اقوام متحدہ کے دروازے پر دستک

اقوام متحدہ کے دروازے پر دستک
اقوام متحدہ کے دروازے پر دستک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ابھی پرنس محمد بن سلمان پاکستان میں ہی تھے کہ انڈیا نے پلواما حملے کا شور مچایا ہوا تھا۔ مغربی میڈیا تو پہلے ہی پاکستان کے خلاف ادھار کھائے بیٹھا ہے، عاقل آوازیں بہت کم ہیں اور جو ہیں ان کی سرکار دربار میں کوئی شنوائی نہیں۔

جن دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی رسائی ارباب اقتدار تک ہے وہ اپنے ملک کے سٹرٹیجک مفادات کے برعکس زبان نہیں کھولتے اور نہ قلم و قرطاس کو ’’آلودہ‘‘ کرتے ہیں۔
کل کے کالم میں، میں نے بروس ریڈل کا ذکر کیا تھا۔ وہ یکے بعد دیگرے امریکہ کے چارصدور کے ساتھ کام کر چکا ہے اور ابھی بروکنگ انسٹی ٹیوٹ میں اس نے اپنا ایک الگ تھنک ٹینک قائم کر رکھا ہے۔ اس کے تجزیئے اور تبصرے بڑے جاندار اور حقائق پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس نے پلواما حملے پر آئی ایس آئی کو ملوث کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ اس کے بیان سے عیاں ہے۔

اس نے استدلال کیا ہے کہ اتنا بڑا حادثہ آئی ایس آئی کی سپورٹ کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اس نے اپنی کئی تصانیف میں جابجا ISI کئی ’فنکاری‘ کی تحسین کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ دنیا میں اس وقت پانچ چھ انٹیلی جنس ایجنسیاں ایسی ہیں جن کے پروفیشنل قدوقامت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے مطابق امریکہ کی CIA، پاکستان کی ISI، روس کی KGB، اسرائیل کی Mossad، برطانیہ کی MI-6 اور انڈیا کی Raw ایسی انٹیلی جنس تنظیمیں ہیں جو مرورِ ایام کے ساتھ اب پروفیشنل بلوغت کی حد کراس کر چکی ہیں۔ بروس ریڈل کے مطابق ان ایجنسیوں میں ISI پہلے نمبر پر ہے اور Raw آخری نمبر پر شمار ہوتی ہے۔

جب اس کا یہ تجزیہ پہلی بار کوئی 4، 5 برس پہلے میری نظر سے گزرا تھا تو مجھے از حد خوشی ہوئی تھی کہ امریکہ میں CIA میں 30 برس تک اعلیٰ مناصب پر کام کرنے والا شخص، پاکستان کی جاسوس ایجنسی کی تعریف کر رہا ہے تو اس سے پاکستانیوں کا سر فخر سے ہو جانا چاہیے لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ بروس ریڈل کی یہ تحسین و آفرین بھی اسی طرح کی ہے جس طرح کی تحسین کو صائب تبزیزی نے ’’تحسینِ ناشناس‘‘ کہا تھا۔ اس کا بہت مشہور اور گھِسا پٹا شعر ہے لیکن اس کو بارِدگر کوٹ کرنے میں کیا ہرج ہے؟
صائب دو چیزمی شکند، قدرِ شعر را
تحسینِ ناشناس و سکوتِ سخن شناس
[اے صائب! کسی شعر کے مرتبے کو دو چیزیں کھائی میں گرا دیتی ہیں۔۔۔ ایک تو ایسے سامع کی واہ واہ جس کو شعری محاسن کا کچھ پتہ نہ ہو اور دوسری اس شخص کی چپ جو سخن شناس ہو۔]
بروس ریڈل نے پلواما کے حملے کو جس عجلت سے تجزیاتی ترازو میں تول کر اور انڈیا کے موقف کو درست تسلیم کرکے آئی ایس آئی کو اس حملے میں سپورٹ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے وہ گویا ’’تحسینِ ناشناس‘‘ ہے۔ انڈیا کے اندر سے بہت سی آوازیں اٹھ کر بھارتی واویلے کا بطلان کر رہی ہیں۔۔۔ بروس ریڈل کا ذکر میں نے اس لئے کیا ہے کہ وہ کوریا کی جنگ (1950-53ء) ، انڈو چائنا وار (1962ء)، کیوبا کا بحران (1962ء) اور پاک بھارت جنگیں (1965ء اور 1971ء) کی کوریج کرتے ہوئے اس دور کے امریکی صدور کو CIA کی جو Input دیتا رہا وہ تقریباً 90 فیصد تک درست ثابت ہوتی رہی۔ وہ اگرچہ اب ٹرمپ کے مشیروں میں شامل نہیں لیکن اس کا مقام و احترام امریکہ کی انٹیلی جنس کمیونٹی میں اب بھی قائم و دائم ہے۔
انڈیا کے لچھن ایسے ہیں کہ لگتا یہ ہے وہ آنے والے دوچار ماہ میں پاکستان کے خلاف کسی نہ کسی سکیل کی جارحیت کا ارادہ کر رہا ہے اور امریکی مبصروں اور تجزیہ کاروں کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس نے اپنے ہائی کمشنر اجے بساریہ کو پلواما کے فوراً بعد پاکستان سے واپس بلا لیا تھا اور اب پاکستان نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور دہلی میں اپنے ہائی کمشنر سہیل محمود کو واپس بلا لیا ہے۔

سفیروں کی یہ واپسی جنگی شروعات کا ایک حصہ سمجھی جاتی ہے۔ بروس ریڈل جیسے اور بھی کئی مغربی تھنک ٹینکوں کے مبصر ہوں گے جو انڈیا کے ہم نوا ہوں گے۔ مغربی یورپ (برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ) کے مبصر بھی امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ ہم نے گزشتہ پاک بھارت جنگوں میں دیکھ لیا ہے کہ ہاتھیوں کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہوتا ہے۔
ہماری وزارتِ خارجہ کا اپنے ہائی کمشنر کو واپس بلا لینا کوئی ’’نیک شگون‘‘ نہیں لگتا۔ اور ابھی کل ہی وزیر خارجہ شاہ محمود نے جو یہ بیان دیا ہے کہ انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ایک خط لکھ کر اس ساری صورت سے مطلع کر دیا ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان مخاصمت سے آگے نکل کر کھلی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ ہمارے آرمی چیف پہلے ہی ہائی برڈ وار سے پاکستانی عوام کو مطلع کر چکے ہیں۔

وزیرخارجہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے کچھ ماہ پہلے انڈیا کے مذموم عزائم سے عالمی طاقتوں کو مطلع کر دیا تھا اور اس بات کا خدشہ ظاہر کر دیا تھا کہ انڈیا، اپریل / مئی 2019ء کے الیکشنوں سے پہلے کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کر سکتا ہے جو بی جے پی کی کم ہوتی ہوئی مقبولیت کو بھارتی جنتا کی نگاہوں میں پھر سے زیادہ کر دے۔
میں ایک اور پہلو کی طرف بھی قارئین کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے انڈیا سے اپنے ہائی کمشنر کو واپس بلانے کے ساتھ ہی سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کو یہ خط لکھ دینا کہ انڈیا کے عزائم پاکستان کے خلاف ظاہر و باہر ہوتے جا رہے ہیں، ایسے اشارے ہیں جن سے محض وزارت خارجہ کی فعالیت کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ اس میں وزارتِ دفاع کی Input بھی شامل ہونے کے غالب امکانات نظر آ رہے ہیں۔ حکومت کہہ چکی ہے کہ فوج اور حکومت آج جس سکیل پر ایک ہی صفحے پر ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عین ممکن ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھنے کے مشورے میں فوج / وزارتِ دفاع کی Input بھی شامل ہو!۔۔۔ اگر ایسا ہے تو یہ مسئلہ اور زیادہ تشویش انگیز ہے۔
آپ کو یاد ہو گا کہ 1971ء کے وسطی مہینوں میں جب اس وقت کی انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی نے اپنے آرمی چیف کو بلا کر مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے کے احکام دیئے تھے تو جنرل مانک شا نے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ میرا استعفیٰ منظور کر لیا جائے۔ میں اس وقت مشرقی پاکستان پر حملہ نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر چھ آٹھ ماہ انتظار کر لیا جائے، موسم برسات گزرنے دیا جائے اور شمال میں NEFA اور مغرب میں لداخ کی طرف سے کوہستانی دروں کو برف باری کی وجہ سے بند ہونے دیا جائے تو میں ڈھاکہ پر چڑھائی کرنے کے لئے تیار ہوں گا۔ اندرا گاندھی نے اپنے آرمی چیف کی بات مان لی تھی۔

لیکن چین سے نہیں بیٹھی تھیں۔ انہوں نے امریکہ اور یورپی ممالک کے دورے کئے تھے اور مشرقی پاکستان کے سوال پر اپنے موقف کے حق میں دلائل دے کر مغربی رہنماؤں کے سامنے پاکستان کا کیس کمزور کر دیا تھا۔26نومبر 1971ء کو جب موسم برسات گزر چکا تھا اور انڈیا کے شمالی درے بھی بند ہو چکے تھے تو مانک شا نے انڈین آرمی کو مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے کے احکامات دے دیئے تھے۔

یہی وہ ایام بھی تھے جب سارا مغربی یورپ، انڈیا کی پشت پر کھڑا ہو گیا تھا۔ رچرڈ نکسن کا ساتواں بحری بیڑا خلیج بنگال تک نہ پہنچ سکا تھا اور پاکستان دونیم ہو گیا تھا۔
مجھے خبر نہیں لیکن میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ سفیروں کی واپسی اور پاکستان کی طرف سے یو این او کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھنا اس امر کی پیشگوئی کرتا ہے کہ انڈیا، کسی نہ کسی طرح کی اور کسی نہ کسی پیمانے کی جارحانہ حرکت کی تیاریاں کر رہا ہے۔

ہم دیکھ رہے کہ پاکستان الحمدللہ بدترین اقتصادی بحران سے باہر نکل آیا ہے، بیرونی سرمایہ کاری کے شواہد ہمارے سامنے ہیں اور ملکی معیشت اڑان بھرنے کے قابل ہو رہی ہے۔ لہٰذا انڈیا اور اس کے حمائت کاروں کے لئے یہ سنہری موقع ہے کہ ایسی کوئی نہ کوئی ’حرکت‘ کر دی جائے کہ پاکستان کی یہ اٹھان، ابھرنے سے پہلے ہی دب کے بیٹھ جائے!
آنے والے چند دن/ ہفتے اہم ترین ہو سکتے ہیں۔ اپنے 44فوجیوں کی ہلاکت، انڈیا کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہیں ہو سکتی۔ اس کو معلوم ہو رہا ہے کہ کشمیری نوجوانوں میں اب جذبہ ء حریت جاگ گیا ہے۔ پلواما جیسے حملے اور بھی ہو سکتے ہیں، جیشِ محمد کو ملوث کرنا پرلے درجے کی بے خبری کا سراغ دے رہا ہے۔
1965ء کی جنگ میں آپریشن جبرالٹر کی تفصیلات آپ کو یاد ہوں گی۔ یکم اگست 1965ء کو پاکستان نے ایس ایس جی کمانڈو کے ہمراہ AKRF (آزادکشمیر ریگولر فورسز) کے آفیسرز اور جوان بھی جنگ بندی لائن کے پار داخل کر دیئے تھے۔ خیال تھا کہ مقبوضہ جموں اور کشمیر کے مسلمانوں کو بھارتی تسلط سے آزادی کی خوشخبری دی جائے گی تو وہ بخوشی اٹھ کھڑے ہوں گے اور پاکستانی مجاہدین کا ساتھ دیں گے۔

لیکن ہوا یہ تھا کہ تب کشمیری نوجوانوں کا جذبہ ء حریت چونکہ ہنوز خوابیدہ تھا اس لئے یہ مجاہد کمانڈوز جب رات کو مسجدوں میں جا کر چھپ گئے اور مولوی صاحبان اور لوکل نمازیوں سے آزادی کے نام پر امداد چاہی تو ان مسجدوں کے امام خود بھاگے بھاگے نزدیک ترین انڈین یونٹوں کے ہاں جا پہنچے اور ان کو مطلع کیا کہ پاکستانی ’’گھس بیٹھیئے‘‘ فلاں فلاں مسجدوں میں رات بسر کرنے آتے ہیں۔ چنانچہ وہی کچھ ہوا جو اقبال نے اس شعر میں کہا تھا:
یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا
1965ء کی جنگ کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ برہان وانی کے ہم نسل اب جموں، سری نگر ہائی وے پر حملہ کرکے درجنوں بھارتیوں کو موت کی نیند سلا چکے ہیں اور انڈیا کو معلوم ہو گیا ہے کہ یہ حملہ پاکستان کی اعانت سے نہیں ہوا بلکہ یہ مقامی تحریکِ مزاحمت ہے۔۔۔اس وقت دونوں ممالک ایک دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ایک بار کولڈ سٹارٹ یا سرجیکل سٹرائیک کا آغاز ہو گیا تو انجام کہاں ہو گا اس کے بارے میں زیادہ سر کھجانے کی ضرورت نہیں۔ انڈیا کا پلڑا ضرور بھاری ہے لیکن کاروبارِ جنگ کے گلوبل کھلاڑی شائد وہ فیصلہ نہ کریں جو وہ پاکستان کے نیوکلیرائز ہونے سے پہلے کیا کرتے تھے!

مزید :

رائے -کالم -