فواد چوہدری نے نعیم الحق پر ’حملہ‘ کردیا
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر اعظم عمران خان کے مشیر خصوصی نعیم الحق کے مابین رسہ کشی سوشل میڈیا تک پھیل گئی ۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور نعیم الحق نے سرکاری ٹی وی کے حوالے سے ایک ٹویٹ کیا۔ انہوں نے لکھا ” وزیر اعظم کو پی ٹی وی کے بورڈ اور اس کی انتظامیہ پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ اسے بی بی سی کی طرح آزاد ادارہ بنائیں گے، حکومت اس سلسلے میں ہر ممکن قدم اٹھائے گی‘۔
نعیم الحق کے منہ سے پی ٹی وی کی بات کو وزیر اطلاعات نے مبینہ طور پر اپنے اختیارات میں مداخلت سمجھا اور اپنے جذبات کے اظہار کیلئے غالب کے اس شعر کا سہارا لیا۔
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
فواد چوہدری کی جانب سے یہ شعر لکھنا اس بات کا پتا دیتا ہے کہ کہیں نہ کہیں اختیارات کی کھینچا تانی ضرور جاری ہے کیونکہ اگر باہمی چپقلش نہ ہوتی تو اس شعر کا سہارا نہ لیا جاتا جو غالب نے اپنے مخالف شاعر کیلئے کہا تھا۔
اس شعر کی تخلیق کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد ابراہیم ذوق اور غالب میں معاصرانہ چشمک و چپقلش تھی۔اسی بناءپر غالب کو سالانہ شاہی مشاعرے میں مدعو نہیں کیا جاتا تھا۔ایک دفعہ ذوق کی سواری غالب کے محلے سے گزری تو غالب نے پھبتی کسی کہ ۔۔۔
بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
غالب نے دوسرا مصرعہ جان بوجھ کے چھوڑ دیا،کچھ ہی دنوں بعد شاہی مشاعرہ تھا۔اب کی بار غالب کو اس مشاعرے میں بلایا گیا اور شاہ کے سامنے وہی مصرعہ پڑھنے کی فرمائش کی گئی ۔ خیال تھا کہ مصرعہ استاد ذوق کے بارے میں ہے اور اپنے استاد کی ہجو سن کر بہادر شاہ ظفر ضرور غالب پہ خفا ہوں گے۔غالب نے بعد از اصرار غزل سنانے کی حامی بھری تو شعر کچھ یوں کہا اور مشاعرہ لوٹ لیا۔۔۔
بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
اس کے بعد غالب ہر شاہی مشاعرے کے لازمی شرکا میں شامل ہو گئے۔