فہم قرآن...نسخہ کیمیا
افسوس صد افسوس۔۔۔!!وطن عزیز میں ایک اور "جاہل ہجوم "نے سیالکوٹ کے بعد تلمبہ میں بھی "نعرہ تکبیر "لگا کر ایک اور بے گناہ کو بیدردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔۔۔قرآن مجید کی مبینہ توہین کے نام پر کلام اللہ کی اس سے بڑی اور کیا توہین ہو سکتی ہے کہ کتاب ہدایت نے ایک بے قصور انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔۔۔یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ "جاہل ہجوم" کی "درندگی" کو اسلام سے منسوب کرنا بھی انتہائی غیر مناسب فعل ہے کہ اسلام کے نام پر کسی غیر اسلامی فعل کا ارتکاب ہرگز اسلام نہیں صرف اور صرف بدترین جہالت ہے۔۔۔
ہمارے ایسے کم فہم جذباتی معاشرے میں قرآن مجید کی مبینہ توہین کے واقعات کے سدباب کا واحد اور بہترین حل فہم قرآن ہے۔۔۔بنیادی طور پر یہ کام اسلامی نظریاتی کونسل کے کرنے کا ہے مگر کسی "برائے نام ادارے" کے "سفارشی" اور "نمائشی" سربراہ سے یہ توقع عبث ہے۔۔۔ویسے بھی یہ کونسل "نشستند گفتند برخاستند" کے اصول پر چل رہی ہے۔۔۔حکمران کوئی بھی ہوں کب کسی بھی "قبلہ "کی سفارشات کو مانتے ہیں!!!!
یہ کام وفاق المدارس اور تنظیم المدارس سمیت باقی دینی وفاقوں کے تحت چلنے والی مساجد اور مدارس کا ہے مگر اپنے اپنے فرقوں میں الجھے "صاحبان جبہ و دستار" کو کہاں فرصت کہ وہ یہ فرض نبھائیں ورنہ عوام الناس کی آگاہی کے لیے منبر و محراب سے بہتر فورم کون سا ہو سکتا ہے۔۔۔!!!!
یہ کام جدید سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں کا بھی ہے مگر ہمارے ماڈرن سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔۔۔سیٹھ چاہے کلین شیوڈ ہو یا باریش۔۔۔"کمرشل ازم" کی دنیا میں پیسہ ہی دین ایمان ہوتا ہے۔۔۔!!!
بھلا ہو لاہور کی مستند دینی درسگاہ دارالعلوم جامعہ نعیمیہ کے سربراہ جناب ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کا کہ وہ" فرض کفایہ" ادا کرتے رہتے ہیں۔۔۔ عدت میں نکاح کا مسئلہ ہو یا مبینہ توہین قرآن کے نام پر ذہنی مریض کی ہلاکت کا دلخراش واقعہ،جن موضوعات پرہمارے" دینی حلقوں" کو "سانپ سونگھ " جاتا ہے وہ اس ضمن میں کوئی ایک آدھ مدلل بیان دیکر "سکوت" توڑ دیتے ہیں۔۔۔ اپنے والد گرامی جناب ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کی طرح وہ بھی خوب صورت اور خوب سیرت شخصیت۔۔۔گفتار نہیں اچھے کردار والے آدمی ہیں۔۔۔ وہ" پوائنٹ سکورنگ" نہیں کرتے۔۔۔اپنا دینی فرض نبھاتے ہیں۔۔۔
عزت مآب ڈاکٹر راغب نعیمی نے سانحہ تلمبہ کے حوالے سے بھی بڑی" فکر انگیز باتیں" کی ہیں۔۔۔اپنے ایک تحریری بیان میں کہتے ہیں کہ شریعت محمدی میں انسانی معاملات کے متعلق جملہ امور صراحت کے ساتھ موجود ہیں ۔۔۔ان امور کی انجام دہی کیلئے اصول و قوانین مقرر کیے گئے ہیں جن کی روشنی میں معاشرے کا ہر فرد اپنے اپنے امور پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے اور انہی قوانین کی پاسداری میں معاشرے کا امن اور انسانی زندگی کا تحفظ ہے ۔۔۔وہ لکھتے ہیں:کسی معاملے کے بارے میں خبر کے حوالے سے بھی ضابطہ اسلامی موجود ہے کہ پہلے تحقیق کرو بعد ازاں اس کے متعلق رائے قائم کرو۔۔۔سورہ الحجرات میں ارشاد باری تعالیٰ ہے" اے ایمان والو! اگر لے آئے تمہارے پاس کوئی فاسق خبر تو اس کی خوب تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ ضرر پہنچائو کسی قوم کو بے علمی میں پھر تم اپنے کیے پر پچھتانے لگو‘‘ ۔۔۔ مذکورہ آیت میں رب تعالیٰ نے بغیر تحقیق کے کسی فاسق کی خبر کو قبول کرنے سے منع کر دیا ہے کہ ہوسکتا ہے وہ خبر جھوٹ پر مبنی ہو اور اسے قبول کرنے کے بعد خطرناک نتائج نکلیں اور پھر ساری زندگی انسان ندامت و شرمندگی سے کف افسوس ملتا رہے۔۔۔ بہر حال اگر کوئی خبر ملے تو بغیر تحقیق و تصدیق کے اسے دوسروں تک پہنچانا اور پھیلانا منع ہے۔۔۔ مسلم شریف کے مطابق حدیث شریف میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘ کسی شخص کےجھوٹا ہونے کیلئے اتنی بات ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کر دے۔۔۔قرآن و حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ کے پاس اگر کوئی خبر آتی ہے تو بغیر تحقیق کئے اس پر ردعمل ہرگز نہ دیں تاکہ بعد میں شرمندگی و ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔۔۔
راغب نعیمی صاحب قرار دیتے ہیں کہ گزشتہ دنوں میاں چنوں کے گائوں تلمبہ میں ذہنی معذور شخص کو توہین قرآن کے الزام میں بے دردی سے قتل کر دیا گیاجو کہ انتہائی قابل مذمت ہے۔۔۔ذہنی معذور تو ویسے ہی مرفوع القلم ہوتا ہے جیسا کہ سنن ابی ماجہ میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین بندوں سے قلم کو اٹھا لیا گیا ہے...سونے والا یہاں تک کہ جاگ جائے۔۔۔چھوٹا بچہ یہاں تک کہ بڑا ہو جا ئے اور پاگل یہاں تک کہ عقل والا ہوجائے۔۔۔وہ زور دیکر کہتے ہیں بالفرض یہ شخص ذہنی معذور نہ تھا اور یہ واقعہ ہو بھی گیا تھا تو پھر بھی کسی کو حق نہیں کہ اسے مارے یا قتل کردے۔۔۔ہر اعتبار سے یہ ناجائز و حرام فعل ہوا ہے۔۔۔ اگر یہ عمل ہوگیا تھا تو آئین پاکستان میں 295 بی کے عنوان سے توہین قرآن کے حوالہ سے قانون موجود ہے کہ ایسے ملزم کو عمر قید کی سزا دی جائے گی۔۔۔پھر متعلقہ تھانے میں رجوع کیا جاتا کیوں کہ ہمارا ملک آئینی و قانونی ملک ہے جہاں تھانہ ، تفتیشی سینٹر اور عدالتیں موجود ہیں۔۔۔ نیز حکومت پنجاب نے مذہبی معاملات کی تحقیق و تفتیش کے لئے متحدہ علماء بورڈ بنایا ہوا ہے جس میں تمام مسالک کے علماء کرام موجود ہیں جو ایسے مذہبی معاملات کے فیصلے کرتے ہیں ۔۔۔ خود سے قانون کو ہاتھ میں لے کر ایسے گھنائونے فعل کرنے کی اسلام میں قطاً اجازت نہیں۔۔۔ جو لوگ اس قتل میں ملوث ہیں ان کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کا سدباب ہو اور قانون کی پاسداری کیلئے حکومت اور عدلیہ کسی شخص ، گروہ یا جماعت سے کوئی رعایت نہ کریں۔۔۔ تب جا کر قانون کی عملداری واضح ہوگی۔۔۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ کسی مومن کو ناحق قتل کرنا انتہائی سنگین جرم ہے۔۔۔ قرآن و حدیث میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہے۔۔۔سورہ نسا میں ارشاد باری تعالیٰ ہے"اور جو شخص کسی مسلمان کو قصدا قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہوگا اور اللہ اس پر لعنت کرے گا اور اللہ نے اس کے لئے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے ’’۔۔۔. ترمذی شریف کے مطابق حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل کی بہ نسبت پوری دنیا کا زوال زیادہ آسان ہے ۔۔۔.ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمام آسٓمان اور زمین والے کسی ایک مومن کے قتل میں شریک ہوں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں اوندھے منہ ڈال دے گا۔۔۔ مذکورہ آیت اور احادیث سے مسئلہ کی صراحت ہوگئی کہ مسلمان کا قتل بہت بڑا گناہ ہے۔۔۔ انہوں نے آئمہ، خطباء، اساتذہ اور مشائخ سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے دروس اور خطبوں میں لوگوں کو قانون کی پاسداری کی تلقین کریں بصورت دیگر ہمارا پرامن ملک انتشار و افتراق کا شکار ہوجائے گا۔۔۔
معتبر اسلامی سکالر جناب طفیل نے بھی فی زمانہ فہم قرآن کو ہی" نسخہ کیمیا "قرار دیتے ہوئے چند بیش قیمت تجاویز دی ہیں۔۔۔وہ سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بچوں کو لازمی طور پر ناظرہ قرآن پڑھانے کا رواج ہے۔۔۔ بے شمار لوگ بچوں کو قرآن حفظ بھی کرواتے ہیں۔۔۔ان کاموں کا تعلق خیر و برکت سے ہے لیکن قرآن دراصل انسانیت کے لئے ضابطہ حیات ہے اور اس سے استفادہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم خود بھی اور بچوں کو بھی ترجمہ قرآن سے متعارف کروائیں۔۔۔میری دلی خواہش ہے کہ جس طرح والدین ہر بچے کے لئے ناظرہ قرآن پڑھانے کا اہتمام کرتے ہیں کہ بچوں کو اس کے لیے مسجد یا مدرسے بھیجتے ہیں یا گھر پر کسی معلم یا معلمہ کا انتظام کرتے ہیں اسی طرح ملک میں ترجمہ قرآن پڑھانے کی کسی ایسی تحریک کا آغاز ہو کہ ہر مسجد میں، ہر مکتب میں اور ہر گھر کے بچوں کے لئے ترجمہ قرآن پڑھانے کا نہ صرف انتظام ہو بلکہ اسے اسی طرح ضروری سمجھا جائے جیسے ہم ناظرہ قرآن کا اہتمام کرتے ہیں۔۔۔کاش کچھ اہل دل اس کارخیر کا بیڑا اٹھائیں اور سارے ملک میں اس جذبے کو عام کر دیں۔۔۔یہ وہ واحد نسخہ کیمیا ہے جو ہماری نئی نسل کی بقا اور ارتقا کا ضامن ہے...
نوٹ: یہ لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں