”منہ نہ متھا جن پہاڑوں لتھا“
”راہواں اوکھیاں“ہوں نا ہوں میں نے دیکھا ہے خاں جی کو”مرن دا ایویں“ شوق ہے۔پتہ نہیں کون مشیر ”پٹھے سدھے“ مشوروں کے نام پہ ایسی”چولاں“ مارتا ہے بھلا ہے کوئی بات دس وزیروں کو سرٹیفیکیٹ دے کر باقیوں کو ناراض کردیا۔اگر ان دس کی کارکردگی ہی بہتر ہے تو پھر جس وزیر نے میڈیا میں یہ سارا حکومتی ڈرامہ ہتھیلی پہ سرسوں کی طرح جمایا اسکا کیا قصور؟آپ کہتے کامیاب خارجہ پالیسی تو پھر کیا یہ جھوٹ تھا۔چلیں جی”جناں کھادیاں گاجراں انکے ہی ٹھڈ پیڑ“ہونگے۔حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں پٹرول تو خیر شعیب اختر سے بھی تیز باؤنسر ماررہا ہے اسکے انڈپر یارکر نے گٹے گوڈے توڑ دئیے ہیں۔ اب اس ملک کے غریبوں کا اندازہ کریں انکے غموں کی عظیم ترجمان ملکہ کو یہ بھی نہیں پتہ کہ انکی موٹر سائیکلوں میں پٹرول گیس سٹیشن سے نہیں پڑتا۔خیر مریم بی بی سیاسی اوتار ہیں اگر ہمارے بھانجے بلاول انڈے فی کلو بکوا سکتے ہیں تو وہ بھی جو مرضی کہہ سکتی ہیں۔۔اس سے اندازہ کرلیں ہماری سیاسی قیادت ہماری زندگیوں سے کتنی واقف ہے۔سنتا سنگھ کو الیکشن میں دس ووٹ پڑے اس نے پولیس چیف کو درخواست کی کہ اسے سیکیورٹی فراہم کی جائے چیف بولا سیکیورٹی کیوں چاہئے سنتا سنگھ بولا الیکشن کے بعد اندازہ ہوا کہ پورا پنڈ میرے خلاف ہے۔لگتا ہے آنے والے دنوں میں میرے کپتان کو ایسی درخواست نہ دینی پڑ جائے مافیاز سے لڑنا آسان ہے لیکن آپکی بکل میں چھپے چوروں کا کیا کیا جائے۔کاش کپتان خود کے سحر سے باہر نکل کر اپنی ٹیم میں ہیروز تراشتاکلے بزدار سے کچھ نہیں ہوگاانکا انتخاب کسی کے خلاف ہو نہ ہو خود بزدار خلاف سازش ہے۔بندے پہ اتنا بوجھ ڈالیں جتنا وہ اٹھا سکتا ہو۔
بنتا سنگھ سر تھامے بیٹھا تھا کسی نے پوچھا تو بولا یار ”اَن نون“ نمبر سے فون آیا شادی شدہ ہو میں نے کہہ دیا کہہ نہیں اگے سے بولی گھر آؤ تہانوں دسدی آں۔بندہ اب چھوٹا موٹا جھوٹ بھی نہ بولے۔۔اس معصومیت پہ سزا کس بات کی۔ویر جی اگر میاں صاحب نے بیماری کا چھوٹا سا جھوٹ بول ہی دیا تو یہ بتائیں اس معاشرے میں سچ کون بول رہا ہے ممبر سے پارلیمنٹ تک جھوٹو جھوٹ”گنڈیریاں دو تیریاں دو میریاں“چل رہا ہے۔عدالتیں طاقتوروں کو ریڈ کارپٹ دیتی ہیں اور ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے محسن کے کیس کی شنوائی انکی رحلت کے بعد ہوتی ہے، شہباز شریف پہ فرد جرم لگتے لگتے رہ جاتی ہے،جنرل مشرف کٹہرے کے بجائے چک شہزاد سے پھولوں کے تخت پہ بٹھا کہ باہر بھیج دئیے جاتے ہیں، ادارے انہیں اس دوران ”پکھیاں“ بھی جھلتے ہیں۔چھٹیوں میں وڈیروں کی سہولت کاری کیلیے عدالتوں کے در اور کٹہروں کے قفل کھل جاتے ہیں۔نیب کروڑوں کا خرچہ کرکے امیروں کا تیلا نہیں توڑ پاتی،صاف پانی کیس کے سارے ملزم گنگا میں انصاف کا اشنان کرکے صاف بچ جاتے ہیں،یہ معاشرہ شاہ رخ جتوئیوں کا معاشرہ ہے۔ایک رکن اسمبلی سب کے سامنے پولیس اہلکار کو کچلتا ہے،انصاف تو خیر ہوتا ہی اندھا ہے پورا معاشرہ بھی نابینا ہوجاتا ہے۔میرے گھبرائے پاکستانیو اب گھبرانے کا فائدہ بھی کچھ نہیں تبدیلی کا ایک اور خواب مافیاز،خفیہ چہروں، مچانوں پہ بیٹھے شکاریوں اور اپنے ماتھے پن کے ہاتھوں تاراج ہوا عمران خان ہار نہیں سکتا اس نے ڈاکو اور چوروں کے گرد ایک دائرہ ضرور لگا دیا وہ نہ تفتیشی افسر ہے نہ جج،نہ فیصلوں پہ اسکا اختیاراور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اسے گندہ کرکے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال سکتا ہے تو وہ ٹریلر کے طور پہ منڈی بہاوالدین کا جلسہ دیکھ لے۔یاد رکھیں کپتان سادہ مان نہیں کنٹینر اور عوام میں تو وہ ویسے ہی اتھرا ہوجاتا ہے منڈی بہاوالدین کا جلسہ عقلمند کے لئے اشارہ ہے۔حالانکہ یہ سیاست کا دھندا اتنا ہی گندہ ہے کہ اس میں جو آیا اسکے ساتھ ایسا باندر کلا کھیلا گیا کہ توبہ ہی بھلی۔اب ایسے میں میرا دوست رکشہ ڈرائیور زلفی کہتا ہے کہ رکشہ تو سود سے لیے پیسے پولیس کو دے کر مل گیا لیکن سواریاں چھوٹ گئیں سکول کے بچوں نے آنے جانے کے لئے دوسرے رکشہ انگیج کرلیا۔یعنی اسکی معاشی زندگی کی کھوتی پاکستان کی طرح ایک بار پھر بوڑھ تھلے آگئے ہے۔۔اب اسے کیسے بتاؤں یا سمجھاؤں کہ جب انصاف کو شریفوں زرداریوں قاضیوں سے فرصت ملے گی تو اسکا بھی سوچ لیں گے اس نظام سے ایسی توقعات رکھنے پر اسکا زن بچہ کوہلو میں بھی پسوایا جاسکتا ہے۔یار زلفی رکشہ ڈرائیور اپنی شکل ویکھ ”منہ نہ متھا جن پہاڑوں لتھا“۔