کراچی سے دوست انسپکٹر ملنے لاہور آیا،میں نے چھٹیاں لے لیں، ہم خوب گھومے پھرے، رات گئے اسٹیشن کے قریب ہمارا سکوٹر مین ہول میں جا گرا
مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:131
میرا کراچی والا دوست انسپکٹر اقبال ملنے آیا اور دو تین روز میرے ساتھ قیام کیا، میں نے چھٹی لے لی اور ہم دونوں نے بڑے مزے کیے، میں اسے لے کر جگہ جگہ گھماتا پھرا اور اچھے اچھے ہوٹلوں میں کھانے کھلائے۔ ایسی ہی ایک دعوت کے بعد رات گئے جب ہم واپس آ رہے تھے تو اسٹیشن کے قریب ہی ہمارا سکوٹر سڑک کے عین درمیان میں بنے ہوئے ایک کھلے مین ہول میں جا گرا جو تاریکی کی وجہ سے مجھے نظر نہ آیا تھا۔ دونوں کو شدید چوٹیں لگی تھیں اور ہمیں رکشے میں ڈال کر ہسپتال لے جایا گیا۔ رات وہیں گذار کراگلی صبح جب ہم جائے حادثہ پر پہنچے تو معجزانہ طور پر میرا سکوٹروہاں سڑک کنارے اسی حالت میں موجود تھا۔اس وقت امن و امان کے حالات اتنے برے نہ تھے۔ڈاکے نہ ہونے کے برابر تھے،ہاں اونچے درجے کے بدمعاش جا بجاموجود تھے جو آپس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور علاقے میں اپنی دہشت قائم رکھنے کے لیے ہفتے 10 دن بعد ایک آدھ قتل کیے رکھتے تھے۔
لاہور کے مقامی لوگ بہت ہی پر خلوص اور محبت کرنے والے تھے جو اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے تھے، وہ کبھی کسی کے معاملات میں دخل نہ دیتے تھے اور نہ ہی کسی کیخلاف ان کے دلوں میں کوئی تعصب تھا۔ ہر وقت میلوں ٹھیلوں میں گم نعرے لگاتے پھرتے۔ انھوں نے غربت اور تنگدستی میں بھی خوش رہنا اور اپنے اوپر ہنسناسیکھ لیا تھا۔ یہاں مسکرانے یا قہقہے لگانے سے کوئی نہیں شرماتا تھا۔ یہ لوگ صدیوں سے مہمانداری نبھاتے آ رہے تھے اور ہر کسی کو ”جی آیاں نوں“کہتے، پھر اسے اپنا بنا لیتے یا خود اس کے بن جاتے۔اکثر عید شب برات کی چھٹیوں میں جب غیر مقامی افراد اپنے اپنے دیس سدھار جاتے تو یہ لوگ لاہورکو خالی خالی دیکھ کر اداس ہو جاتے۔ یہی سب کچھ دیکھ کر آگے چل کر میں نے یہیں مستقل قیام کا سوچا تھا حالانکہ میری اولین ترجیح کراچی ہی ہونا چاہئے تھا۔اور بعد میں میر ا یہ فیصلہ صحیح ثابت ہوا۔مجھے اپنے اس فیصلے پر آج بھی کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔
اپنی محدود سی ضرورتوں کے ساتھ دنیا میں جن نعمتوں کی اس عمر میں خواہش ہوتی تھی، وہ میسر تھیں کیونکہ ساڑھے تین سو روپے ابھی تک اچھی خاصی بڑی رقم تصور ہوتی تھی،خاص طور پر جب اور کوئی ذمہ داریاں بھی سر پر نہ ہوں۔ میں سارا مہینہ جی بھر کے خرچ کرتاپھر بھی آخری دنوں میں جیب سے پچیس تیس روپے نکل ہی آتے تھے۔
2 سرکاری چھٹیوں کے ساتھ ایک دو اپنی ملا کر میں کچھ دنوں کے لیے راولپنڈی گیا۔ وہاں ابا جان کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ ان کے پاس ان کی تنخواہ کا رجسٹر آیا، میں نے سرسری سی نظر ڈالی تو وہاں قرض کی مد میں کچھ کٹوتی ظاہر کی گئی تھی، میرے کان کھڑے ہوئے کیونکہ میں ابا جان کو جانتا تھا وہ انتہائی تنگی اور عسرت کے عالم میں بھی کبھی کسی سے قرض نہیں لیتے تھے۔میں نے ان سے پوچھا یہ کس چیز کے پیسے کٹے ہیں، پہلے تو انھوں نے ٹال مٹول کی بعدازاں میرے اصرار پر بتایا کہ”برخوردار یہ جو تمہیں سکوٹر کے لیے پیسے بھیجے تھے تو یونٹ سے کچھ قرض بھی لیا تھا“۔میرا دل اتنے زور سے دھڑکا جیسے ابھی چھاتی پھاڑ کر باہر آن گرے گا۔ میں نے اس وقت اپنے آپ کو بہت ہی حقیر اور چھوٹا جانا، اتنا چھوٹا کہ میں نظر اٹھاتا بھی تو ابا جان کو دیکھ نہیں سکتا تھا اور اگر دیکھ بھی لیتا تو نظر نہیں ملا سکتا تھا۔
اپنی اس مختصر سی زندگی میں کئی دفعہ ابا جان سے بحث بھی ہوئی اور گستاخی کی حد تک بدتمیزی بھی کی تھی، لیکن آج میں شرمساران کے سامنے سر جھکائے بیٹھا تھا اور مجھ میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں تھی کہ میں ان سے معافی ہی مانگ لیتا۔ اگلے دو دن میں بہت خاموش اور افسردہ سا رہا،کیونکہ ضمیر پر ایک دم بڑا ہی بوجھ آن پڑا تھا۔
پھر لاہور واپس آکر میں سب کچھ بھول بھی گیااور حسب معمول اپنی سابقہ سرگرمیوں میں مشغول ہو گیا۔ آخر انسان کب تک اور کس کس شرمندگی سے اپنا منہ چھپاتا پھرے۔ عام لوگوں کی طرح میں نے بھی انتہائی ڈھٹائی اختیار کی اوردل میں کہا ”تو کیا ہوا! والدین کا فرض ہے کہ وہ اولاد کے لیے کچھ کریں“۔ یہاں میں یہ بھول گیا تھا کہ اولاد کو بھی تو کہا گیا ہے کہ اپنے والدین کے لیے بے جا پریشانیوں کا سبب نہ بنیں۔
ابا جان کی اچھی قسمت تھی یا کارکردگی،کہ انھیں صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنا ADC چن لیا۔ یہ ایک بہت بڑا اعزاز اور قابل احترام عہدہ تھا،جس میں بے تحاشا ذمہ داریوں کے علاوہ بڑی طاقت بھی تھی۔ ویسے تو وہ ہمیشہ سے ہی صدر پاکستان کے حفاظتی دستے کے اعلیٰ آفیسر رہے تھے، لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ وہ براہ راست ان کے ذاتی عملے میں شامل ہوکر ان کے انتہائی قریب آگئے تھے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔