انقلاب نے ایران کو ایک طاقتور ملک بنادیا
ایران کواسلامی انقلاب نے مشرق وسطیٰ کا ایک طاقتور ملک بنادیا ہے۔ موجودہ دنیا میں انسانی تاریخ نے 20 ویں صدی میں پہلا انقلاب روس میں دیکھا جس کی بنیاد کمیونزم کے فلسفے پر رکھی گئی اور لینن کے ہاتھوں یہ انقلاب برپا ہوا روس میں چونکہ بادشاہت تھی اور عوام پر چرچ کے پادریوں کی گرفت تھی اور عیسائی مذہب بادشاہ کے لئے حکمرانی کا سبب بنا ہوا تھا ، جبکہ پادری بادشاہوں کے لئے استعمال ہوتے رہے ہیں ہم نے اس دور میں بھی دیکھا ہے کہ جہاں ملوکیت اور شخصی حکومتوں کا غلبہ ہے، وہاں علماء دربار میں کھڑے نظر آتے ہیں، ان بادشاہوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں اور ان کی حکمرانی کے دوام کے لئے لمبی دعائیں مانگتے ہیں۔ ایران میں بعض علماء شاہ ایران کے دربار سے وابستہ تھے۔ پاکستان میں بھی علماء اور مشائخ کا میلہ ہرسال، فوجی آمرہو یاجمہوری حکومتیں، لگتا ہوا نظر آتا ہے۔ تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ ایسا ہر دور میں ہوتا رہاہے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ایران میں وقفے وقفے سے علماء اٹھتے رہے ہیں، لیکن شاہ کے جبر واستبداد نے ان کی زندگی کے چراغ ہمیشہ گل کئے ہیں، لیکن جون 1963ء میں ایران کے اندر رضاشاہ کے خلاف پہلی بار ایک طاقتور صدائے احتجاج بلند ہوئی اور طاقتور آوازجناب خمینی کی تھی جس نے شاہ کے اقتدار کو بڑی قوت سے للکارا ۔اس آواز نے شاہ ایران کو حیرت زدہ کردیا اور اس نے فوج کو حکم دیا کہ اس شخص کو گرفتار کیا جائے۔ فوج نے امام خمینی کوگرفتار کرلیا ،اس تقریر کے بعد مدرسے کے طلباء اور علماء نے احتجاج کیا ۔ شاہ کی فوج مدرسے پر حملہ آور ہوگئی اور 17ہزار لوگوں کوقتل کردیا گیا۔ امام خمینی کو جیل میں رکھا گیا اور ایک سال کے بعد انہیں رہا کردیا۔ انہوں نے پھر شاہ کے خلاف مدرسہ قیفیہ میں تقریر کی اور انہیں شاہ نے ملک بدر کردیا خمینی کی یہ تقریر انقلاب کی بنیاد بن گئی اور پھر 16سال کے بعد شہنشاہ ملک سے بھاگ رہا تھا اور وطن بدر شخص وطن لوٹ رہا تھا اور انقلاب شاہ کے محلات پر دستک دے رہا تھا، امام خمینی کے جان نثاروں نے شاہ کا تختہ الٹ دیا اور وزیراعظم شاہ پور بختیار ملک سے فرار ہوگیا اور انقلاب میں شاہ کے وفاداروں کو سڑکوں پر کھینچ کر مارا۔ شاہ کے جنرل بھاگ رہے تھے انقلابیوں کو یہ جہاں نظر آتے وہ موت کے گھاٹ اتاردیئے گئے اور گیارہ فروری 1979ء کو شاہ کا نظام جو امریکی بیساکھیوں پر کھڑا تھا انقلاب کے سامنے سرنگوں ہوگیا اور اقتدار انقلابیوں کے قدموں پر آن گرا۔ گیارہ فروری ایران کی تاریخ کا ایک جگمگاتا ہوا سنہرا باب ہے۔ 20 ویں صدی کی ابتداء میں روس میں انقلاب برپا ہوا اور اس کے آخری حصے میں ایران میں انقلاب نے کامیابی حاصل کی۔ روس کے سوشلسٹ انقلابی افغانستان میں مجاہدین کے ہاتھوں شکست کھاکر تاریخ کے صفحات سے معدوم ہوگئے اب وہ ایک افسانہ بن کر رہ گیا ہے روس کا انقلاب کارل مارکس اور ہیگل کے فلسفے کی بنیاد پر اٹھاتھا ایک مادی انقلاب تھا مادیت کا فلسفہ ایک ملحدانہ فلسفہ تھا اور ہے اور پاکستان میں یہ گروہ اپنے آپ کو سیکولر کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان کے سوشلسٹ دانشور ادیب اور شاعر اپنے آپ کو ترقی پسندی کے پردے میں چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ ان میں اکثر روس نواز سوشلزم کے حامی تھے اب یہ زیادہ تر امریکی کیمپ میں نظر آئیں گے۔ بعض تو تائب ہوکر کنارہ کش ہوگئے ہیں۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ دونوں انقلاب 20وی صدی ہی میں برپا ہوئے اور ایک نے صدی کے آخری حصے میں دم توڑ دیا۔ روس لینن کا رہا اور نہ سرخ جھنڈا رہا۔ یہ بھی تاریخ کا سبق آموز لمحہ تھا جب ماسکو میں کامریڈوں نے لینن کے مجسمے کوگراکر سڑکوں پر گھسیٹا اور اس پرجوتیاں مارتے رہے، حالانکہ پاکستان کا دایاں بازو ہمیشہ جلسوں اور جلوسوں میں نعرے لگاتاتھا سوشلزم کا قبرستان پاکستان پاکستان۔
سوویت یونین کے کامریڈوں نے پاکستان کے دائیں بازو کو زحمت ہی نہیں دی اور خود ہی سوشلزم کو روس میں دفن کردیا بیسویں صدی کے روس اور ایران کے انقلاب میں ایک بہت بڑا جوہری انقلاب نظر آئے گا، ایک انقلاب مادیت اور ملحدانہ نظریے کی بنیاد پر برپا ہوا اور رخصت ہوگیا دوسرا انقلاب ایران میں مادیت کی ضد تھا اور اس کی بنیاد ایک الہامی نظریے اور فلسفے پر تھی، یہ کامیاب ہوا اور اس کا سفر جاری ہے ایک اور بڑا واضح فرق دونوں میں نظر آئے گا ۔امریکہ اور مغرب نے اس کو ابتدا سے آگے سفر کرنے دیا بعد میں ایک بڑے عرصے کے بعد اس کاگھیراؤ شروع کیاگیا اس لئے کہ اس کی بنیاد مادیت پرتھی اور امریکہ سمیت مغرب کا اقتدار بھی مادہ پرستی کے فلسفے پر کھڑا تھا۔ اختلاف اس وقت شروع ہوا جب اس نے مشرق وسطیٰ کی طرف رخ کیا اور مسلم دنیا کی طرف متوجہ ہوا۔ سوویت یونین جب تیل والے ممالک کی طرف آنا شروع ہوا توامریکہ اور مغرب کے کان کھڑے ہوگئے اور اس کی پیش قدمی کوروکنے کی منصوبہ بندی شروع کردی۔ ایران میں انقلاب چونکہ امریکہ نواز شاہ کو ہٹاکر آیا تھا اور رضاشاہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے زیادہ تابعدار حکمران اور اس کا آلہ کار تھا۔ ایران کے انقلاب نے امریکن نواز ممالک کو خطرات سے دوچار کردیا تھا اور اس انقلاب کی لہر کو روکنا ضروری تھا اور اس کا گھیراؤ کیاگیا پہلے مرحلے پر عرب و عجم کا فلسفہ کھڑا کیا اور صدام کو استعمال کیا لیکن شکست نہ دے سکا تو پھر دوسرا رخ استعمال کیا اور امریکہ اس میں کافی حد تک کامیاب رہا۔ یوں اس کی پیش رفت کو روکا گیا ایران پر جنگ مسلط کی اس کے بعد معاشی ناکہ بندی کی، ایرانی قیادت اور قوم نے 30 سال تک اس کا مقابلہ کیا اور سرخرو رہے۔ اب ایران میں انقلابی لیڈر اور عوام اس کی 38ویں سالگرہ منارہے ہیں۔ امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ ایران کو اس کے مسلکی دائرے میں ہی گھیراجائے،دوسری طرف اس کی پیش قدمی کو روکا جائے ایران اس سے کسی طرح نکلے گا بھی یانہیں؟ اس کا جواب آئندہ سالوں میں مل جائے گا۔ امریکہ کا نو منتخب صدر صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد ایران کی طرف متوجہ ہواہے اور بیان داغا ہے کہ میں اوبامہ نہیں ہوں، اوباما کی سب سے بڑی کامیابی ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ہے اور اس میں امریکہ کے ساتھ چین، روس، فرانس، برطانیہ، جرمنی شامل ہیں یہ معاہدہ کوئی ایک ملک کا نہیں ہے اس میں چین اور روس بھی فریق ہیں ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے اس معاہدے سے نکلنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ امریکی صدر کے لئے ابتداء میں ہی مشکلات اس کے اپنے رویہ اور پالیسی کی بدولت سامنے آگئی ہیں، اس سے وہ کیسے نکلیں گا یہ مستقبل قریب میں نظر آجائے گا۔
اب نئے امریکی صدر کے آنے سے امریکہ ایران کشمکش دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔ سعودی عرب نے ٹرمپ کو کھلے عام ا یران کے خلاف محاذ آرائی کے لئے دست تعاون بڑھادیا ہے۔ اب ایران پہلے والا ایران نہیں رہا بلکہ معاشی ناکہ بندی اور مغرب کی سازشوں نے اسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا ہنر سکھا دیا ہے۔ اب وہ امریکہ سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتا ہے اور کررہا ہے۔ امریکی صدر کی دھمکی کے جواب میں ایران کا زبردست طاقتور ردعمل سامنے آرہا ہے۔انقلاب کے لئے ضروری ہے کہ اس کاکوئی دشمن ہو، اب 38 سال کے بعد امریکہ پھرسرگرم ہورہا ہے۔ امریکہ دشمنی کا یہ اقدام ایران کو طاقتور اور متحد کردے گا، قوم انقلابی حکومت کی پشت پر کھڑی ہوگئی ہے اور کھڑی رہے گی۔ ایران کے انقلاب سے سبق سیکھیں اور امریکی غلامی سے نجات حاصل کریں..... ایرانی قیادت اور قوم کو 38 ویں سالگرہ پر مبارکباد دیتے ہیں۔