبارہ عوامی ہمدردیوں کے حصول میں مگن ہوجاتے ہیں مگر اب کی بار انہیں عوام میں سوچ سمجھ کر جانا ہوگا کیونکہ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی اور دیگر مسائل میں اضافے کی وجہ سے جہاں عوامی غم و غصہ بڑھا ہوا ہے وہاں عوامی سیاسی شعور بھی اب پہلے جیسا نہیں رہا اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاستدان مقامی و مرکزی سطح پر عوامی ہمدردیوں کے حصول کیلئے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں اور اس میں کون کامیاب اور ناکام ہوتا ہے۔؟
سابق وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی نے دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ اسلام آباد میں سابق صدر آصف علی زرداری سے ہونے والی ملاقات میں سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود،احمد سعید کاظمی سمیت اس موقع پر دیگر رہنما بھی موجود تھے۔حامد سعید کاظمی کے پیپلز پارٹی میں شمولیت سے ملتان میں گیلانی اور کاظمی خاندان تو ایک ہوگیا ہے مگر اس کے ساتھ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی پی پی ملتان اور جنوبی پنجاب میں اپنا کھویا ہوا مقام بحال کرنے میں کامیاب ہوپائے گی کیونکہ پارٹی ٹکٹ کے حوالے سے پہلے ہی مرکزی قیادت کی طرف سے بیان آچکا ہے کہ جن حلقوں سے امیدوار سامنے نہیں آئیں گے وہاں پر کارکنوں کو ٹکٹ دئیے جائیں گے گے ادھر پارٹی ٹکٹ کی تقسیم کے حوالے سے مسلم لیگ ن کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاسوں کا سلسلہ جاری ہے اور ملتان سمیت جنوبی پنجاب کے سیاستدان مرکزی قیادت کی طرف دیکھ رہے ہیں مگر ن لیگ کی ٹکٹ کے حوالے سے گو مگو کیفیات تاحال برقرار ہیں کیونکہ پارلیمانی بورڈ کے اجلاسوں کا سلسلہ 22 دسمبر تک جاری رہے گا جبکہ اسی روز ہی کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا آخری دن بھی ہوگا اور اس حوالے سے ن لیگ کی طرف سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے تمام حلقوں میں ہر امیدوار کو کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی ہدایت کی گئی ہے دوسری جانب ملتان سمیت جنوبی پنجاب میں پاکستان تحریک انصا ف کے رہنما بھی سرگرم اور الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں، ساؤتھ پنجاب میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک اچھی خاصی تعداد میں موجود ہے جو ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے سیاستدانوں کیلئے پریشانی اور شکست کی وجہ بن سکتا ہے۔
پنجاب حکومت نے نہروں کی آپریشنل و مرمت اور نظام کی بہتری کے نام پر آبیانہ ٹیکس 440 روپے سالانہ فی ایکڑ سے بڑھا کر 2400 روپے کردیا ہے جس پر کسان تنظیمیں تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے موجود اضافے کو ختم اورسابقہ کو بحال کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔پنجاب کے کسانوں کو پہلے ہی گندم کی فصل کیلئے کھادوں کی عدم دستیابی اور قیمتوں میں اضافے کا مسئلہ درپیش ہے اوپر سے حکومت نے آبیانہ ٹیکس میں اضافہ کر کے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ کاشتکاروں کو درپیش مسائل حل کرنے کی بجائے ان میں اضافہ نہ کرے اگر یہ روش نہ بدلی گئی تو ملکی زراعت جو پہلے ہی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے وہ مزید تباہ ہوکر رہ جائے گی اور ملک میں غذائی قلت کے خطرات بڑھ جائیں گے۔
نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی زیر صدارت گزشتہ دنوں پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کا 33واں اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس میں 17شہروں میں سیف سٹی پراجیکٹ ”ڈی آئی سی تھری“کی باضابطہ منظوری دی گئی۔ان شہروں میں بہاولپور، رحیم یار خان اورمظفر گڑھ بھی شامل ہے جس میں جرائم کی روک تھام اور حفاظت کیلئے کیمر ے نصب کئے جائیں گے۔جنوبی پنجاب کے ان تین شہروں میں سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت کیمرے لگانے کی منظوری خوش آئند ہے مگر اس کیساتھ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب ملتان میں سست روی کا شکار سیف سٹی منصوبہ بھی مکمل کرائیں تاکہ اہلیان ملتان جو بڑھتی ہوئی روڈ اور سٹریٹ کرائم کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا ہیں وہ سکھ کا سانس لے سکیں اور اولیا کرام کی دھرتی حقیقی معنوں میں امن و امان کا گہوراہ بن سکے۔
٭٭٭
مہنگائی و بیروزگاری کے خاتمے کے سیاسی دعوؤں کا سیزن شروع!
گیلانی و کاظمی خاندان پارٹی ساکھ بحال کرپائے گا؟
جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کا خاموش ووٹر ن لیگ و پیپلز پارٹی کی شکست کا باعث بن سکتا ہے
بہاولپور،رحیم یار خان اور مظفر گڑھ میں سیف سٹی پراجیکٹ
کی منظوری،ملتان کا منصوبہ بھی مکمل کرایا جائے