فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر364
نثار صاحب کے مالی حالات دراصل اس وقت سُدھرنے شروع ہوئے تھے جب وحید مراد نے اداکار کے طور پر کامیابی حاصل کی اور عروج پر پہنچ گئے۔ ان کی فلموں سے بھی خوب منافع ہوا مگر وحید مراد ایک خالص کاروباری ذہنیت کے مالک تھے۔ وہ اپنے کاروبار اور منافع میں اپنے والد کو بھی دخل انداز نہیں ہونے دیتے تھے۔ وہ عروج پر آئے تو کئی فلم ساز جو نثار مراد صاحب کے پرانے دوست تھے۔ شکایت لے کر ان کے پاس گئے اور کہا کہ وحید سے سفارش کردیجئے۔ مگر نثار صاحب بیٹے کے آگے لاچار تھے۔ ویدو (وحید مراد کا پیار کا نام) ان کے لیے حرفِ آخر تھا۔ اس کا ہر لفظ ان کے لیے حکم کا درجہ رکھتا تھا۔ انہوں نے بچپن ہی سے اس کی ناز برداری کی تھی‘ اس کی کسی ضد سے سرتابی نہ کی۔ پھر جب وہ بڑا ہو کر معروف اور کامیاب اداکار اور فلم ساز بھی بن گیا تھا تو وہ اس کے سامنے کیسے زبان کھول سکتے تھے۔ ہم شاید پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ فلمی دنیا میں ہم نے دو باپ ایسے دیکھے جو اپنے بیٹوں پر نثار تھے۔ وہ دن کہیں تو دن‘ اگر رات کہہ دیں تو رات۔ پہلے حکیم احمد شجاع تھے۔ اپنے زمانے کے صاحبِ علم اور بے بہا اہل قلم۔ ان کی قابلیت اور صلاحیت کی ایک دنیا معترف تھی مگر وہ اپنے بیٹے انور کمال پاشا کے مرید تھے۔ پاشا صاحب ان کی آنکھ کا تارہ اور زندگی کا سہارا تھے۔ ان کی ہر فرمائش اور خواہش ان کے نزدیک آسمانی ہدایت تھی۔ افسوس کہ پاشا صاحب نے اپنے عظیم والد کی عزّ ت اور قدر نہ کی حالانکہ وہ نہ صرف ہر طرح قابل احترام تھے بلکہ پاشا صاحب کے پاس جو کچھ بھی تھا ان ہی کا دیا ہوا تھا۔ ذہانت‘ علم‘ صلاحیت‘ تجربہ‘ قلم کاری‘ گفتگو کا ڈھنگ سبھی کچھ انہیں میراث میں ملا تھا مگر ان کا طرزِ عمل والد کے ساتھ بعض اوقات گستاخانہ بھی ہو جاتا تھا جس کے خود ہم بھی شاہد ہیں۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر363 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایسے ہی دوسرے فلمی والد نثار مراد صاحب تھے۔ وحید مراد ان کی اکلوتی اولاد تھے۔ بہت باصلاحیت تھے مگر انہیں بھی تمام دنیاوی بڑائیاں باپ ہی کے طفیل حاصل ہوئی تھیں۔ جب وہ آگے بڑھ گئے تو علم و دانش میں باپ کو بھی کم تر سمجھنے لگے۔ نثار صاحب نے کبھی اس بات کا برا نہیں مانا۔ انہیں تو بیٹے سے عشق تھا‘ عاشق اپنے محبوب کی کسی بات کا کب بُرا مانتا ہے لیکن اس عاشقی کے باعث وحید مرادہرطرح کی پابندیوں اور بندشوں سے آزاد ہوگئے تھے۔ اگر باپ بیٹے کے رشتے کے حوالے سے ان دونوں کے مابین ہم آہنگی کا رشتہ قائم رہتا تو شاید نثار صاحب بیٹے کو بربادی کی راہ پر چلنے سے روک لیتے۔ مگر مشیّت ایزدی میں کسی کا کیا دخل کہ قدرت کو ایسا ہی منظور تھا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ تمام عمر دنیاوی آسائشیں حاصل کرنے والے ان باپ بیٹے نے زندگی کے آخری ایّام ناگفتہ بہ حالت میں گزارے۔ وحید مراد کی پریشانیاں‘ محرومیاں اور مایوسیاں خود ان کی ذہنی اختراع تھیں ورنہ انہیں کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ بس وہ اداکار کی حیثیت سے خود کو نظرانداز کیے جانا برداشت نہ کرسکے اور اپنے آپ کو برباد کر بیٹھے۔
نثار صاحب تمام عمر بہت اچھّی صحت کے مالک رہے۔ بلکہ دیکھنے والے ان پر رشک کرتے تھے لیکن آخری دنوں میں صاحب فراش ہوگئے۔ فالج نے معذور کردیا تھا اور یہ سلسلہ کافی عرصے تک قائم رہا۔ ان کا لاہور میں انتقال ہوا تھا۔ انتقال سے پہلے ہی فلمی دنیا انہیں فراموش کرچکی تھی۔ بہت سے لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ لاہور میں ہیں یا کراچی میں۔ ان کے انتقال کے موقع پر بھی ہم لاہور میں موجود نہیں تھے۔ دو تین روز بعد واپس آئے تو اپنی بیگم کے ہمراہ تعزیت کے لیے گلبرگ میں وحید مراد کی کوٹھی پر گئے۔ کسی زمانے میں زندگی کی حرارتوں سے معموریہ کوٹھی اس وقت نیم تاریکی اور سوگواری کا منظر پیش کررہی تھی۔
ایک نئے چوکیدار نے ہماری شناخت پوچھی اور کافی جرح کے بعد بڑا گیٹ کھول کر لان میں پڑی ہوئی کرسیوں پر بٹھا دیا۔ ہر طرف خاموشی اور اُداسی چھائی ہوئی تھی۔ اس کوٹھی سے متصّل بالکل ایسی ہی دوسری کوٹھی تھی جو وحید مراد نے خرید لی تھی۔ کچھ دیر بعد وحید کی بیگم سلمیٰ اندر سے نکل آئیں۔ ان سے پُرانی یاد اللہ تھی۔ بہت اخلاق سے پیش آئیں مگر انہوں نے گھر کے اندر آنے کو نہ کہا۔ وہ شاید مصروف اور جلدی میں تھیں۔ ہم نے دلی تعزیت پیش کی اور آخری دنوں کا احوال دریافت کیا جس کے جواب میں انہوں نے مختصر جواب دے کر ہمیں فارغ کردیا۔
اس گھر میں ہم بہت سے اچھّے دنوں کے شاہد تھے۔ وحید مراد جن دنوں ڈپریشن کے مریض ہوچکے تھے اور ایکسیڈنٹ کے بعد صحت یاب ہوکر گھر چلے گئے تھے تو اس وقت بھی ہم بعض دوستوں کے کہنے پر انہیں سمجھانے اور اعتماد دلانے کی غرض سے ان کے گھر گئے تھے۔ وہ بے حد کمزور نظر آرہے تھے۔ چہرے کی دلکشی اور کشش نہ جانے کہاں چلی گئی تھی۔ پیشانی پر زخم کا نشان نمایاں تھا مگر قدرے حوصلہ مند نظر آئے۔ فلم سازوں کی شکایت کرتے رہے ’’دوستوں نے بھی اپنی فلموں میں کاسٹ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ یہ لوگ تھوڑا سا بھی لحاظ نہیں کرتے۔‘‘
جی میں تو آئی کہ پوچھیں کہ بھائی آپ نے کب کسی کا لحاظ کیا تھا؟ مگر چُپ رہے۔ کاروباری دنیا میں ہر طلب کا تعلق مانگ سے ہوتا ہے۔ کسی چیز کی مانگ ہو تو لوگ اس کے حصول کی خاطر زمین آسمان ایک کردیتے ہیں۔ جس طرح کی وحید مراد کی مانگ تھی تو ایک دنیا ان کے پیچھے پیچھے سرگرداں تھی مگر جب مانگ نہ رہی تو فلم سازوں نے بھی کاسٹ کرنا چھوڑ دیا اور ان ستاروں کے پیچھے لگ گئے جن کی مانگ تھی۔
بزنس کا یہ بنیادی اصول وحید مراد جیسے ذہین اور قابل شخص کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا اور یہی ان کے لیے تمام خرابیوں کا سبب تھا۔
ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ فلم ’’عندلیب‘‘ کی فلم بندی کے زمانے میں فلم ساز راشد مختار صاحب کو وحید سے کچھ شکایت پیدا ہوئی۔ ان کے والد سیّد مختار احمد اور وحید کے والد نثار مراد صاحب پرانے دوست تھے مگر ان دونوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی تھی کہ آپ نوجوان لوگ اپنے مسائل خود ہی طے کرلیں۔
راشد صاحب نے وحید مراد سے بات کی تو وحید کا جواب تھا ’’راشد صاحب! یہ کاروبار ہے۔ اس میں تعلقات کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ کاروبار تو ’’کٹ تھروٹ‘‘ کا بزنس ہے۔ آپ کا بس چلے گا تو آپ میری گردن کاٹ لیں گے۔ میرا بس چلا تو میں آپ کی گردن کاٹنے سے نہیں ہچکچاؤں گا۔‘‘
راشد مختار صاحب نے یہ پیغام لفظ بہ لفظ ہمیں سنا دیا تھا اور اس کے بعد پھر کبھی وحید مراد کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر365 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں