بے بس اتحاد!

بے بس اتحاد!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آپ اگر اس دور میں مسلم دنیا کی بے بسی، بے کسی،لاچاری اور مجبوری کا اندازہ کرنا چاہیں تو آپ چندروزپہلے قاہرہ میں ہونے والے اوآئی سی کے اجلاس کی رپورٹ پڑھ لیں ،تو آپ کو عالمی سیاست میں مسلم ممالک کی حیثیت کا انداہ ہو جائے گا۔اس وقت دنیا کی مجموعی سیاست میں امریکہ کا حصہ ساٹھ فیصد،یورپ اور چین تیس فیصداور دنیا کے انسٹھ مسلم ممالک کا حصہ صرف دس فیصدہے۔اگر آپ کو یقین نہیں آتا توآپ مسلم ممالک کی کا رکردگی کا جائزہ لیں ،آپ ان ممالک کی خارجہ پالیسی دیکھیں ،ان کی اندرونی سیاست کا جائزہ لیں اور ان ممالک میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کا بغور مطالعہ کریں ۔ آپ کو نظر آئے گاکہ تیونس کے انقلاب کے پیچھے امریکی ہاتھ تھا،حسنی مبارک کو پنجرے میں امریکہ نے بند کروایا،قذافی کو گولیاں امریکہ نے مروائیںاوراب بشا رالاسدبھی امریکی حکومت کے ایماءپر ڈٹاہوا ہے۔اگر آپ مزیدتسلی کرنا چاہیں تو آپ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت پاکستان کو دیکھ لیں ۔آپ اس سے بھی آگے بڑھیں ،مسلم ممالک کی تنظیموں کا جائزہ لیں،عرب لیگ، ایکو،خلیج تعاون کونسل،افریقی یونین اور او آئی سی کا جائزہ لیں، آپ کو یہ تنظیمیںعقاب کے پنجوں میں جکڑے شکار سے بھی زیادہ بے بس اور لاچار نظر آئیں گی۔
اوآئی سی دنیا کا واحد اتحاد ہے جس کے پاس دنیا کے ستر فیصد وسائل ہیں ،نہر سوئز جیسی تجارتی آبی شاہراہ جس کے پاس ہے ،مگر اس اتحاد کی کسمپرسی دیکھیں کہ یہ ابھی تک دنیا سے اپنا وجود تک نہیں منواسکا۔اس وقت مسلم دنیا کو پانچ بڑے مسائل کا سامنا ہے۔مسئلہءکشمیر،فلسطین،عرب سپرنگ،غربت اور دہشت گردی....ان پانچوں مسائل کے حل کے لئے او آئی سی کی کارکردگی صفر فیصد ہے۔ چند روزپہلے ہونے والا اجلاس بھی گزشتہ اجلاسوں کا تسلسل تھا۔دنیا بھر سے مسلم حکمران اکٹھے ہوئے ،قراردادیں پاس ہوئیں،فوٹو سیشن ہوئے اور بات نشستند،گفتنداور برخاستند سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اس وقت مسلم دنیا کی صورت حال انتہائی مایوس کن ہے۔ مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک جہاں بھی اسلامی ممالک موجودہیں ،کسی نہ کسی خطرے اور مصیبت سے دوچار ہیں۔ پاکستان اپنے اندرونی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اتحادی بننے کی وجہ سے خود سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ڈرون حملوں اور فوجی آپریشنوں کی وجہ سے خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔
شام میں بھی خانہ جنگی کے سائے بلند ہوتے جا رہے ہیں، بشارالاسد کی ہوسِ اقتدار کی تار لمبی ہوتی جارہی ہے۔مصرمیں سامراجی قوتیں استحکام پیدا نہیں ہونے دے رہیں اور عراق و افغانستان پہلے ہی خاک و خون میں کھیل رہے ہیں۔ فلسطین میں دنیا کا بدترین فساد برپا کیا جارہا ہے۔ افریقی ممالک غربت سے دو چار ہیں۔ عیسائی مشنریز مسلمانوں کو ورغلا کر عیسائی بنانے میں مصروف ہیں اور مسلمان بھوک سے مر رہے ہیں۔ ملائشیا اور انڈونیشیاپر اقتصادی حملے کئے جارہے ہیں اور پورے عالم اسلام کو تکلیف پہنچانے کے لئے کبھی توہینِ قرآن اور کبھی خاکوں کا ڈرامہ رچایا جارہا ہے۔ اس ساری صورت حال میں مسلم ممالک کو متحد ہونے کی جتنی ضرورت آج ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔ طاغوتی قوتیں چاروں طرف سے مسلمانوں کو گھیر رہی ہیں۔ امریکہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان ،ایران کو مُکا دکھا رہا ہے اور خلیج عرب میں بیٹھ کر اس نے 22 عرب ملکوں کی گردن پر پاو¿ں رکھا ہوا ہے۔ رہی سہی کسر اسرائیل نے نکال دی ہے۔
امریکہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان اور ایران کو مُکا دکھا رہا ہے اور خلیج عرب میں بیٹھ کر اس نے 22 عرب ملکوں کی گردن پر پاو¿ں رکھا ہوا ہے۔ باقی رہی سہی کسر اسرائیل نے نکال دی ہے۔ افریقہ میں مسلمانوں کو سبزباغ اور خوبصورت زندگی کالولی پاپ دکھا کر ان کا ایمان خریدا جا رہا ہے اور مشرق بعید کے معاشی طور پر خوشحال ممالک کو اقتصادی حملوں سے تباہ کیا جارہا ہے۔ اس سارے تناظر میںاو آئی سی اور عالم اسلام کے سربراہان کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا ۔ عالم اسلام کے مسائل کے حل کیلئے کوئی مناسب پلیٹ فارم منتخب کرنا ہوگا۔ اگر اب بھی عالم اسلام کے لیڈروں نے ماضی کی روش نہ چھوڑی تو مستقبل کا مو¿رخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔اسلامی ممالک کے پاس سب سے بڑا اتحاد او آئی سی کا ہے ،اس کے علاوہ اگر کوئی اتحاد ہےںتو وہ علاقائی اتحاد ہیں، جیسے عرب لیگ عرب اور ایکو۔ رکن ممالک کو چاہئے کہ اپنی اہمیت سمجھتے ہوئے او آئی سی کو فعال بنائیں اور عالم اسلام کے مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ کوششیں بروئے کار لائیں ۔ اس وقت جن ممالک میں خانہ جنگی کی صورت حال ہے وہاں قیامِ امن کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں اور جن ممالک میں سامراجی طاقتیں اپنے پنجے گاڑے بیٹھی ہیں وہاں کے لیئے مناسب لائحہ عمل طے کیا جائے اور ان کی آزادی کا مناسب حل تلاش کیا جائے۔
اس کے علاوہ غربت، جہالت، ناخواندگی اور بیروز گاری کے خلاف متحد ہوکر کوششیں کی جائیں اور علاقائی تنظیموں کو اس حوالے سے فعال کر دار ادا کرنے کے قابل بنایا جائے۔ اوآئی سی کے ماتحت ٹیمیں تشکیل دی جائیں جو مختلف اسلامی ممالک کے دورے کر کے وہاں کے مسائل کو ہائی لائٹ کریں ، پھر ان مسائل کے حل کے لئے مناسب اقدامات اٹھائے جائیں۔ اسلامی ممالک میں موجود کسی بھی بیرونی فوج کو واپسی کی راہ دکھائی جائے اور اپنے تمام تنازعات کو امریکہ وروس کے پاس لے جانے کی بجائے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کرخود حل کیا جائے۔اگر او آئی سی کو ئی مو¿ثر اقدامات اٹھانے کی متحمل نہیں ہوسکتی اور اپنی سابقہ روش پر چلنے پر مجبور ہے تو اسے تحلیل کر دیا جائے اور اس کی جگہ کسی نئے اسلامی اتحاد کا اعلان کیا جائے جو سنجیدہ بھی ہو، مسائل کا حل بھی چاہتا ہو اور عالم اسلام کا دفاع کرنا بھی جانتا ہو اور جو امریکہ و یورپ کے ساتھ عالم اسلام کا مقدمہ بھی لڑ سکے،کیونکہ اس لولی لنگڑی او آئی سی کا کوئی فا ئدہ نہیں اور علالمِ اسلام کو ایسے کمزور اتحاد کی کوئی ضرورت نہیں۔   ٭

مزید :

کالم -