پاکستان کا کسان
دنیا کے بہت سے ممالک کی طرح پاکستان کاکسان بھی اس وقت سخت مشکلات کا شکار ہے، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان میں زرعی شعبہ اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے گذر رہا ہے اور کسان چکی کے دو پاٹوں میں بری طرح پس رہا ہے۔ ایک پاٹ تو یہ کہ زرعی اجناس کی قیمتیں عالمی سطح پر کریش کر گئی ہیں جس سے ہمارے کاشتکار بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور ان کے کھیتوں سے زرعی اجناس کوڑیوں کے مول اٹھائی جا رہی ہیں اور دوسرا پاٹ فصلوں میں درکار اشیاء (farm inputs) کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہے۔یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ دنیا بھر میں یوریا کھاد کی قیمتیں کریش کر گئی ہیں لیکن پاکستان میں کسان کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا اور وہ اتنی ہی مہنگی کھاد خریدنے پر مجبور ہے جتنی چند ماہ پہلے یا گذشتہ سالوں میں تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بد قسمتی سے پاکستان میں یوریا کھاد کی درآمد کا فیصلہ ہنوز گو مگو کا شکار ہے۔ کیا وجہ ہے کہ دنیا بھر میں تیزی سے کریش ہوتی ہوئی یوریا کھاد کی کم قیمتوں کا فائدہ ہمارے کسانوں تک نہیں پہنچنے دیا جا رہا۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ یوریا کھاد کی درآمد پر نہ تو پابندی ہے اور نہ ہی اس کی اجازت، یہ ایک بڑی عجیب سی صورت حال ہے اوراسے جتنی جلد ای سی سی میں طے کر لیا جائے اتنا ہی ہماری زراعت کے لئے بہتر ہو گا۔فروری کے اوائل میں بھارتی حکومت نے یوریا کھاد پر درآمدی ڈیوٹی ختم کر دی تاکہ بھارتی کسان کو عالمی طور پر کریش قیمتوں کا براہ راست فائدہ پہنچایا جا سکے۔ وہاں یوریا پر سبسڈی بھی دی جاتی ہے جس کی وجہ سے بھارت میں یوریا کی بوری جو پہلے ہی صرف پانچ سو روپے کی مل رہی تھی، اب کم عالمی قیمتو ں کی وجہ سے اور بھی سستی ہو جائے گی۔ بھارت میں ہر قسم کی farm imputs پر سبسڈی دی جاتی ہے جن میں کھاد، ادویات، بجلی، پانی، ٹریکٹر ، زرعی مشینری اور آلات وغیرہ شامل ہیں جس کی وجہ سے بھارت میں کسان نہ صرف خوش حال ہے بلکہ اس کی فی ایکڑ پیداوار بھی اکثر اجناس میں پاکستان سے دو یا ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔ اس سال حکومتِ پاکستان نے ایک اچھا فیصلہ کیا اور ڈی اے پی کھاد پر سبسڈی دی جس سے ربیع کی فصل کو فائدہ پہنچا۔اس مد میں حکومت کے مختص کردہ بیس ارب روپے چونکہ خریف کی فصل سے پہلے ختم ہو چکے ہوں گے اس لئے میری رائے یہ ہے کہ ربیع کی طرح حکومت خریف کی فصل کے لئے بھی ڈی اے پی کھاد پر سبسڈی کے لئے مزید رقم مختص کرے۔جہاں تک یوریا کھاد کا تعلق ہے اس کی عالمی قیمتیں کریش ہونے کے بعد اس کا فائدہ کسان تک پہنچانا انتہائی ضروری ہے۔ بعض حلقوں میں یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ پاکستان میں کچھ حلقے یوریا کی درآمد پر ڈیوٹی لگوانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ خبر درست ہے تو یقین کیجئے کسان کی پہلے سے ہی دہری کمر مزید اٹھنے کے قابل نہیں رہے گی اور پاکستان کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا ہی، حکومت کے لئے سیاسی طور پر بھی تباہ کن ہو گا۔
گزشتہ سال ستمبر میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے 341 ارب روپے کے کسان پیکج کا اعلان کیا جو پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا پیکج تھا جس سے کسانوں کو کافی حد تک ریلیف ملا۔ اس کسان پیکج میں ڈی اے پی کھاد پر 500 روپے فی بوری سبسڈی دی گئی اور اس کے لئے 20 ارب روپے مختص کئے گئے۔ یہ سکیم کافی کامیاب رہی اور تاحال جاری ہے۔ حکومت کے اعلان کے مطابق یہ سکیم اس وقت تک جاری رہے گی جب تک یہ رقم ختم نہیں ہو جاتی۔ اس فنڈ میں نصف یعنی دس ارب روپے وفاق نے حصہ ڈالا جبکہ باقی کے دس ارب روپے صوبوں نے دینے تھے۔ موجودہ حکومت نے گذشتہ سال کے بجٹ میں بھی اسی فارمولہ کے تحت سکیم کا اعلان کیا تھا لیکن صوبوں کے عدم تعاون کی وجہ سے گذشتہ سال یہ شروع نہیں ہو سکی تھی۔ اس سال وفاق نے اپنے حصہ کے دس ارب اور صوبہ پنجاب نے سات ارب فوری طور پر دے دئیے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ باقی کے صوبے بھی اپنے اپنے حصہ کے مطابق رقم فنڈ میں ڈالتے لیکن بدقسمتی سے سندھ حکومت بار بار رقم دینے کا وعدہ تو کر رہی ہے لیکن غالباً وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ رقم ابھی تک جمع نہیں کرا سکے ہیں۔ بلوچستان میں چونکہ حال ہی میں حکومت کی تبدیلی کا مرحلہ تھا شائد اس وجہ سے اس میں تاخیر ہو رہی ہے لیکن سب سے عجیب رویہ صوبہ خیبر پختونخوا کا ہے جو اپنے حصہ کی رقم جمع کرانے سے انکاری ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ سندھ اور خیبر پختونخوا دانستہ طور پر سبسڈی سکیم کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جسے کسان دوستی ہرگز نہیں کہا جا سکتا اور اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ بہر حال وفاق اور پنجاب کی رقوم یعنی 17 ارب سے یہ سکیم کامیاب ہو چکی ہے جس نے کسان کی مشکلات میں کافی حد تک کمی بھی کی ہے۔ البتہ ڈی اے پی درآمد کرنے والی کمپنیوں کو جس طرح ایف بی آر اور وزارتوں کے درمیان چکر لگانے پڑ رہے ہیں اور اس کی ادائیگی میں تاخیر ہو رہی ہے اسے کسی طور پر بھی مستحسن نہیں کہا جا سکتا اور بیورو کریسی کا سرخ فیتہ حکومت کے ایک اچھے فیصلے کو داغدار کر رہا ہے۔
زراعت کے شعبہ میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کھاد یوریا ہے۔ پاکستان میں یوریا کھاد کی 50کلو والی بوری 1900 روپے میں ملتی ہے جبکہ یہی بوری بھارت میں 500 روپے کی ملتی ہے۔چند ماہ پہلے عالمی منڈی میں جب یوریا کھاد آج سے کئی گنا مہنگی تھی تب بھی پاکستان میں کھادکی بوری 1900 روپے کی تھی اور آج بھی جب انٹرنیشنل مارکیٹ میں اس کی قیمتیں بہت کم ہو گئی ہیں ، اس کی یہی قیمت پاکستان میں وصول کی جا رہی ہے۔ یہ امر کسی بھی طور پر خوش آئند نہیں ہے کیونکہ ہمارا کسان تو پہلے ہی بری طرح پسا ہوا ہے۔ پاکستان میں یوریا کی کل سالانہ کھپت تقریباً 65 لاکھ ٹن ہے جس میں سے تقریباً چالیس بیالیس لاکھ ٹن سالانہ پاکستان کی فرٹیلائیزر انڈسٹری بنا رہی ہے، باقی کی 25 لاکھ ٹن یوریا پاکستان کو درآمد کرنا پڑتی ہے ۔ پاکستان میں یوریا کی درآمد صرف سرکاری ادارہ ٹی سی پی کے تحت ہوتی ہے، پرائیویٹ سیکٹر کو ابھی اس کی درآمد کی اجازت نہیں ہے ۔ شنید ہے کہ حکومت پاکستان کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اگلے اجلاس میں یوریا کی آزادانہ درآمد بھی ایجنڈے میں شامل ہو گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ہمارے کسان بھائیوں کے لئے ایک بہت اچھی خبر ہے کیونکہ پہلے سے مرا ہوا کسان جو یوریا 1900روپے کی بوری خرید رہا ہے، آزادانہ درآمد کے بعد اس کی قیمت مارکیٹ میں 1500 روپے سے بھی کم ہو جائے گی جس کا براہ راست فائدہ ہمارے کاشتکار بھائیوں کو ہوگا۔ ذرا خود سوچئے کہ کسان کو اگر ہر بوری پر 400 روپے یا اس سے زائد کی بچت ہو تو اس کی input cost کتنی کم رہ جائے گی، وہ زیادہ آسانی سے ضروری مقدار میں کھاد استعمال کر سکے گا۔ اس وقت سب سے اہم بات کسان کو یوریا کھاد کو سستے نرخوں پر فراہم کرنا ہے ۔ وفاقی وزیر خوراک و زراعت سکندر بوسن خود بھی ایک کاشکار ہیں اور کسان کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ یوریا کھاد کی آزادانہ درآمد کے حق میں ہیں اور مجموعی طور پر بھی تمام سٹیک ہولڈرز کا موقف یہی ہے کہ جب ساری دنیا سستی کھاد سے استفادہ کر رہی ہے تو ہمارے کسان نے کیا قصور کیا ہے کہ وہ انتہائی مہنگے داموں یوریا خریدنے پر مجبور ہو۔ اب وقت آ گیا ہے کہ قومی مفاد میں فیصلے کئے جائیں جن کا فائدہ کسان کو پہنچے ۔پاکستان کی جو کمپنیاں یوریا کھاد بنا رہی ہیں انہیں بھی مزید سہولتیں دینے کی ضرورت ہے، خاص طور پر گیس کی قیمتوں میں اضافہ ایک غلط فیصلہ ہے جسے واپس لیا جانا ضروری ہے تاکہ فرٹیلائزر انڈسٹری کسی ممکنہ بحران سے بچ سکے۔ حکومت ٹی سی پی کے ذریعہ کھاد کی درآمد بند کرے اور اسے بالکل اوپن کردے تاکہ پاکستان کے زرعی شعبہ کی مشکلات کم ہو سکیں۔ چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پسا ہوا پاکستان کا کسان خوش حالی چاہتا ہے، اسے یہ حق دے دیجئے۔