نواز شریف اور بھٹو کی طاقت میں فرق

نواز شریف اور بھٹو کی طاقت میں فرق
نواز شریف اور بھٹو کی طاقت میں فرق

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج بدزبانی اور روشن خیالی ہے۔کسی کا "توا" لگانا بھی اتنی ہی ہتک آمیز حرکت ہے جتنی کسی کی "توہین" ہوسکتی ہے۔ اس وقت نواز شریف کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اگر وہ کشمیر آزاد کرنے کا اعلان کردیں تو لوگ پیدل مقبوضہ کشمیر کی طرف چل پڑیں۔

نواز شریف کو چاہئے کہ وہ اپنے ماتھے پر "یہ سب میری ماں کی دعا ہے"لکھوائیں۔ان کی اور بھٹو کی دلیری میں یہی فرق ہے کہ بھٹو کے پیچھے ماں جیسی طاقتور ہستی نہیں بیٹھی ہوئی تھی۔


جب نوا ز شریف کو اقتدار سے باہر کیا گیا تھا تو وہ اکیلے پوچھ رہے تھے کہ مجھے کیوں نکالا اور آج ہر پاکستانی پوچھ رہا ہے کہ نواز شریف کو کیوں نکالا؟نواز شریف کے سوال کو زبان خلق مل گئی ہے، خدا کی خدائی پوری طاقت کے ساتھ ا ن کے پیچھے کھڑی ہے۔

لودھراں میں نون لیگ کی جیت نے طلال چودھری اور دانیال عزیز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کو بے وقعت کردیا ہے، عین ممکن ہے کہ اگر ان کو سزا ہو تو وکلاء برادری عدلیہ کے سامنے کھڑی ہو جائے، بنچ اور بار میں تقسیم ہویدا ہو جائے اور عاصمہ جہانگیر کے جانے سے پیدا ہونے والا خلا پر ہو جائے، وکلاء کل عدلیہ کو آزاد کروانے کے لئے نکلے تھے، آج پابند کرنے کے لئے نکل سکتے ہیں کیونکہ جج وکیلوں کی اور مشرف کی باقیات فوج کی حمائت کھوتے جا رہے ہیں، نواز شریف نے درست کہا تھا کہ جج صاحبان بغض سے بھرے بیٹھے ہیں، ان کا بغض خدا نے ظاہر کردیا، ایک طرف بابار رحمتے اور ایک طرف پورا گاؤں کھڑا ہے، ایم کیو ایم کے ایک گروہ نے تو چیف جسٹس کو اپنی قیادت کی دعوت بھی دے دی ہے اور کراچی شہر میں بورڈ بھی آویزاں کردیئے ہیں ۔ اب نیب بھی دوبارہ سے نواز شریف اور مریم نواز کانام ای سی ایل میں ڈالنے کا کہنے سے پہلے سو مرتبہ سوچے گی اور عمران خان اگلے تین ماہ تک کوئی ڈھنگ کا جلسہ نہیں کر سکیں گے۔


لودھراں میں نواز شریف کی ایسی جیت ہوئی ہے کہ شہباز شریف ایک مرتبہ پھر وزارت عظمیٰ کے امیدوار کم اور طلبگار زیادہ لگنے لگے ہیں۔

ایسے لگتا ہے کہ نواز شریف دوبارہ قومی اسمبلی جائیں گے کیونکہ ان کے ہوتے کسی اور کا دیا نہیں جل سکتا۔ عین ممکن ہے شیخ رشید اگلے انتخابات میں اتنے سرگرم نہ رہیں جتنے مال روڈ پر جلسے سے قبل دکھائی دیتے تھے جبکہ عمران خان جب چاہیں گے ملک سے باہر جا سکتے ہیں اور آصف زرداری کو تو سیاسی طور پر کمزور کرنے کے لئے سینٹ کا الیکشن ہی کافی ہوگاکیونکہ وہ اپنی چالوں سے باز نہیں آئیں گے جو بالآخر ان کے لئے بدنامی کا باعث بنیں گی۔ بے چارے چودھری نثار کو اسی تنخواہ پر کام کرنا پڑے گا جبکہ جنرل مشرف کا ایم کیو ایم کی سربراہی کا خواب انہیں بے خوابی کے مرض میں مبتلا کردے گا۔


نواز شریف کی جیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ ہیں، ان کی اپوزیشن میدان میں نہیں مچان میں چھپی بیٹھی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ ریٹائرڈ فوجی تجزیہ کار بھی چپ سادھے بیٹھے ہیں، یہ بات زباں زد عام ہے کہ عمران خان وہ کارتوس ہیں جس کا مسالہ گر گیا ہے۔


اگلے پانچ ماہ اگر نواز شریف کی عوامی تائید یونہی قائم رہی تو وہ خالی پنجاب، سندھ، کے پی، بلوچستان، کشمیر اور بلتستان سے ہی نہیں بلکہ فوجی بیرکوں سے بھی جیتیں گے کیونکہ ان کا ایجنڈا ڈویلپمنٹ ہے ، عمران خان کی طرح انٹ شنٹ نہیں ہے۔

جہانگیر ترین عمران خان کے ساتھ لگنے سے پہلے مسٹر کلین کہلاتے تھے لیکن عمران خان کے ساتھ لگنے سے ان کا پیسہ بھی لگا اور عزت بھی داؤ پر لگ گئی، اب وہ پی ٹی آئی کا اثاثہ نہیں بوجھ ہیں، لودھراں میں شکست فاش نے ان کا اور پی ٹی آئی کا بھٹہ بٹھادیا ہے۔

لاہور کے حلقہ 120میں نواز شریف کے ووٹر جس طرح پریشان ہوئے تھے لودھراں کے حلقہ 154میں انہیں ویسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، لگتا ہے کہ لودھراں میں سب نے مس کیلکولیٹ کیا تھا، اسٹیبلشمنٹ نے بھی! ....مشاہد حسین کے نون لیگ جوائن کرنے سے ٹیکنوکریٹ حکومت کا چانس مائنس فور رہ گیا ہے۔ اب نواز شریف جس طرح آگے بڑھ رہے ہیں وہ سیدھا جیل جا سکتے ہیں، جہاں تک نیب عدالت کا تعلق ہے تو نہ صرف نواز شریف بلکہ نیب بھی اپنا موقف ثابت کرنے سے گریزاں ہے، اس کارروائی کا مقصد محض نواز شریف کو بدنام کرنا تھا جبکہ نواز شریف اسے عوام کی توہین قرار دے کر عوام سے نوٹس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ان کو جیل ان کے لئے سیاسی ریل پیل ثابت ہوگی، نون لیگ کو مسائل کا سامنا تبھی ہو سکتا ہے اگر ان کی عدم موجودگی میں وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے۔


حیرت یہ ہے کہ آج کے رائے سازوں کی اکثریت عوام کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑی ہے، بڑے بڑے تجزیہ کار اور تجزیہ نگار عوامی خواہش اور امنگ کے خلاف ایستادہ ہیں، لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں اسے وہ سننے کے لئے تیار نہیں ہیں اور جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں عوام اسے خاطر میں نہیں لا رہے ہیں۔

کیا بھٹو کے خلاف بھی رائے ساز ایسے ہی ایستادہ تھے، کیا فاطمہ جناح کے خلاف بھی؟....کیا شیخ مجیب الرحمٰن کے خلاف بھی؟؟؟ایسے تجزیہ کاروں اور تجزیہ نگاروں کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر عوام کی توہین کی جاتی ہے ۔

وہ اسی طرح عوام کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں جس طرح ہمارے ججوں نے پی سی او کا حلف اٹھا کر کی تھی۔ پنجاب کا پانی ہی ایسا ہے ، یہاں کسی کے اختیار سے انکار کو مردانگی سمجھا جاتا ہے ، سندھ کا پانی ایسانہیں ہے۔ پنجابی کو فکر لاحق رہتی ہے کہ وہ کتنا کھرا ہے جبکہ سندھی کو فکر ہوتی ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہے، مزاج کا یہ فرق پانیوں کی تاثیر کا فرق ہے، پانی سے مزاج بنتا ہے جبکہ ہوا شکل و صورت نکالتی ہے ۔

معاشرے آب و ہوا سے تشکیل پاتے ہیں۔نواز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ میں اکثریت پنجابیوں کی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -