عمران خان کا متبادل
ہمارے ہاں سیاسی استحکام تو ایک خواب ہی لگتا ہے، لیکن آج کل کچھ زیادہ ہلچل ہے، کیونکہ پارلیمنٹ میں حکومت کو بہت کم نشستوں سے اکثریت حاصل ہے، لہٰذا سیاسی استحکام ایک طرح سے اتحادیوں کے پاس رہن ہے اور سیاسی اتحادی بیک وقت حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں، لہٰذا سیاسی تبصروں اور قیاس آرائیوں کا زور ہے۔ ہر بحث میں عموماً کوئی نہ کوئی یہ سوال ضرور اُٹھا دیتا ہے کہ حکومت کتنا عرصہ چلے گی؟ اِس قسم کی غیریقینی صورتِ حال کسی بھی حکومت،بلکہ ملک کے لئے مفید نہیں،لیکن اس کے سیاسی حل کے لئے وزیراعظم تیار نہیں۔ ہر طرف سے یہی کہا جا رہا ہے کہ حکومت پہل کرے اور محاذآرائی ختم کرکے سیاسی استحکام کی صورت پیدا کرے، کیونکہ یہ کسی پارٹی کی نہیں، بلکہ سیاسی نظام کی مجبوری ہے…… پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر آزادکشمیر کی اسمبلی کے خصوصی اجلاس(جس میں وزیراعظم عمران خان موجود تھے) میں آزادکشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے بڑی اچھی تقریر کی،اور باتوں کے علاوہ انہوں نے عمران خان کو یہی مشورہ دیا کہ وہ سیاسی محاذ آرائی کا تاثر ختم کریں
اور سب کو ساتھ لے کر چلیں، کیونکہ یہ کشمیرکاز کے لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستانی قوم ایک پیج پر ہو،پھر انہوں نے اپنے مؤقف کے حق میں فیض احمد فیض کی غزل سنائی جس پر عمران خان مسکراتے رہے، لیکن اپنی تقریر میں انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ انہیں شعروشاعری سے شغف نہیں، تاہم انہوں نے حسب حال ایک شعر ضرور سنایا، جس کا مطلب تھا کہ کوئی مجھے اُن لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کا مشورہ نہ دے، جنہوں نے ملک کو لُوٹا ہے۔ اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر عمران خان نے اپنے لہجے اور الفاظ میں کافی تبدیلی کر لی ہے، تاہم تبدیلیء قلب شاید اُن کے لئے مشکل ہو گی اور اُن کی سیاسی مشکلات میں کمی بھی مشکل ہو گی……لیکن سوال عمران خان کی ذات کا نہیں، سوال قوم اور ملک کا ہے۔ کیا ہمارا کاروبار حکومت اِسی طرح چلتا رہے گا اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر ملک بہت پیچھے چلا جائے گا۔ ہم حکومتوں کی تبدیلیوں اور باہمی جھگڑوں میں پہلے ہی بہت وقت ضائع کر چکے ہیں۔ کیا ہمارے پاس مزید ضائع کرنے کے لئے وقت ہے؟
اس پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ عمران خان کے طاقتور سرپرستوں نے ہاتھ اُٹھا لیا ہے، کیونکہ وہ ملکی حالات سے مایوس ہونے لگے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسمبلیوں میں اتنی کم اکثریت کے ساتھ کوئی حکومت پانچ سال پورے نہیں کر سکتی، کیونکہ یہ یورپ نہیں،جہاں ایک ووٹ کی اکثریت سے بھی حکومت بخوبی چلتی رہتی ہے۔ اب اس بات پر تو تقریباً تمام دانشوروں اور تبصرہ نگاروں کا اتفاق ہے کہ ”یہ کمپنی چلتی نظر نہیں آتی“ ……عمران خان اپنے وعدے پورے نہیں کر سکے اور شاید آئندہ بھی اس پوزیشن میں نہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری اور گورننس کے زوال سے عام آدمی نہیں،بلکہ مڈل کلاس بھی بہت پریشان ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا ہونا چاہئے؟ آئیڈیل تو یہی ہے کہ حکومت پانچ سال پورے کرے۔ اگر کسی پارٹی نے پانچ سال میں ملک کو آگے نہیں بڑھایا تو انتخابات میں اُسے فارغ کر دیا جائے گا اورسامنے کی بات ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے رو دھو کر پانچ سال پورے کئے،رشوت کا بازار گرم رکھا اور ڈلیور نہیں کر سکی تو عوام نے اُسے انتخابات میں مسترد کر دیا۔ جمہوریت میں یہی طریقہ ہے، لیکن ہم بے صبرے ہو جاتے ہیں۔ مارشل لاء کو ہٹانے میں تقریباً دس سال لگ جاتے ہیں اور سول حکومتوں کو ہم پانچ سال بھی پورے نہیں کرنے دیتے، پھر بھی بہت سے تجزیہ نگار ماضی کی تمام خرابیوں کا ذمہ دار پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کو قرار دیتے ہیں، فوجی ادوار کا ذکر وہ گول کر جاتے ہیں۔موجودہ صورت حال میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے، وزیراعظم عمران خان ہی رہیں گے، کیونکہ اُن کا کوئی متبادل دستیاب نہیں۔
وفاقی وزیر فواد چودھری بھی یہی دلیل دے رہے تھے کہ اگرچہ پنجاب کے حالات خراب ہیں اور اُس کا ملبہ وفاقی حکومت پر پڑے گا، تاہم حکومت کو کوئی خطرہ نہیں،کیونکہ عمران خان کا متبادل موجود نہیں۔ دراصل ہم کسی نہ کسی ہیرو کی تلاش میں رہتے ہیں کہ وہ غیب سے نازل ہو گا اور ہمارے مسائل حل کر دے گا۔ کوئی کہتا ہے خونی انقلاب کی ضرورت ہے، سروں کی فصل کاٹناپڑے گی، پھر ہمارے مسئلے حل ہوں گے…… یہ ایک جذباتی اپروچ ہے، جس کا عملی زندگی میں اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ سب مانتے ہیں کہ ہماری پوری سوسائٹی اخلاقی لحاظ سے بہت پیچھے چلی گئی ہے…… تو پھر ”چوروں اور ڈاکوؤں“ میں سے ہی انتخاب کرنا پڑے گا، کیونکہ فرشتے تو دستیاب نہیں۔ کہتے ہیں کپتان ایماندار ہے، یہ ایمانداری کا نعرہ بھی بیانیہ کا حصہ ہے۔ حقیقت سے یہ کچھ بعید ہے، اگر قوم صرف دیانتدار قیادت کی تلاش میں ہوتی تو اس کے لئے جماعت اسلامی موجود تھی، لیکن انہیں کوئی ووٹ نہیں دیتا ……کسی کو پسند ہو یا نہ ہو، جماعت کی قیادت پر مالی بددیانتی کا تو کوئی چھینٹا نہیں ……مگر قیادت کے لئے ایمانداری کے ساتھ اور بھی بہت ساری خصوصیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج پاکستان جیسے ملک پر حکمرانی، جہاں ادارے کمزور ہوں، سوسائٹی زوال پذیر ہو، معیشت تباہ حال ہو،بہت پیچیدہ کام ہے، اس کے لئے وژڈم، تجربے، اچھی ٹیم اور کھلے ذہن کی ضرورت ہے،ایمانداری تو بنیادی بات ہے…… راجہ ظفر الحق نے ایک تقریب میں ایک واقعہ سنایاکہ عالمی عدالت انصاف میں ایک پوسٹ کے لئے پاکستان کے ایک جج بھی امیدوار تھے تو اُن کا دفاع کرتے ہوئے پاکستان کے نمائندے نے جج صاحب کی ایمانداری کا خاص ذکر کیا۔ انتخاب کرنے والے ججوں کے پینل نے سوال کیا کہ جج صاحب کو کن شعبوں میں مہارت حاصل ہے تو دفاع کرنے والے نے شعبوں کی نشاندہی کی بجائے آ جا کر پھر ایمانداری پر زور دیا۔
اس پر پینل کے ارکان نے کہا کہ بھائی دیانتداری کوئی خاص خوبی نہیں، یہ تو بنیادی بات ہے،آپ کچھ اور بتائیں؟ اب ہمارے ہاں عمران خان کے حامی بھی آ جا کر عمران خان کی ایمانداری پر زور دیتے ہیں، آگے کا خانہ شاید خالی ہے۔اب کسی کو پسند ہو یا نہ ہو، بہرحال عمران خان کے آنے سے لوگوں کی توقعات پوری نہیں ہوئیں، لہٰذا میرے خیال میں تو عمران خان کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ Initiativeاپنے پاس رکھیں اور مناسب وقت پر انتخابات کرا دیں۔ جمہوری نظام میں سیاسی ڈیڈ لاک سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے لئے یہی بہترین راستہ ہے، اس میں بھی دو صورتیں ہو سکتی ہیں …… اگر عوام نے انہیں بھاری مینڈیٹ دے دیا تو وہ پورے اعتماد سے اپنے پروگرام پر عمل کر سکیں گے، دوسری صورت میں اُن کا آنریبل ایگزٹ ہو گا، کیونکہ سیاسی نظام میں سیاستدان کے پاس یہی ایک راستہ ہوتا ہے کہ وہ شکست تسلیم کرے اور کہہ دے کہ وہ عوام کا فیصلہ قبول کرتے ہیں، تو ہارنے کے باوجود اُس کا قد بلند ہو جاتا ہے۔ یہ کہنا کہ اُن کا کوئی متبادل نہیں، یہ 22کروڑ لوگوں کی توہین ہے۔کوئی آدمی ناگزیر نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ ناگزیر لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں۔ جمہوری نظام کو اگر رولز آف دی گیم کے مطابق چلنے دیا جائے تو قیادت خودبخود سامنے آتی رہے گی۔بدقسمتی سے ہم نے اب تک وہ راستہ روکا ہوا ہے۔ ہم نے تو لوکل باڈیز کے انتخابات بھی نہیں کروائے،حالانکہ لوکل باڈیز اور تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹس یونینیں سیاسی قیادت کی نرسری ہیں۔