اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 96

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 96
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 96

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جب حضرت قطب الدین اولیاء ابو اسحق ابراہیم بن شہریارؒ نے سفر حج کا قصدفرمایا تو مشائخین بصرہ نے آپ کو دعوت دی جس میں انواع و اقسام کے کھانے تھے لیکن آپ نے گوشت کو ہاتھ نہیں لگایا۔ جس کی وجہ سے مشائخین کو خیال ہوا کہ شاید آپ گوشت نہیں کھاتے ہیں لیکن آپ نے ان کی نیت کا اندازہ لگا کر فرمایا کہ شاید تم لوگ یہ سوچ رہے ہو کہ مَیں گوشت نہیں کھاتا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے مگر آج سے تمہارے خیال کو قائم رکھنے کے لیے گوشت نہیں کھاؤں گا۔‘‘ اور تاحیات آپ اپنے اس عہد پر قائم رہے۔

***

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 95 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک رئیس شہر حضرت شیخ عزیز اللہ متوکل کے گھر میں آیا۔ دیکھا تو مکان میں اندھیرا تھا اور کچھ موجود نہ تھا کہ تیل خرید کر چراغ روشن کرتے۔ اس نے شیخ کے صاحبزادے سے کہا ’’میں تیل کے کُپے بھیجتا ہوں، ان کو خرچ میں لانا۔ اگر ختم ہوجائیں تو اطلاع دینا تاکہ اور بھیج دئیے جائیں۔‘‘
دوسرے دن جو شیخؒ نے دیکھا تو گھر کے ارد گرد بہت سے چراغ روشن ہیں۔ فرمایا یہ سب چراغ کہاں سے آئے ہیں؟
حقیقت حال عرض کی گئی تو خوش نہ ہوئے اور اس رئیس کو منع کردیا کہ آئندہ تیل نہ بھیجے اور جو موجود تھا، سب فقراء اور مساکین میں تقسیم کردیا۔
***
کہتے ہیں ایک نوجوان حج کو چلا لیکن راستے میں کسی مجبوری نے اسے روک لیا۔ اسے حج کی سعادت سے محروم ہوجانے کا بڑا قلق تھا۔ اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ جناب سفیان ثوریؒ اس کے پاس کھڑے تھے۔ آپ نے اس نوجوان سے فرمایا
’’میں نے چار حج کیے ہیں، جاؤ ان کا ثواب تجھے بخشا لیکن ایک آہ جوتونے بھری ہے وہ مجھے دے دے۔‘‘
***
ایک بار شیخ ابو الفتح ملتانیؒ زینے سے اتررہے تھے کہ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشتؒ دوڑ کرراستے میں لیٹ گئے تاکہ ان کا مبارک قدم آپ کے سینے پر پڑجائے مگر حضرت شیخ ابوالفتحؒ آگے بڑھنے کے بجائے ٹھہر گئے اور فرمایا
’’سید! تمہیں اس کی ضرورت نہیں، تم اپنے مرتبے کو پہنچ چکے ہو۔ اٹھو کہ تم مخدوم جہانیاں ہو۔‘‘
یہ کہہ کر آپ کو اپنے سینے سے لگالیا اور بے شمار نعمتیں عطا کیں۔ اس روز سے آپ مخدوم جہانیاں کے لقب سے مشہور ہوئے۔
***
حضرت محتح موصلیؒ فرماتے ہیں ’’ایک مرتبہ سخت موسم گرما میں سفر حج کا اتفاق ہوا، راستہ میں ایک لڑکے کو بے سروساماں پیدل چلتے ہوئے دیکھا۔
مَیں نے اس لڑکے سے مخطاب ہوتے ہوئے پوچھا ’’اے لڑکے کہاں جارہے ہو؟‘‘ 
وہ بولا ’’میں نے سنا ہے کہ میرے مالک رحیم و کریم کا ایک گھر زمین پر ہے۔ مَیں اسی کی زیادت کو جارہا ہوں۔‘‘
مَیں نے پوچھا ’’کچھ زاد راہ بھی ہے۔‘‘
کہنے لگا ’’کیا رب کریم کے در دولت پر جانے والے غلا م زاد راہ بھی اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ کیا خداوند تعالیٰ کی عنایت کافی نہیں؟‘‘
مَیں نے کہا یہ تو درس تہے۔ مگر تم آہستہ چل رہے ہو اور سفر بہت دور دراز کا ہے۔ تمہارا حج کے موقع پر پہنچنا بہت مشکل ہے۔‘‘
میری اس بات پر اس نے کہا ’’چلنا میر اکام ہے اور پہنچانا خدا کاما ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ لڑکا میری نظروں کے سامنے سے اوجھل ہوگیا۔
جب مَیں فضل خدا سے سب مناسک اور لوازم حج سے فارغ ہوکر بمقام قرانی صروف قربانی تھا۔ ناگاہ و اہل نظر (لڑکا) دکھائی دیا۔ وہ زار و قطار روتا ہوا اللہ تعالیٰ کے روبرو عرض کررہا تھا۔‘‘ اے مالک رحم والے رب کریم سب حاجی تیری قربانی کرکے تیری دولت قرب حاصل کرتے ہیں اور مَیں کمال حسرت سے منہ تکتا ہوں اور زندہ درگور ہوں۔ مَیں طاقت قربانی کی نہیں رکھتا۔ چنانچہ تجھ پر بخوبی روشن ہے۔ ہاں اگر جاں نثاری شرعاً منع ہو تو جان قربان کروں اور قربانی والوں میں شامل ہوجاؤں۔ پھر اس نے انگلی گردن پر مثل چھری رکھی اور اللہ کو پیارا ہوگیا۔(جاری ہے)

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 97 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں