تحریک طالبان کے خلاف آپریشن کے ممکنہ خدوخال (1)

تحریک طالبان کے خلاف آپریشن کے ممکنہ خدوخال (1)
تحریک طالبان کے خلاف آپریشن کے ممکنہ خدوخال (1)
کیپشن: gulaam

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جی ایچ کیو راولپنڈی کوئی زیادہ وسیع و عریض علاقہ نہیں۔ چاروں طرف سے سویلین آبادی اور فوج کی ساکن تنصیبات سے گھرا ہوا ایک تنگ سا کمپاونڈ ہے۔ اس کے اندر کوئی لڑاکا فوج نہیں ہوتی۔ صرف سٹاف آفیسر ہوتے ہیں جو دو دو تین تین برسوں کی ٹرم گزارنے کے بعد چلے جاتے ہیں۔ کوئی فیلڈ فارمیشن میں جاتا ہے تو کوئی کسی فوجی تدریسی ادارے میں پوسٹ ہو جاتا ہے۔.... کمانڈ، انسٹرکشن اور سٹاف وہ تین پیشہ ورانہ فرائض منصبی کی جہتیں ہیں جو باری باری تقریباً ہر اس آفیسر کے سپرد کی جاتی ہیں جو فوج کے لڑاکا (Combat) صیغے (Arm) یا سپورٹنگ سروس (Service) سے منسلک ہوتا ہے۔ آرمز اور سروسز، فوج کے دو بڑے اور اہم اجزائے ترکیبی ہیں۔
 لڑاکا صیغوں (Combat Arms) میں آرمر (ٹینک)، آرٹلری (توپ خانہ)، انجینئرز، سگنلز اور انفنٹری شامل ہوتے ہیں۔ آرمر اور انفنٹری (پیادہ فوج) کو فائٹنگ آرمز اور آرٹلری، انجینئر اور سگنلز کو سپورٹنگ آرمز کہا جاتا ہے۔
سروسز میں سپلائی (سروس کور) آرڈننس، میڈیکل، وٹرنری اور ایجوکیشن کوریں وغیرہ آتی ہیں۔
دشمن سے جنگ کرنے کے لئے ایک انفنٹری ڈویژن ایسی اکائی تصور کیا جاتا ہے جو بذاتہ کسی آپریشن کو بغیر کسی اضافی خارجی سپورٹ کے بروئے عمل لا سکتا ہے۔ عام طور پر ایک انفنٹری ڈویژن میں کم از کم دو انفنٹری بریگیڈ، ایک آرٹلری بریگیڈ، ایک آرمرڈ رجمنٹ، ایک سروس بٹالین، ایک میڈیکل بٹالین، ایک سگنل بٹالین، ایک آرڈننس بٹالین (یا اس کی کوئی تنظیم) اور ایک انجینئر بٹالین وغیرہ ہوتی ہیں۔ ان کے علاوہ آج کل میزائل یونٹیں اور توپخانے کی کئی اور چھوٹی بڑی یونٹیں بھی شامل کر دی گئی ہیں۔ مزید برآں متعلقہ Paraphernalia بھی ساتھ ہوتا ہے۔
یہ انفنٹری ڈویژن کسی کور کا حصہ ہوتا ہے اور ایک کور میں دو تین (یا چار) ڈویژن تک شامل ہوتے ہیں۔ دشمن کے خطرے(Threat)کو پیش نگاہ رکھتے ہوئے کوروں کو سٹرائیک کوروں اور دفاعی کوروں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد سرحدوں کی بانٹ ہوتی ہے۔ جس طرف سے حملے کا زیادہ خطرہ ہو، وہاں زیادہ فوج رکھی جاتی ہے اور جس جگہ خطرہ کم ہو، وہاں فوج کا حجم کم ہوتا ہے۔
ائر فورس کے دو بڑے رول ہوتے ہیں۔ ایک دشمن کے ہوائی حملے سے ملک کو بچانا اور دوسرے فوج کی معاونت(Close Support) کرنا۔

نیوی کا کام سمندری علاقوں/ سرحدوں کی حفاظت کرنا اور دشمن کی نیوی (بحریہ) کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔
اس سمع فراش کی قارئین سے معافی چاہتا ہوں۔.... ایک عام قاری چونکہ جدید عسکری تنظیم کے ہتھیاروں اور سازو سامان سے کم واقف ہوتا ہے اس لئے مَیں نے مناسب جانا کہ نہایت مختصر الفاظ میں افواجِ ثلاثہ کی تنظیم اور رول کے بارے میں قاری کو بنیادی آگہی دوں۔
جیسا کہ شروع میں کہا گیا، جی ایچ کیو ایک ایسا ادارہ ہے جس میں آرمی چیف کی معاونت کے لئے اس کا سٹاف موجود ہوتا ہے۔ یہ سٹاف، آرمی چیف اور زیر کمانڈ فیلڈ فارمیشنوں اور ساکن تنصیبات وغیرہ کے مابین مواصلات و مراسلت (خط وکتات) کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
راقم السطور ایک طویل عرصے تکGHQ میں رہا۔ ہر چند کہ میرا تعلق کسیCombat Arm سے نہیں تھا، لیکن اگر آپ نے وردی پہن رکھی ہو تو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ آپ کس آرم (Arm) یا سروس سے ہیں۔ اگر چشم و گوش کھلے ہوئے ہوں تو آپ کا تعلق خواہ کسی لڑاکا شعبے سے ہو یا غیر لڑاکا سے، آپ بہت کچھ جان، سمجھ اور سیکھ سکتے ہیں۔
سٹاف ورک مختلف انواع کے ہوتے ہیں جو افسران اور ان کا زیریں عملہ مل جل کر انجام دیتے ہیں۔ بارہ برس تک اگر راقم السطور کو GHQ میں ڈاکٹرین اینڈ ایلوایشن ڈائریکٹوریٹ میں بطور جنرل سٹاف آفیسر (گریڈ ون) کام کرنے کا موقع ملا تو اس طویل عرصہ¿ ملازمت میں درجنوں سینئرز اور جونیئرز ہم جلیسوں اور دوستوں سے سابقہ رہا۔ اور جیسا کہ مَیں نے پہلے عرض کیا GHQ، رقبے کے لحاظ سے کوئی زیادہ لمبا چوڑا علاقہ نہیں۔ سارے ڈائریکٹوریٹ ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ آپ اپنے دفتر سے نکل کر دس پندرہ منٹ میں پورےGHQ کا چکر لگا کر واپس اپنے دفتر میں آ کر بیٹھ سکتے ہیں۔
میرے دفتر کے دائیں طرف پچھواڑے میں آرمی چیف کا دفتر تھا۔ ہمسائے میں بجٹ ڈائریکٹوریٹ، انفنٹری ڈائریکٹوریٹ، آرمر ڈائریکٹوریٹ، ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ، ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ اور آرٹلری ڈائریکٹوریٹ، وغیرہ واقع تھے۔ اس سے ذرا آگے ملٹری سیکرٹری برانچ، کوارٹر ماسٹر جنرل برانچ اور چیف آف جنرل سٹاف برانچ تھیں۔ موخر الذکر یعنی CGS برانچ میں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے چیف آف جنرل سٹاف بیٹھتے تھے۔ یہ برانچ اپنی اہمیت کے اعتبار سے بمقابلہ دوسری برانچوں کے زیادہ اہم تصور کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی جنگ کی صورت میں آپریشنوں کی پلاننگ اور ان کا کنٹرول اسی برانچ نے کرنا ہوتا ہے۔....DGMO (ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز) اورDGMI (ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس) براہ راستCGS کو رپورٹ کرتے ہیں۔ ہر برانچ کا سربراہPSO (پرنسپل سٹاف آفیسر) کہلاتا ہے جو براہ راست آرمی چیف سے بات چیت یا خط و کتابت کرتا اور انہیں رپورٹ کرتا ہے۔ یہ جو ہم وقتا فوقتاً ٹی وی سکرین پر کور کمانڈرز کانفرنس دیکھتے ہیں، یہ دراصل کور کمانڈرز اور پی ایس اوز کانفرنس ہوتی ہے۔
اس نہایت مختصر پس منظر کے بعد اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ فوج کو اگر آج حکم دیا جائے کہ تحریک طالبان پاکستان یا دوسری جنگ باز (Militant) تنظیموں پر کریک ڈاﺅن کرے تو اس کا طریقہ ¿ کار کیا ہو گا۔
ایک اور گزارش کرتا چلوں تو بہتر ہو گا کہ مَیں 1996ءمیں فوج سے ریٹائر ہو گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد بھی ان دوستوں یاروں اور رشتہ داروں کے ساتھ مراسم جاری و ساری رہے جو حاضر سروس تھے۔ ان میں سے کئی جونیئر تھے اور کئی سینئر۔ ان کی زبانی فوج کی عمومی”نبض“ کا پتہ چلتا رہا اور اگرچہ آج ریٹائرمنٹ کو18برس ہو گئے، پھر بھی عسکری پس منظر کے کئی گوشوں اور کئی حوالوں سے فوجی معاملات کی کچھ نہ کچھ واقفیت اور آگہی ملتی رہتی ہے۔
پاکستان آج کسی دشمن کے ساتھ جنگ سے نہیں بلکہ دوست کے لباس میں ایک زیادہ خطرناک دشمن سے دوچار ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ خانہ جنگی، دشمن کے ساتھ دو بدو جنگ کے مقابلے میں بہت مختلف ہوتی ہے، لڑنے کے داﺅ پیچ مختلف اور اس کی ٹریننگ مختلف ہوتی ہے۔


اس خانہ جنگی کو شروع ہوئے اب 12،14برس ہو گئے ہیں، قارئین کے کان اس موضوع کو سن سن کر سُن اور آنکھیں اس کی خون آشامیوں پر رو رو کر خشک ہو چکی ہیں۔ ماضی میں پاک فوج نے جنوبی وزیرستان اور سوات میں جو آپریشن کئے ان کا سکوپ محدود تھا اور ہرچند کہ گزشتہ 12،14برسوں میں پاک آرمی (اور نیم مسلح افواج) کو اس سول وار سے نمٹنے کا کچھ نہ کچھ تجربہ حاصل ہوا ہے، لیکن فوج نے اس کی نہایت بھاری قیمت بھی ادا کی ہے۔ آج بھی فوج کا ہر سپاہی اس سول وار کا خوفناک اور بھیانک چہرہ دیکھ دیکھ کر اندر سے کھول رہا ہے۔ چار روز پہلے 23فوجیوں کو شہید کر دیا گیا اور دو روز قبل میجر جہانزیب عرفان کو شہید کیا گیا۔ اندریں حالات سارا معاشرہ دو طبقوں میں تقسیم ہے۔ آبادی کا ایک چوتھائی یا اس سے بھی کم حصہ طالبان کے نقطہ ¿ نظر کی طرف جھکاﺅ رکھتا ہے، جبکہ باقی اس سے180ڈگری مخالف نقطہ ¿ نظر کا حامل ہے۔
اس قسم کی خانہ جنگی کی مثالیں تاریخ ِ عالم میں اور بھی ہیں لیکن ان کا قلع قمع کرنے میں قوم کو جن مصائب سے گزرنا پڑا، وہ کربناک تھے۔ حکومت پاکستان بھی اگر کل کلاں اس شدت پسندی کے خلاف افواج ِ پاکستان کو ”بزن“ کا حکم دیتی ہے تو افواجِ پاکستان کو ایسا کرنے کے لئے کن کن تحریری اور غیر تحریری پلاننگ مراحل سے گزر کر آگے بڑھنا ہو گا، اس کا ایک مجمل سا خاکہ ہر قاری کے ذہن میں رہنا چاہئے۔
تین روز پہلے ہمارے سیکرٹری دفاع کا بیان بھی آپ نے پڑھا ہو گا کہ فوج ہر وقت ایسے آپریشنوں کے لئے تیار رہتی ہے۔ پھر بھی اس کالم کا مقصود یہ ہے کہ قارئین کو ان چیدہ چیدہ مراحل سے آگہی دی جائے جن سے افواج ِ پاکستان گزر کر یہ تیاری کرتی ہیں۔ اور جن سے پاکستان کی سویلین آبادیاں آئندہ چند دنوں میں براہ راست یا بالواسطہ گزرنے والی ہیں۔
یاد رہے کہ یہ آپریشن آسان نہیں ہو گا۔ سابق آرمی چیف سے40فیصد کامیابی کا جو بیان منسوب کیا جا رہا ہے، وہ اگرچہ درست سیاق و سباق میں کوٹ نہیں کیا گیا ہو گا لیکن اس کے باوجود کامیابی کے امکانات پر ہی سہی ایک طرح کی دھند سی چھائی ہوئی ہے۔ جنوبی وزیرستان اور سوات کے آپریشنوں کا فال آﺅٹ، ملک کے باقی صوبوں پر کم کم دیکھا گیا تھا، مگر یہ آپریشن ایک گرینڈ سکیل پر ہونے جا رہا ہے، اس لئے اس کا فال آﺅٹ بھی ”گرینڈ سکیل“ پر متوقع ہے۔
سطور ذیل میں کوشش کی جائے گی کہ آنے والے آپریشنوں پر جن کے لئے فوج تیار بیٹھی ہے۔ اس پہلو سے بھی ایک نگاہ ڈالی جائے کہ یہ ٹاسک کس سکیل کا ہو گا اور کیسے آگے بڑھے گا۔(جاری ہے)

مزید :

کالم -