ایک بے حد لمبا سانپ جومیری ران کے برابر موٹا تھا۔۔درخت کی ایک اونچی شاخ میں دم لپیٹ کر سر کے بل لٹکا ہوا اس طرح جھول رہا تھا کہ اس کا منہ بار بار ہمارے سروں کے قریب آتا اور جھونک میں پھر پیچھے ہٹ جاتا ۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا اور ٹارچ کی تیزروشنی میں اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں ،جن میں خونخوار ی اور وحشت صاف نمایاں تھی۔غالباًوہ اس طرح لٹک کر ہم میں سے کسی ایک کی گردن پکڑنا چاہتا تھا۔اب وہ زور لگا کر ہماری طرف بڑھتا تو قیاس یہ ہے کہ کچھ کسر رہ جاتی ہوگی اور گردن منہ میں نہ آتی ہوگی۔پھر اس جھونک میں جب پیچھے ہٹتا ہوگا تو اس کے تیزی سے گزرنے کی وجہ سے پتوں میں کھڑکھڑاہٹ ہوتی ہوگی۔
نوشاہ کے ہاتھ سے گھبراہٹ کی وجہ سے ٹارچ چھوٹ کر مچان پر گری۔لیکن چونکہ سوئچ آن تھا،اس لیے روشنی رہی اور نوشاہ اپنی بندوق مچان پر ہی چھوڑ کر بغیر کچھ کہے سنے دھم سے نیچے کود گئے۔ان کے ملازم نے بھی ان کی تقلید کی ۔اب یہ اتفاق کی بات ہے کہ وہ موذی شیر،جس کی تلاش میں ہم مچان پر بیٹھے تھے۔عین اس جگہ مچان کے نیچے نجانے کب سے بیٹھا ہوا تھا،جہاں یہ دونوں کودے اور سیدھے شیر کے اوپرجا کر گرے۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 36 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
شیر پر جو ایکا ایکی دو آسمانی ڈھیلے گرے تو وہ بد حواس ہوگیا۔اس نے بلی کی طرح ایک دفعہ ’’خوں ‘‘ سا کیا اور پھر ایک دم بھاگ کھڑا ہوا۔اس طرح بیٹھے ہوئے شیر پر کبھی کوئی نہ کودا ہوگا۔یہ نہ صرف نوشاہ کے لیے ایک غیر معمولی تجربہ تھا،بلکہ شیر کے لیے بھی ایک عجیب حادثے سے کم نہ تھا۔
میں مچان پر تنہا تھا اور سانپ حملہ کرنے کے قریب ۔ٹارچ کی روشنی اب بھی فضا کو جگمگا رہی تھی۔میں نے رائفل رکھ کر نوشاہ کی بندوق اٹھالی۔نال سانپ کی طرف اٹھی تو اس نے لپک کر اس پر منہ مارا اور عین اس وقت جبکہ تقریباًچار انچ نال سانپ کے منہ میں تھی،میں نے یکے بعد دیگرے دونوں ٹریگر دبا دیے۔۔۔بندوق کی دونوں نالوں میں ایل جی لوڈ کیے ہوئے تھے۔ان کے صدمے سے سانپ کے چیتھڑے اڑ گئے۔
جس جگہ درخت کی شاخ پر سانپ نے اپنی دم لپیٹ رکھی تھی وہ فوراً کھلی اور قبل اس کے کہ میں ہٹنے کی کوشش کرتا، سانپ کا ایک حصہ مجھ پر گرا اور پھر مچان سے ٹکراتا، شاخوں سے الجھتا، نیچے جاکر سیدھا نوشاہ کی پنڈلی پر ڈھیر ہوا۔۔۔ نوشاہ نے ایک زبردست چیخ ماری۔ نوشاہ تو اسی جگہ بے ہوش ہوگئے لیکن ملازم پاگلوں کی طرح ایک طرف کو بھاگا۔
میں نے ٹارچ اٹھا کر نیچے روشنی ڈالی۔ نوشاہ بے سدھ پڑے تھے۔ اس کے بعد اس آدمی کو میں نے ڈانٹا اور روکنے کی کوشش کی، لیکن وہ تو جیسے پاگل ہوگیا تھا۔۔۔ چیختا اور ہائے وائے کرتا اندھیرے جنگل میں گھسا چلا گیا۔ سانپ نوشاہ کے قریب پڑا تڑپ رہا تھا۔ مجھے یہ یقین تھا کہ اب نہ اس کے منہ میں کاٹنے کی سکت ہے، نہ جسم میں لپیٹنے کی طاقت۔۔۔ اس کے باوجود نوشاہ کی دیکھ بھال کے لئے مجھے نیچے اترنے کی فوری ضرورت تھی۔
میں نے جب بندوق رسی میں باندھ کر نیچے لٹکائی اور جب وہ زمین تک پہنچ گئی تو رسی چھوڑ دی ۔اس کے بعد رسّوں کی بنی ہوئی سیڑھی لٹکا کر میں رائفل پشت پر سنبھالے نیچے اترا۔ٹارچ کی روشنی میں پہلے تو سانپ کو کھینچ کر نوشاہ سے الگ کیا۔پھر نوشاہ کا جائزہ لیا۔وہ اب بھی بے ہوش تھے۔ گھڑی پر نظر ڈالی تو سوا دو بجے کاعمل تھا۔گویا صبح ہونے میں کافی دیر تھی۔
میں نے نوشاہ کے ملازم کو زور زور سے پکارا۔لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔اب مجھے پریشانی شروع ہوئی۔کہیں ایسا نہ ہو کہ میری آواز سن کر شیر دوبارہ ادھر آجائے اور آسان چارہ سمجھ کر حملہ کر بیٹھے ۔اندھیرا ہونے کی وجہ سے فی الفور شیر نظر بھی نہیں آسکتا تھا کہ فائر ہوجائے او ر اس بوڑھے شیر کو خواہ مخواہ آدم خور نہ بنادے۔۔۔ادھر نوشاہ کی فکر تھی۔۔۔ادھر مشکل یہ کہ میں پانی کی کینٹین اوپر مچان پر ہی چھوڑ آیا تھا۔
میں ان تمام مشکلات کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک دور کہیں سے اسی بھاگے ہوئے ملازم کی خوف ناک اور وحشت میں ڈوبی ہوئی چیخ سنائی دی۔۔۔’’بچاؤ!بچاؤ!۔۔۔باگھ ۔۔۔باگھ‘‘۔۔۔ساتھ ہی شیر کے حملہ کرنے کی دہاڑ اور غرانے کی آواز آئی۔
قدرتاًبلکہ عادتاًچیخ کی آواز سن کر میں کھڑا ہوا اور ایک قدم آواز کی طرف بڑھا۔۔۔لیکن بے سود۔اتنی اندھیری رات میں یہ امید کرنا کہ میں شیر کو تلاش کرکے مار لوں گا،حماقت ہی ہوتی۔۔۔رائفل نیچے چھوڑ کر میں پھر سیڑھی کے ذریعے مچان پر چڑھا۔اور پانی کی بوتل لے کر نیچے آیا۔
نوشاہ اب تک بے ہوش تھے۔ٹارچ روشن کرکے ایک پتھر پر رکھی اور پھر ان کے منہ پر پانی کا ایک چھینٹا مارا۔۔۔مجھے زیادہ فکر یہ تھی کہ بیس فٹ اونچی مچان پر سے اس طرح اندھیرے میں پھاند پڑنے کی وجہ سے نوشاہ کی ٹانگوں کی ہڈیاں نہ ٹوٹ گئی ہوں۔
چند منٹ بعد ہی نوشاہ کو ہوش آگیا۔۔۔
’’کیا حال ہے۔۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’سانپ۔۔۔۔؟سانپ کہاں گیا۔۔۔۔؟ اژدھا ۔۔۔!‘‘ان کی آواز کانپ رہی تھی ۔
’’وہ مرگیا۔۔۔۔میں نے اس کے پر خچے اڑادیے ۔۔۔۔!‘‘
’’اُف ۔۔۔۔!خُدا کی پناہ ۔۔۔۔! میری ٹانگ میں بڑا درد ہے ۔۔۔۔شاید پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔۔۔‘‘
’’ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔۔۔۔۔؟‘‘
’’اُف ۔۔۔۔! اب واپس کیسے جاؤں گا۔۔۔۔؟‘‘
’’صبح واپس جائیں گے۔۔۔۔‘‘
’’ ناتھوں کہاں ہے۔۔۔۔۔؟‘‘
’’غالباً اس کو شیر نے مار دیا۔۔۔۔!‘‘
’’شیر نے۔۔۔۔؟‘‘
میں نے اس کو ساری تفصیل سنا دی۔
’’اُف ۔۔۔! خدایا۔۔۔۔! کیا حماقت ہوگئی مجھ سے۔۔۔۔!‘‘
’’ کیسی حماقت ۔۔۔۔؟‘‘
’’ اگر میں اس طرح بغیر بتائے آپ کو نہ لاتا تو شاید ایسا نہ ہوتا۔۔۔۔‘‘
’’ وہ تو ہونے والی بات تھی ۔۔۔‘‘ میں نے کہا ’’اس میں آپ کا کیا قصور ۔۔۔۔!‘‘
اس کے بعد میں نے نوشاہ کو فرسٹ ایڈ دی اور رسیوں سے ان کے پیر کی ہڈی باندھ دی۔(جاری ہے )