قانون کا احترام

قانون کا احترام
قانون کا احترام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ ایمان کیا چیز ہے؟ ہم اکثر لوگوں کی ایمان کے حساب سے درجہ بندی کرتے ہیں کہ فلاں شخص ایماندار ہے یا بہت زیادہ ایماندار ہے۔ بے ایمان ہے یا بہت زیادہ بے ایمان ہے اور یہ کہ فلاں کا ایمان کیا ہے یا وہ کس پر ایمان رکھتا ہے پھر ایسے بھی ہوتا ہے کہ فلاں شخض کی ایک حرکت نے اس کے ایمان کا بیڑہ غرق کر دیا۔ یا فلاں شخص نے ایسی خوبصورت بات کی کہ ایمان تازہ ہو گیا ہے۔

وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالی کی کائنات کا احاطہ کرنا ابھی تک کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے آج تک کوئی یہ ثابت نہیں کر سکا کہ اس کائنات میں کل کتنے نظام شمسی ہیں بلکہ انسان تو ابھی تک اپنے نظام شمسی کو بھی سمجھنے سے قاصر ہے۔

اور ہم جس سیارے زمین پر موجود ہیں یہ کل کائنات کا ایک ذرہ ہے لیکن اس ذرے پر اب انسانوں کی تعداد سات بلین یعنی ۷ ارب نفوس سے تجاوز کر چکی ہے اور ان انسانوں کے مختلف اعتقادات اور مختلف ایمان ہیں۔

ان سات ارب سے زائد انسانوں میں لگ بھگ ایک ارب پنتالیس کروڑ سے زیادہ مسلمان ہیں جو اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہیں، تمام یا ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں(حالانکہ کسی کو کوئی پتا نہیں کہ یہ سارے پیغمبر کب اور کہاں آئے اور وہ کہاں مدفون ہیں) مسلمانوں کا روز قیامت پر ایمان ہے اور اللہ تعالی کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان بھی ہے( یہ الگ بات کہ کوئی کتاب پڑھی نہ سمجھی)


ہر مسلمان جانتا ہے کہ اللہ تعالی نے جھوٹ سے سخت منع فرمایا ہے، کسی کی غیبت کرنا ایسے ہی ہے جیسے اپنے بھائی کا گوشت کھانا۔ اسی طرح دوسری تمام غیر اخلاقی حرکات اسلام میں بالکل جائز نہیں ہیں، کسی کا مال چوری کرنا، کسی کے حق پر ڈاکا ڈالنا، امانت میں خیانت کرنا یہ تمام باتیں اسلام میں سخت منع ہیں لیکن ان کی اکثریت کو مسلمان اکثریت میں اپنائے ہوئے ہیں ساتھ ساتھ اپنی نمازوں اور دوسری عبادات میں اللہ سے گڑ گڑا کر دعائیں بھی مانگتے نظر آتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں تمام برائیوں سے نجات عطا فرما، ہمیں ایمان کی دولت عطا فرما۔

تمام گناہوں کی سزا سے بھی واقف ہیں۔ جنت اور دوزخ میں درجات پر بھی ایمان رکھتے ہیں لیکن پھر بھی اکثر و بیشتر ایسے جرائم کاحصہ بنتے رہتے ہیں۔ میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ بہت سارے ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کی بھاری اکثریت جھوٹ نہیں بولتی، کسی غیر اخلاقی حرکت کی مرتکب نہیں ہوتی۔

جبکہ ان میں سے کئی اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ کسی پیغمبر پر، روز حساب کو مانتے ہیں نہ کسی الہامی کتاب پر یقین رکھتے ہیں۔ پھر کیوں ایسا نہیں کرتے؟ جبکہ مسلمانوں کی اکثریت بے خوف اللہ کا اور اپنے ملک کا قانون توڑتی ہے حقوق العباد کی پرواہ کرتی ہے نہ حقوق اللہ کی۔


میں یہاں ایک واقعہ اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں جو کسی اور کے ساتھ نہیں بلکہ میرے ساتھ پیش آیا۔ ناروے میں میرا ایک سپیشلسٹ ڈاکٹر تھا اور بہت ہی اچھا انسان اور ہمدرد ڈاکٹر ہے اپنے مریضوں سے انتہائی خوش اخلاقی سے پیش آنا اور ان کی ہر طرح سے مدد کرنا اس کی گھٹی میں شامل تھا۔

یہ 1997ء کی بات ہے میں اپنی فیملی سمیت رمضان کے آخری عشرے میں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے اور پاکستان میں عید منانے کے بعد سات ہفتے گزار کر واپس ناروے گیا تو مجھے احساس ہوا کہ مجھے اپنے ڈاکٹر کے لیے کوئی اچھا سا تحفہ لانا چایئے تھا۔ پھر جب میں اپنے ڈاکٹر کے پاس گیا۔

اور اس سے جھوٹ بولا کہ میں نے آپکے لیے کوئی گفٹ خریدا تھا لیکن ساتھ لا نہیں سکا تو آپ یہ گھڑی لے لیں جو خاصی قیمتی گھڑی تھی لیکن ڈاکٹر نے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے اپنے ملک میں جاکر مجھے یاد رکھا اور میرے لیے تحفہ خریدا جب کوئی پاکستان سے آئے گا تو وہ تحفہ منگوا کر مجھے دے دینا۔ لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ میں نے کوئی تحفہ خریدا ہوا نہیں تھا۔

لیکن ظاہر ہے اب کچھ کرنا تھا جب ڈاکٹر صاحب نے قبول کر لیا کہ وہ مجھ سے گفٹ لیں گے۔ تو میں نے پاکستان میں اپنے بھائیوں اور ایک کزن سے بات کی کہ وہاں سے کوئی اچھا سا تحفہ خرید کر کسی آنے والے کے توسط سے بھیج دیں۔


میرے بھائیوں سے تو یہ کام نہ ہو سکا لیکن میرے کزن جو خود بھی نارویجین نیشنلٹی ہولڈر تھے نے بہت اچھی پینٹنگز خریدیں اور خود جب ناروے آئے تو لے آئے میں نے ان میں ۲ پینٹنگز کو خوبصورت فریم میں سجایا نیت یہ تھی کہ ایک ڈاکٹر صاحب کو دوں گا اور ایک اپنے ڈرائنگ روم میں سجاوں گا۔ میں نے ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور بتایا کہ آپ کا گفٹ آگیا ہے اور یہ ۲ پینٹنگز ہیں میں دونوں آپکے پاس لے آتا ہوں ان میں سے ایک آپ خود پسند کر کے لے لینا۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے اپنے گھر کا پرائیویٹ نمبر دیا اور کہا کہ میری بیوی سے بات کر کے اسے دکھا دو وہ پسند کرے گی۔

میں نے اسکی بیوی سے بات کی اور ٹیکسی بک کر کے دونوں پینٹنگز ان کے گھر بھجوا دیں جب اس نے دونوں پینٹنگز دیکھیں تو مجھے فون کرکے کہا کہ اس کے لیے بہت مشکل ہے ان میں سے ایک کا انتخاب کرنا کیوں کہ دونوں ہی بہت خوبصورت ہیں۔ میں نے دل پر ہاتھ رکھا اور اس سے کہا کہ دونوں ہی رکھ لیں۔ اس بات پر وہ بہت خوش ہوئی اور میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے دونوں رکھ لیں۔


اس کے بعد جب میں ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا تو اس نے بھی میرا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ بہت خوبصورت پینٹنگز ہیں اور میری بیوی بہت خوش ہے۔ مجھے بھی یہ سن کر بہت خوشی ہوئی۔


اب آگے پڑھئے کہ پھر کیا ہوا۔ ایک ماہ بعد میرے ڈاکٹر صاحب نے مجھے فون کیا نئی اپوأئنمنٹ دی اور ساتھ ہی یہ کہا کہ جس دن میرے پاس آو گے اپنی پینٹنگز بھی واپس لیتے جانا۔ مجھے بہت حیرانگی ہوئی اور میں نے برجستہ سوال کیا کہ کیوں کیا ہوا۔ وہ ڈاکٹر بولا کہ مجھے اپنے کسی پیشنٹ سے تحفہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے تو بہت پہلے آپ کو بتایا تھا کہ میں نے آپکے لیے گفٹ خریدا ہے آپ نے قبول کیا پھر دیر بعد میں نے پاکستان سے منگوایا پھر آپ کو بتایا، آپکی بیوی کو پسند کروا کر آپ نے خوشی سے پینٹنگز رکھی تھیں اب کہاں سے یہ نیا قانون نافذ ہوا ہے تو ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ قانون پہلے سے موجود تھا لیکن مجھے پتا نہیں تھا اور اب میں نے کسی سیمینار میں سنا ہے اور پھر کتاب میں پڑھا ہے لہذا اب مجھے پتا چل گیا ہے کہ میں اپنے کسی بھی مریض سے تحفہ نہیں لے سکتا تو میں معذرت خواہ ہوں میں نے کہا کہ یہ کوئی رشوت نہیں نہ میں نے آپ سے کوئی مدد مانگی ہے اور نہ ہی میں نے کسی کو بتانا ہے پینٹنگز آپ کے گھر میں لگی ہیں کسی کو کیا پتا کہ آپ نے کہاں سے لی ہیں، میں کسی بھی صورت واپس نہیں لوں گا یہ میرے گفٹ کی اور میری توہین ہوگی۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کئی بار معذرت کی اور اپنی بات پر بضد رہا کہ کسی کو پتا ہو نہ ہو مجھے تو پتا ہے نا کہ یہ پینٹنگز میں نے اپنے مریض سے لی ہیں جس کی مجھے اجازت نہیں ہے۔ میں نے یہاں تک کہا کہ میں اپنا ڈاکٹر بدل لیتا ہوں آپ کا پیشنٹ نہیں رہتا لیکن اپنا تحفہ واپس نہیں لوں گا۔

چونکہ ڈاکٹر صاحب بہت ہی نرم دل اور ہمدرد انسان تھا مجھے کسی صورت ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا اس نے مجھے بہت سمجھایا کہ ہمیں قانون کا احترام کرنا چایئے اور اپنا ایمان خراب نہیں کرنا چایئے اور آخر میں ڈاکٹر صاحب نے مجھے اس سارے معاملے کا ایک حل پیش کیا کہ میں ایک پینٹنگ واپس لے لوں اور دوسری ہسپتال کو تحفہ کر دوں اس پر میرا نام لکھ کر ہسپتال کی دیوار پر آویزاں کر دیا جائے گا۔

جو میں نے بھی قبول کر لیا اور اس پر عمل درآمد ہو گیا۔ اس بات کو اب بیس سال ہو گئے ہیں اور آج سے پانچ سال پہلے تک میری وہ پینٹنگ اس ہسپتال کی دیوار پر آویزاں تھی جو اب بھی ہوگی۔ میں پچھلے پانچ سال سے اس ہسپتال میں نہیں گیا۔ وہ ڈاکٹر صاحب تو اس ہسپتال سے دو سال بعد کہیں اور چلے گئے تھے کسی پرائیویٹ کلینک کو جوائن کر لیا تھا۔

اب اس میں قابل غور بات ایمان کی ہے کہ ان دونوں میاں بیوی نے کتنی خوشی سے ایک تحفہ قبول کیا اور کچھ عرصے تک اپنے گھر میں رکھا لیکن جیسے ہی پتا چلا کہ اس کی ہمیں اجازت نہیں یہ ناجائز ہے تو اسی دن وہ پینٹنگز گھر سے اٹھا کر اپنے ہسپتال میں لے گئے۔

اب میں یہ تو نہیں جانتا کہ ان ڈاکٹر میاں بیوی کا ایمان کیا ہے، ان کا مذہب کونسا ہے وہ اللہ کی ذات پر یقین رکھتے ہیں کہ نہیں لیکن مجھے اتنا پتا ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ اب ان کو کس بات کا ڈر تھا؟ اور دوسری طرف ہم ہیں کہ اللہ پر ایمان، انبیاء پر یقین، روز محشر ہمارے ایمان کا جزو لازم گھروں میں قرآن، مسجدوں میں نمازیں اور مکہ مدینہ کے پھیرے۔دعائیں مانگ مانگ کر ہم عرش ہلا دیتے ہیں ایمان پھر بھی اتنا کمزور کہ دنیا کی تمام برائیوں کا ارتکاب یہاں ہو رہا ہے پھر بھی اس امید سے بھرپور کہ جنت پر حق صرف ہمارا ہے کیونکہ ہم کلمہ گو ہیں۔

ہم اپنے تمام گناہوں اور غلطیوں کو بہت آسانی سے شیطان کے سر تھوپ دیتے ہیں۔ اور یہ کہہ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ یہ سب کچھ پہلے ہی دن سے اللہ تعالی نے ہمارے نصیب میں لکھ دیا تھا لہذا ہم اس کا لکھا بھلا کیسے بدل سکتے ہیں! گویا کہ یہ اللہ نے لکھا ہے کہ ہم رشوت لیں، دوسروں کا حق ماریں، معاشرے میں قتل و غارت کا بازار گرم رکھیں۔

سات سات سال کی بچیوں کو ریپ کر کے قتل کریں۔ یا ملک لوٹ کر بیرون ملک جائدادیں بنائیں۔ ہمارے ایمان میں فرق نہیں آتا۔ جب آپ برائیاں خود چھوڑنا ہی نہیں چاہتے تو پھر دعائیں مانگنے کا کیا فائدہ؟

مزید :

رائے -کالم -