ہیرو یا ولن
لیفٹ اور رائٹ کی بحث میں الجھنے کی بجائے یہ دیکھنا چاہئے کہ طالبان کس ذہانت سے اپنے پتے کھیل رہے ہیں۔ نہ وہ ہتھیار پھینکنے پر آمادہ ہیں، نہ ہی علاقوں پر عمل داری سے دستبرداری کا ارادہ۔ طالبان کی دلیری اور ریاستی کمزوری کا گہرا تعلق ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے غلط اقدامات کی بدولت طالبان فلاسفی نے قبائلی علاقوں سے پوش شہروں تک کا سفر کیا۔ رہی سہی کسر پیپلزپارٹی کی عظیم حکومت نے نکال دی۔ اسی دور میں طالبان نے physically اہم شہروں میں نیٹ ورک قائم کرنا شروع کر دیئے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب آصف علی زرداری اورسیدیوسف رضا گیلانی کوکرپشن سے ستائے عوام نے طالبان سے امیدیں باندھ لیں۔ درحقیقت اگر طالبان یوں بے دردی سے خودکش حملوں میں ملوث نہ ہوتے اور نہ ہی ببانگ دہل ذمہ داری قبول کرتے تو شاید پاکستانی عوام کی اکثریت انہیں اپنا ہیر و قرار دے ڈالتی۔ بلا شک و شبہ پاکستان تاریخ کے نازک نہیں، بلکہ خوفناک ترین دور سے گزررہاہے۔ آج کے پاکستان میں عقیدہ تیز ہواﺅں کی لپیٹ میں آ چکا ہے، جبکہ عقیدت مندایک دوسرے پر نظریں جما ئے بیٹھے ہیں۔ کسی کی بھی خواہش نہیں کہ پل بھر کو ہی آنکھ جھپکے۔ قتل و غارت سے سبھی تنگ ہیں، لیکن آگے بڑھنے سے ہر کوئی کترا بھی رہا ہے۔ ایک طرف دلیل سے عاری سخت گیر ہیں، دوسری طرف وہ بوریا نشین ہیں،جنہوں نے صوفی ازم کو ” چراغ کے جن“ کا روپ دے ڈالا ہے ۔
پاکستان فی الوقت طالبانائزیشن سے بچ نکلا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترقی کی طرف مائل معاشرے میں بھلے چند فیصد لوگ ہی سہی ،طالبان کی طرف کیوں جھکے تھے؟ کہیں یوں تو نہیں تھاکہ لوگ روائتی مذہبی ، سیاسی جماعتوں سے متنفر ہونا شروع ہو چکے تھے۔ دوسرے لفظوں میں کہیں اس جھکاﺅکی ذمہ داری مذہب پرستوں اور سیاسی قائدین پر تو عائد نہیں ہوتی تھی ؟ طالبان نے پاکستانی جماعتوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا.... کمزوریاں کیا تھیں؟ ایک دوسرے پر برتری کی جنگ، باہمی کدورتیں اور ریاستی جبر کے شکار عوام کی خاطر جدوجہد فقط الفاظ ،اجلاس تک محدود۔ طالبان نے پرکھا، کیا مذہب پرستوں میں حقیقتاً کوئی ایسی قیادت موجود ہے، جو اپنے منشور کے توانا گھوڑے کوسچائی کی پگڈنڈی پر سرپٹ دوڑا سکے، جو مذہب کے اس رُخ کو دکھلا سکے، جہاں انسانیت کوانصاف کے ہم وزن پلڑے میں تولا گیا ہے۔ جہاں رزق کی تقسیم کے فارمولے میں جھوٹ، بددیانتی، کاہلی سے پرہیز کو معاشی بہتری سے نتھی کر دیا گیا ہے۔ جہاں عارضی تعلق میں لپٹے انسان کی ہتھیلی پر دوسروں کے حقوق کی لکیریں ابھار دی گئی ہیں۔جہاں عقائد کی شفافیت کو توہمات کی ظلمتوں سے نجات دلوا دی گئی ہے۔ جہاں اَن دیکھے خوف کے صدیوں پرانے الاﺅ کو سفید ستاروں جیسی ٹھنڈک عطاءکر دی گئی ہے۔ جہاں زمین کے وارث کو سورج، پہاڑوں ، سمندروں جیسے دیوتاﺅں کے معبد سے نجات دلوا کر ”عمل اور جزا“ جیسی آسان تھیوری متعارف کروا دی گئی ہے۔ جہاں خوشحالی کی مٹھاس کو محنت کے بیج سے مربوط کرکے بلا رنگ و نسل ، مذہبی امتیاز ،چاروں طرف بکھیر دیا گیا ہے۔ جہاں قومی وحدت، تشخص اور فخر کو یکجائی کی لڑی سے مشروط کر دیا گیا ہے؟
طالبان نے سب سے پہلے افغانستان میں تبدیلی کے گھوڑے پر سواری کی۔ وہاں معاشرتی تبدیلی نظر بھی آئی،لیکن پاکستان کے اکثر رہنما اس تبدیلی کے اثرات کو بھانپنے میں خطا کھا گئے۔ پاکستانی مذہبی رہنماﺅں نے دین کے نام پر دلوں میں رنجشیں پالنے والوں کو اعتدال کی مسحور وادیوں کی قدم بوسی سے بدستور محروم رکھا۔ خوابوں کی تعبیروں میں الجھے انسانوں کو عمل کی راہوں پر گامزن کر نے میں ناکامی حاصل کی۔ قدم قدم پر خیمہ زن مخبوط الحواسوں ، ذہنی بیماریوں کے شکار روحانیت کے دعوےداروں کو معاشرے میں اَن دیکھا خوف پھیلانے سے باز نہ رکھا۔ عام پاکستانی مسلمان کو اپنے ایمان کو تازہ کرنے کی خاطر نت نئے کھلاڑیوں کا شکار بننے دیا گیا۔ گمشدہ چیزوں کی بازیابی اور موکلوں پر قبضے کی داستانیں بکھیرتے زر پرستوں کو معجزاتی شخصیتوں کے درجے پر بدستور فائز کیا جاتا رہا۔
اکثر مذہبی جماعتیں عمل سے کیوں محروم ہیں؟.... برصغیر کے مسلمان ٹرین کو دجال کی آنکھ سمجھتے ہوئے ڈبوں پر سنگ ریزی کرتے رہے۔ لاﺅڈ سپیکر، انتقال خون پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔ تصویر کھنچوانے کو شریعت کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ چاند پر چہل قدمی کو خدائی احکامات کی خلاف ورزی گردانا گیا۔ یوگا کو کفر سے تعبیر کیا گیا۔ دنیا کی مشترکہ جائیداد ”چاند، قطب شمالی اور سمندری تہہ“ سے اپنے حصے سے محرومی پر لبوں کو تالے لگائے گئے۔ آج چاند کی زمین ٹکڑوں کی صورت میں باقاعدہ فروخت کے لئے مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ تیل اور معدنیات سے بھرے عالم اسلام میں ہے کوئی ایک بھی مسلمان ملک، جس نے چھوٹا سا ٹکڑا ہی حاصل کیا ہو؟ مسلمان کدھر جا رہے ہیں؟ کیونکر ادراک نہیں کر رہے.... محلے کی مسجد میں تقریر کرنے والا مقرر تو ہوسکتا ہے، عالم نہیں، کیوں محسوس نہیں کر رہے، جوش خطابت میں مہارت رکھنے والے بڑے شہروں کے پوش علاقوں کی مساجد کو ہی مسکن، کیوں بناتے ہیں۔
کیا ہم دیکھ نہیں پا رہے امام کا درجہ حاصل کرنے والے افراد اگلے مرحلے میں فنانسر ڈھونڈنے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ دین کو پھیلانے کے نام پر مدرسوں کی چین قائم کرنے کے سوال دراز کئے جاتے ہیں۔ نیٹ ورک پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔ قربانی کی کھالوں، تہواروں، ویلفیئر کی آڑ میں پیسہ برسنا شروع ہو جاتا ہے۔ خطابات پر مبنی کیسٹوں کے ذریعے گھروں ، فیکٹریوں ، دفاتر تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ آخری قدم کے طور ریاستی مشینری میں حصہ وصول کرنے کی خاطر سیاسی جماعت کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ سسکتی انسانیت کو راہ دکھلانے کی خاطر ہر پانچ ، دس سال بعد ایک نیا مذہبی رہنما منظر عام پر آرہا ہے۔ ہر آنے والا قومی تشخص کو تاراج کرتے ہوئے مخصوص لباس و عقائد متعارف کروا رہا ہے۔ غربت، جہالت کا عفریت قلیل عرصے میں ہزاروں پیروکار بھی فراہم کر دیتا ہے، پھر ایک دن ایسا بھی آتا ہے کہ ریاست کو خبر بھی نہیں ہو پاتی کہ عبادت کے نام پر مستقبل کے کس لائحہ عمل کو طے کیا جا رہا ہے؟ ریاست کو موہوم سا بھی احساس نہیں ہو پاتا کہ تخت ہوا پر سوار ”دین کی نئی تشریح“ کس سرعت سے دنیا کے دوسرے ممالک تک پہنچ رہی ہے اور جب خبر ہوتی ہے، تو ریاست کو مجرموں کی صورت دنیاکو جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔ سیاسی و مذہبی قائدین کو سوچنا ہو گا۔ اناﺅں، گروپ بندیوں، تعصبات اور ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہنے کی روش کو ترک کرنا پڑے گا۔
طالبان بدستور موجودرہیں گے۔ امن معاہدہ ہونے کے بعد بھی وہ پاکستان میں اپنی فلاسفی پھیلائیں گے۔ تیاری پاکستانی جماعتوں کی ہونی چاہئے؟ پاکستان بدلاﺅ کے سفر پر چل نکلا ہے۔ تبدیلی سیاست، معیشت اور معاشرت تک ہی محدود نہیں رہے گی۔ آنے والے ماہ و سال میں عقائد کی جنگ دوبارہ بھڑکے گی۔ یہ وہ انتہائی اہم وقت ہوگا، جب سیاسی اور مذہبی قائدین کو کما ل بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تیاری ابھی سے لازم قرار پاتی ہے۔ سستی کی گنجائش اس لئے بھی نہیں کہ مخالف بھی ابھی سے منصوبہ بندی میں مصروف ہو چکے ہیں۔ ارادے والا ہمیشہ تگڑا ہوتا ہے۔ ریاست دشمنوں کے ارادوں سے کون آگاہ نہیں؟ انہیں معروف قیادتوں کا خون بھی چاہئے اور روپیہ بھی۔ وہ نامور سیاست دانوں کی اولادوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں اور کاروباروں پر بھی۔ یاد رہے امن معاہدے بڑے نازک ستونوں پر کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک بار معاہدہ اختلافات کا شکار ہو جائے، تو دوبارہ پٹڑی پر چڑھنا انتہائی دشوارہوجاتا ہے۔ آج تمام سیاسی قوتیں ایک طرف اور طالبان ایک طرف ہیں۔اس وقت ریاست اور طالبان آمنے سامنے فریقین کی حیثیت سے معاملات طے کر رہے ہیں۔ دونوں طرف سے سمجھداری کی ضرورت ہے۔ ایک ہیرو بنے گا اور ایک ولن۔ ایک کو عوامی محبت ملے گی، دوسرے کو نفرت۔ دونوں کا امتحان ہے، جس نے معاہدے کی خلاف ورزی کی، جو جلدبازی کا شکار ہوا، جس نے اعلان جنگ میں پہل کی، وہ عوامی نفرت کا شکار ہوجائے گا۔ طالبان کو یہ نکتہ سمجھنے کی بالخصوص ضرورت ہے۔