اوٹاوہ کے شوقِ دیدار کا جام لبا لب بھر چکا تھا،اب ایک سرور آور سود ا سر میں سمائے واپسی کی راہ لی اور گاڑی بھگاتے ستاروں کے سائے میں گھر پہنچے 

 اوٹاوہ کے شوقِ دیدار کا جام لبا لب بھر چکا تھا،اب ایک سرور آور سود ا سر میں ...
 اوٹاوہ کے شوقِ دیدار کا جام لبا لب بھر چکا تھا،اب ایک سرور آور سود ا سر میں سمائے واپسی کی راہ لی اور گاڑی بھگاتے ستاروں کے سائے میں گھر پہنچے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ع۔ غ۔ جانباز 
قسط:51
یہ اندرون شہر بہتی نہر پر Mexi نامی کمپنی کی درجنوں کرایہ کی کشتیوں کی قطاریں، کس نفاست اور قرینہ سے کھڑی ہیں قطار اندر قطار۔ Ottava کے ساتھ بہتے دریا کے اُس پار واقع ہے کینیڈا کا صوبہ "Qubec" یہاں کی آبادی کی اکثریت فرنچ ہے۔ اُس صوبہ کی گورنمنٹ نے کینیڈا سے علیٰحدگی کا جو ڈول ڈالا تو نوبت ریفرینڈم تک آکر رکی۔ ریفرینڈم میں تھوڑے مارجن سے Qubec گورے ہار گئے اور کیا کرتے چپکے ہو رہے۔ 
"Ottawa" کے شوقِ دیدار کا جام اب لبا لب بھر چکا تھا۔ تشنگی دیدار اب دم توڑ چکی تھی۔ اب ایک سرور آور سود ا سر میں سمائے واپسی کی راہ لی اور انہی چھوٹی بڑی شاہراؤں پر گاڑی بھگاتے رات 12 بجے ستاروں کے سائے میں گھر پہنچے اور جلد سو گئے۔ 
15-9-2018
زبیر ناصر صاحب کی دعوت 
زبیر صاحب Mississauga میں ہی رہائش پذیر ہیں لیکن اُن کا گھر اپنے گھر سے 20 منٹ کی مسافت پر ہے۔ چنانچہ 8 بجے شام سب فیملی ممبران2 گاڑیوں میں چل دئیے۔ راستے سے بیٹے احمد ندیم نے شیریں محل بیکری سے کیک لیا جو میزبان کے گھر دینا مقصود تھا۔ وہاں پہنچ کر بیٹھے تو بڑی خندہ پیشانی سے زبیر صاحب نے استقبال کیا۔ صلاح الدین صاحب اور راجہ منصب صاحب سے بھی علیک سلیک ہوئی۔ پھر محمد احمد صاحب آئے اور محمد اعجاز سے رابطہ کرتے رہے تو کافی دیر بعد وہ پہنچے اور آخر میں محمد وسیم صاحب چہرے پر ایک دائمی مسکراہٹ سجائے تشریف لائے۔ دو موضوع زیر بحث رہے۔
1: راجہ منصب صاحب کا عید الاضحی پر بکروں کی قربانی اپنے ساتھیوں کے ساتھ آبادی سے باہر ایک پرائیویٹ فارم میں کرنا۔ 
2:محمد اعجاز سے رات کے 11 بجے ایک ”گوری“کا یہ پوچھنا کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی بھی ہے؟
سارے گھر میں بڑی ہی گہما گہمی تھی۔ سب مہمان بمعہ فیملیز آئے ہوئے تھے بچّوں کی کھیل کُود جاری تھی۔ کھانا لگ گیا تو دعوت طعام دی گئی۔ پہلے مرد حضرات نے پھر عورتوں نے حسب توفیق کھانا کھایا۔ کھانے میں کم و بیش دس بارہ ڈشز ہونگی۔ ہر ڈش ایک سے ایک بڑھ کر تھی۔ کسے کھائیں کسے چھوڑیں۔ ادھر پیٹ بھی تو آخر ہمارا اور اُس کی کشادگی بھی محدود۔ بس تھوڑی تھوڑی سانس کی روانی …… پیٹ کی طنابیں کس لیں اور پھر میٹھے نے تو رہی سہی کسر بھی نکال دی…… اور پھر چائے کا دَور چلا۔
عشاء کی نماز گھر کی بیسمنٹ میں محمد اعجاز کی امامت میں ادا کی…… اور پھر میزبان زبیر صاحب سے اجازت چاہی اور سب مہمان ایک ایک کر کے اپنے اپنے گھروں کو چل دئیے۔  (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -