کچھ تو رحم کیجئے! 

کچھ تو رحم کیجئے! 
کچھ تو رحم کیجئے! 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف) نے کہا ہے ”پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے خطرات بڑھ رہے ہیں جبکہ کرپشن میں بھی اضافے کا خدشہ ہے اور کمزور ٹیکس سسٹم، ٹیکس ادائیگیوں میں رکاوٹ ہے“۔ آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ٹیکس ادائیگی کا عمل آسان بنائے اور کاروباری ماحول بہتر بنانے کے لئے غیر ضروری ریگولیشنز ختم کئے جائیں۔ کاروبار شروع کرنے کے لئے قوانین سادہ اور سہل بنائے جائیں۔ اینٹی کرپشن کے اداروں کو موثر بنایا جائے۔ ترجیحی بنیادوں پر اثاثہ جات ظاہر کرنے کا نظام قائم کیا جائے۔ وزراء سمیت اعلیٰ سرکاری حکام کے اثاثہ جات ظاہر کئے جائیں۔ 


قارئین عالمی مالیاتی ادارے کی اس رپورٹ میں کوئی بات بھی غلط نہیں کہی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ٹیکس کے نظام کو درست کون کرے گا؟ ایف بی آر کے سورماؤں کے اپنے پیٹ اتنے بڑے ہیں کہ معدہ، جگر کے ڈاکٹرز بھی حیران ہیں کہ اتنا مال ہضم کیسے ہو جاتا ہے اور ایف بی آر میں ٹیکس اکٹھا کرنے والوں کی ذہانت واہ واہ کیا کہنے، ٹیکس ریٹرن سے بچنے کے لئے ایسے ایسے فارمولے بتائے جائیں گے، ایسی ایسی راہیں نکالی جائیں گی کہ نہ پوچھئے اور تو اور ایک دن ابلیس موصوف بھی اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ وہ کن لوگوں میں آکر پھنس گیا ہے۔ کچھ دن پہلے چند دوستوں کے ساتھ اسلام آباد سفر کے دوران بھیرہ موٹروے ریسٹ ایریا پر چائے اور نماز پڑھنے کی غرض سے رکے۔ چائے پینے کے بعد جب بل دیا تو محسوس ہوا ہم نے شاید کسی فائیو سٹار ہوٹل میں چائے پی ہے۔ میرا ایک دوست جس کی آدھی زندگی بیرون ملک گزری ہے۔ اس نے کہا۔ یار بل کی ادائیگی تو ہم نے کر دی ہے۔ اس میں حکومت کو کتنا ٹیکس گیا ہے؟ یہاں بل کی ادائیگی بینک کارڈ کے ذریعے کیوں نہیں کی جاتی ہے؟ تاکہ شفاف طریقے سے کمانے والا بھی کمائے، دینے والے کی بھی تسلی ہو کہ میری دی ہوئی رقم سے ٹیکس حکومت کے کھاتے میں ہی جا رہا ہے جبھی ہم ترقی کے زینے عبور کر سکیں گے۔ اس دوست کے بقول بیرون ملک تو ایک ریڑھی والے سے لیکر اوپر تک ہر کاروباری جگہوں، مالز، شاپنگ پلازوں الغرض کاروبار سے منسلک ہر دکان مرکزی بینک کے ٹیکس سسٹم سے جڑی ہوئی ہیں۔ وہاں کوئی بھی شخص پکی رسید اور کریڈٹ کارڈ بنا کوئی چیز نہیں خرید سکتا ہے۔ اگر کسی نے کرنسی میں شاپنگ کرنی ہے حتیٰ کہ سبزی، فروٹ، اشیائے خورونوش خریدنی ہے۔ چھوٹی سی چھوٹی شے کی ادائیگی پر بھی ٹیکس حکومت کے اکاؤنٹ میں جاتا ہے اور اپنے ہاں تو اس طرح کا نظام سرے سے ہے ہی نہیں ہے۔ بیچارے سرکاری ملازمین اور پرائیویٹ تنخواہ دار طبقہ ٹیکس ریٹرن کی چکی میں پس رہے ہیں۔ حال یہ ہے کہ ٹیکس نہ دینے والے کاروباری حضرات کے خلاف حکومت ہمت کر کے شکنجہ کستی بھی ہے تو تاجر برادری ہڑتال کی کال دے کر کاروبار بند کر دیتی ہے۔ ایک طرف تو یہ کہانی ہے دوسری طرف جو لوگ نیک نیتی سے کاروبار کر کے ٹیکس ریٹرن جمع کرانا چاہتے ہیں۔ ان کی بھی سن لیں۔ ایک کاروباری دوست اپنی کہانی سنا رہا تھا کہ کس طرح اسے پیار سے لاکھوں روپے کے جائز اور قانونی ٹیکس کو حکومتی کھاتے میں جمع نہ کروانے کے بدلے، اپنے اکاؤنٹ تازہ دم کرنے کے گر بتائے گئے۔ جنہیں سن کر دماغ چکرا سا گیا تھا۔
شکر الحمدللہ! پاکستان میں سرکاری اداروں میں کوئی کام بنا پہیے لگائے یعنی مٹھی گرم کئے بغیر ہو جائے، ایسا معجزہ کبھی کبھار ہی ہو سکتا ہے۔ مجھے تو معصوم آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ کہ سرکاری اداروں کے افسران اور وزرا اپنے اثاثے ظاہر کریں۔ اس صدی کا سب سے بڑا لطیفہ لگا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے جسٹس فائز عیسیٰ قاضی کے کیس کا فیصلہ آیا ہے۔ 
سوشل میڈیا پر ہر شخص ہی لڈیاں ڈال کر کہہ رہا ہے کہ معزز جج صاحب کو اپنے اثاثہ جات ظاہر کرنے سے بری الذمہ قرار دے دیا گیا تو پھر سیاسی کیسوں کی بھینٹ چڑھنے والے میاں نواز شریف، مریم نواز، شریف فیملی سمیت ملک کے ہر شہری پر اس فیصلے کا اطلاق ہونا چاہیے اب کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ شخص بھی کیونکر اپنے اثاثے ظاہر کرنے کا پابند ہو سکتا ہے۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ نسلہ ٹاور گرانے اور کراچی میں مسجد مسمار کرنے کا فرمان جاری کرنے والے محترم جج صاحب امریکہ سدھار گئے ہیں۔ ایک صارف نے کہا کہ ججز کی تعیناتی کے لئے بھی مقابلے کا امتحان ہونا چاہیے اور منٹوں سیکنڈوں میں غریب عوام کا روزگار چھیننے والے قاضی صاحبان کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ 


ایک صارف تو بہت ہی غصے میں تھا کہ وہ غریب آدمی ہے بیوی، چار بچوں اور بیمار بوڑھے والدین کا واحد سہارا ہے۔ اسلام آباد کے پہاڑی علاقے میں کئی سالوں سے رہ رہا ہے جہاں روزگار پہلے ہی نہ ہے وہ ایک مشہور نجی ریستوران جو بیرون ملک پاکستان کا سافٹ امیج اجاگر کرنے میں کوئی ثانی نہ رکھتا ہے اور اندرون اور بیرون ملک سیروسیاحت کی غرض سے آنے والوں کے لئے دہشت گردی اور ٹینشن کے اس پر خطر دور میں خوشی اور راحت کا سامان بہم مہیا کرتا ہے۔ ہزاروں لوگوں کے روزگار کا واحد ذریعہ اور حکومت کو لاکھوں روپے ٹیکس دے کر ملکی معیشت میں زاد راہ فراہم کر رہا ہے۔ اس خوبصورت ریستوران کو جنگلی حیات کے تحفظ کے نام پر یک جنبش قلم بند کر کے معاشی قتل عام کر دیا گیا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ جانوروں کو تو بچانے کی نام نہاد تدبیریں کی جارہی ہیں اور انسانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ 
قارئین سچ پوچھیں تو آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کاروباری لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے بارے پڑھا اور اس صارف کی دہائی بارے بھی پڑھا کہ اپنے دیس میں تو واقعی کاروبار کرنا آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے مترادف ہے۔ روزانہ ڈالر اوپر سے اوپر جا رہا ہے۔ سرمایہ کار ڈالر لیکر بیرون ملک بھاگ رہے ہیں۔ یہاں تو چلتے کاروبار کو بند کر کے دوسروں کو کاروبار سے توبہ کرنے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ 
میں تو اب یہی کہوں گا، ذاتی مفاد، انا پسندی اور خود پرستی کے اس کھیل میں کسی بنی نوع انسان کے منہ سے روٹی کا نوالہ نہ چھینئے، خدارا!مخلوق خدا پر کچھ تو رحم کیجئے۔ 

مزید :

رائے -کالم -