صوفیأ کی دھرتی کا یاد گار سفر
یہ حقیقت ہے کہ فاصلے بڑھنے سے رابطے کم ہو جاتے ہیں اور رابطے کم ہونے سے بات کے بتنگڑ بن جاتے ہیں تعلق کی صورت حال یکسر بدل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سڑک کو ترقی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں موٹر ویز نے فاصلے نہ صرف کم کئے ہیں بلکہ ختم کردئیے ہیں۔ چند دن قبل میں بسلسلہ سرکاری ڈیوٹی لاہور سے نکلا اور اگلے چند ہی گھنٹوں میں ملتان باہروباہر ڈیرہ غازی خان ڈاٹ چوک پہنچ کر چونک گیا کہ یہ شہر تو پاکستان کے سنگم پر واقع ہے۔ ڈاٹ چوک کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں ڈاٹ ہے اور ڈاٹ ماضی کے فن تعمیر کا ایک خوبصورت انداز تھا۔ اس چوک سے ایک سڑک براستہ راجن پور کشمور سندھ، دوسری براستہ فورٹ منرو بلوچستان، تیسری براستہ ملتان سنٹرل پنجاب اور چوتھی براستہ تونسہ شریف خیبر پختونخوا کو جاتی ہے۔ کیا خوبصورت بات ہے ابھی تو اور بھی بڑے پہلو ہیں یہاں میدانی علاقے بھی ہیں اور کوہ سلیمان کے وسیع پہاڑ بھی ہیں۔ یہاں جس سے بھی ملاقات ہوئی اس نے وضع داری کا بھرپور مظاہرہ کیا۔
سائیں کا لفظ اتنا کثرت سے بولا جاتا ہے کہ عام آدمی بھی اپنے آپ کو معتبر سمجھنے لگتا ہے۔ سرائیکی زبان کی اپنی مٹھاس ہے جو ہر مخاطب کو پورے زور شور سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اور یوں دلوں کے فاصلے جھٹ میں ختم ہو جاتے ہیں ہاں اگر کوئی انا کے گھوڑے پر سوار ہو کر آئے تو پھر یہ قبیلے کے لوگ ہیں اور قبائل کے اپنے رسم و رواج ہوتے ہیں۔بڑی مدت بعد میں نے دستار کو اصل حالت میں لوگوں کے سروں پر دیکھا۔ سر اور دستار لازم و ملزوم ہیں سر اور دستار دونوں کو اونچا رکھنا یہاں کے لوگوں کے خمیر میں شامل ہے۔ اس پر بعض اوقات لڑائیاں بھی ہوتی ہیں جو کئی کئی سال چلتی ہیں۔ کسی دور میں اصولوں کی پاسداری کے لئے سروں کودار پر بھی رکھ دیا جاتا تھا۔ جان تو چلی جاتی تھی لیکن بات رہ جاتی تھی درحقیقت بات کا رہنا ضروری ہے جان تو پھر جان ہے ایک دن جانی ہے۔ مختصراً ان لوگوں کے کچھ اصول ہیں اور اصولوں پر جان دینا ان کا شعار ہے۔
ڈیرہ غازی خان، سخی سرور، راجن پور، جام پور، فاضل پور، ماڑی اور کئی جگہیں دیکھیں۔ ڈی جی خان سیمنٹ فیکٹری دیکھی اس فیکٹری سے متصل آٹھ کلومیٹر کنویئر لائن دیکھی جو پہاڑوں سے خام مال لاتی ہے اور یہ فیکٹری دھڑا دھڑ سیمنٹ بنا کر پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کررہی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کی حفاظت کو یقینی بنا رہے ہیں۔ گندم، کپاس، گنا اور دیگر فصلیں بھی یہاں کی دھرتی پیدا کررہی ہے۔ معدنیات سے بھی یہ خطہ لبریز ہے اور او جی ڈی سی کی ٹیمیں یہاں ڈرلنگ میں مصروف ہیں۔ راجن پور سے دو گھنٹے کے سفر پر ایک جگہ جس کو ماڑی کہتے ہیں یہ بلوچستان کے راستے میں واقع ہے۔ بنیادی طور پریہ راستہ ایک ٹریڈ روٹ ہے ماڑی بڑی بلندی پر واقع ہے۔ جس پر شاید توجہ دی جاتی تو یہ پاکستان کا ایک خوبصورت پکنک سپاٹ ہوتا۔وزیراعلیٰ پنجاب جناب عثمان احمد خان بزدار نے سڑک کو نئے سرے سے بنانے کے احکام جاری کئے ہیں۔ یہاں ایک بارڈر ملٹری پولیس کا تھانہ جس کی عمارت بہت پرانی ہو چکی ہے اس عمارت کو بھی نئے سرے سے تعمیر کرنے کے احکام جاری کئے گئے ہیں۔ مزید برآں اس علاقہ کو ڈویلپ کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے تاکہ سیاحت کو فروغ دیا جا سکے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ فاروق احمد خان لغاری، بلخ شیر مزاری اور عثمان احمد خان بزدار جن کا اس دھرتی سے تعلق ہے سیاست کی دنیا میں وضع قطع کے لوگ ہیں۔ یقینا وضع قطع سے ہی لوگ پہچانے جاتے ہیں۔ کاش سیاست کے آٹے کو وضع داری کے پانی سے گوندھا جائے تو حکومت کی روٹی کچی نہیں رہے گی۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے پہاڑی علاقہ کے اکثر لوگوں کے نام بڑے بڑے رقبے ہیں، لیکن اکثر و بیشتر بنجر ہیں اور یہاں کا پانی کڑوا ہے۔ البتہ قبائلی علاقہ سے لوگ مڈل ایسٹ چلے گئے ہیں۔ موٹر سائیکل ہر آدمی کے پاس ہے اور ان علاقوں میں جرائم بھی زیادہ تر موٹر سائیکل اور بھیڑ بکریاں چوری کے ہیں۔ میدانی علاقہ جات میں اب ہل جل نظر آ رہی ہے۔ کہیں کاشتکاری ہورہی ہے۔ کہیں دکانیں بن رہی ہیں اور کہیں کہیں فیکٹریاں لگنی شروع ہو گئی ہیں۔ ترقی کی ہوا چل گئی ہے، لیکن ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں ترقیاتی منصوبوں سے ترقی کا عمل مزید تیز ہو گا۔ان شا اللہ
بنیادی طور پر یہ بھی صوفیا کی دھرتی ہے اور یوں صوفیا کرام کے ذکر کے بغیر میں سمجھتا ہوں بات مکمل نہیں ہوگی۔ ویسے تو یہاں بے شمار بزرگ مدفون ہونگے لیکن تین صوفیاء ڈیرہ غازی خان ڈویژن کی پہچان ہیں۔ ان میں خواجہ سخی سرور جن کو غیر مسلموں نے شہید کردیا تھا اور شہید کو مردہ مت کہو وہ تو زندہ ہوتا ہے البتہ تمہیں شعور نہیں یوں اس شہید بزرگ کا فیض آج بھی جاری و ساری ہے۔ دوسرے خواجہ سلیمان تونسوی ہیں جن کا مزار تونسہ شریف میں ہے۔ یہ سلسلہ چشتیہ کے وہ بزرگ ہیں جن کے فیض کی بدولت سیال شریف، گولڑہ شریف اور بھیرہ شریف جیسی بے شمار درگاہیں معرض وجود میں آئیں۔ اور تیسرے خواجہ غلام فرید ہیں جن کا مزار کوٹ مٹھن میں ہے۔ صوفی شاعر ہیں۔
پنجاب کے صوفی شعرا کا سلسلہ بابا فرید سے شروع ہوتا ہوا خواجہ غلام فرید پر آکر اپنی معراج کو پہنچتا ہے۔ شاعری سوزو گداز کے بغیر بے کیف ہوتی ہے اور خواجہ غلام فرید کے کلام میں سوز و گداز کا ایک منفرد رنگ ہے یہی رنگ ان کو دیگر پنجابی اور سرائیکی شاعروں سے ممتاز کرتا ہے۔ قوالی برصغیر پاک و ہند میں بہت مقبول ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ قوالی کا ذوق رکھنے والے لوگ خواجہ غلام فریدؒکا کلام نہ سنیں۔ یہ کلام پیار اور محبت کا کلام ہے جو لہجے میں مٹھاس پیدا کرتا ہے اور کانوں میں رس گھولتا ہے۔ دو دن مسلسل میں ڈیرہ غازی خان علاقہ کو آنکھیں کھول کر دیکھتا رہا اور بالآخر کوٹ مٹھن پہنچ گیا اور پھر میرے آنے کا مقصد پورا ہوگیا (کالم نگار: ایڈیشنل سیکرٹری (پریزن) ہوم ڈیپارٹمنٹ ہیں)