قومی سیاست کے سرکس میں موت کا کنواں
مختلف انسانی معاشروں میں ایک دوسرے کے انفرادی خیر مقدم کے لئے کئی الگ الگ انداز اپنائے جا تے ہیں ۔ کہیں ہاتھ جوڑ کر نہایت عاجزی سے نمسکار اور کہیں خوشدلی کی چہکار کے ساتھ گڈ مارننگ ۔ اسی طرح سماجی میل جول میں ایک شخص کو دوسروں سے متعارف کرانے کا بھی ہر ایک کا اپنا ہی رنگ ہوا کرتا ہے ۔ کئی لوگ نئے ملنے والے کو بس آپ کا نام اور عہدہ بتا دیں گے ،جبکہ بعض کے نزدیک ایک دو کیمیائی یا طبعی خواص کا ذکر کرنا بھی ضروری ہو گا ۔بھئی ، ان سے ملئے ، ہاکی کے بہت اچھے کھلاڑی ہیں ۔۔۔ یا پروفیسر صاحب سے کیا آپ کا تعارف نہیں ؟ یہ یورپین تاریخ پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں، یہ تو ہیں عام لوگوں کے طور طریقے ۔ کچھ شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں ، جن کی ہر حرکت پر انفرادیت کی مہر نمایاں دکھائی دے گی ۔
اس نکتہ کو سمجھنے کے لئے میرے والد کے ایک پرانے جالندھری دوست کو لے لیجئے ۔ چہرے پر ہمہ وقت ایک بشاش مسکراہٹ ، الفاظ میں ایک نیم جارحانہ پنجابی تپاک کی جھلک اور لہجے میں معمولی سی لکنت پر قابو پانے کے لئے ہلکی سی سیٹی ۔ یہی نہیں ، ہنسی ہنسی میں اپنی ناک کے موٹے سے تل کو پھدکا کر دکھا دیں گے ، بچوں کے لئے الٹی سائیکل چلانے کا مظاہرہ کریں گے یا بات پر زور دینے کے لئے ریڈیو اور ٹی وی کے ڈراموں کی طرح اپنی دلیل کو عجیب عجیب صوتی تاثرات سے تقویت پہنچائیں گے ۔ نمونہءکلام چاہیں تو صحت کداں ۔۔۔ شاد باد منزل مراد؟ ۔۔۔ بیٹا جی ، ہم نے آزادی کے وقت الاٹمنٹیں نہیں کروائیں ، کیونکہ اس وقت ہمارے مزاج میں حب الوطنیاں اور اولوالعزمیاں گھسی ہوئی تھیں یاپتا نہیں ، یہ آئیڈیا کیسے بھڑزیوں کر کے دماغ میں آگیا ہے “ ۔
سب سے دل چسپ مرحلہ تب آتا، جب وہ اپنے قریبی دوست کا تعارف کسی تیسرے آدمی سے کرا رہے ہوتے ۔ اس شہر میں پانچ سال قیام کے دوران ۔۔۔ (یہاں ایک وقفہ جس کے دوران ہونہہ ۔۔۔ ہوں ، ہوں ، ہوں کی شیر جیسی آواز ) ۔۔۔ اگر کسی شخص سے طبیعت ملی ۔۔۔ (پھر ایک طویل آہا ہاہاکا وقفہ) ۔۔۔ تو وہ اللہ کے فضل سے صرف ملک صاحب ہیں ۔ چونکہ ہماری طرح و ہ بھی بے تکلفی میں ملک کے ’ل‘ کو زبر کی بجائے جذم کے ساتھ بولتے ، اس لئے ان کے بقول ،گفتگوﺅں میں باہمی قربت کا احساس اور بڑھ جاتا ۔ بزرگوار نے ہمارے اور اپنے آبائی شہروں کے درمیان کئی اور اپنائتیں بھی تلاش کر لی تھیں ، جیسے سیالکوٹ میں امام علی الحق اور جالندھر میں ان کے بھائی کی شہادت ، ہر دو جگہ ملنے والی تازہ کنوﺅں کی سبزی اور دونوں سے یکساں فاصلے پر ایک ایک قصبہ ، جہاں مٹی کی ہانڈیاں بنتی تھیں ۔
یہ ہمیشہ زندہ پرفارمنس دینے والی ایک ایسی شخصیت کی جھلک ہے ، جس نے فیض کا فن ”جب چاہا کر لیا ہے کنج قفس بہاراں“ نہ صرف خود سیکھا ، بلکہ اسے ہم جیسے خورد سالوں کے تصور حیات کا حصہ بھی بنا دیا ۔ مجھے اس خاکے کی بعض اور دلآویز جہتیں دکھانے کے لئے کسی دن اور زور لگانا پڑے گا ، لیکن یہ تو سب جانتے ہیں کہ انسانی شخصیتیں اور ان کی پہچان کے زاویے جدا جدا ہوا کرتے ہیں ، چنانچہ آپ نے کسی نہ کسی کو یہ کہتے ہوئے ضرور سنا ہوگا کہ فلاں شخص بھلا مانس ہے ، فلاں دوستی کا وصف رکھتا ہے یا کوئی صاحب اپنی ذات میں انجمن ہیں ۔ یہ سب ہوتے ہوئے بھی ایک پرانے ہم جماعت نے ایک بار مجھے یوں متعارف کرایا کہ اس سے ملئے ، میرا یہ دوست اپنے آپ میں ایک جلوس ہے ۔ وضاحت طلب کرنے پر فرمانے لگے کہ تم ایک آدمی نہیں ہو، بلکہ تمہارے اندر ایک سوٹڈ بوٹڈ جنٹلمین ، زیریں پوٹھوار کے چند تہمد پوش اور اچھی خاصی تعداد میں اردو سپیکنگ مشاعرہ باز ”گلوری گلے میں سیٹ کرکے‘ ‘ عجیب و غریب رولے مچا رہے ہیں ۔
ایک اور تعارفی تشبیہ اس کمشنر ٹائپ تایا زاد بھائی سے مکالمے کے دوران سامنے آئی ، جس کا ذکر آج کل مَیں صرف لوگوں پر رعب گانٹھنے کے لئے کرتا ہوں ۔ ایک نا آشنا نمبر سے ٹیلی فون کال پر پہلے تو پی اے نے میرا نام سنا ، پھر بے رخی سے پوچھا ”سر! آپ کون ہیں“؟.... وہ بے چارہ دفتری طریق کار کے مطابق ، شناخت کا حوالہ جاننا چاہتا تھا ، یعنی میرا عہدہ ، پیشہ یا افسر کے ساتھ رشتہ ۔ اس اچانک سوال نے مجھے بوکھلا دیا ، منہ سے نکلا ” مَیں ۔۔۔ مَیں ایک نہائت نفیس آدمی ہوں‘ ‘ ۔ اس نے یہی بات آگے کہہ دی ۔ خوش دلی کے موڈ میں جب صاحب نے اشارہ دیا کہ وہ آج میری طرف آنا چاہتے ہیں تو مَیں کہے بغیر نہ رہ سکا کہ ”کوئی بینڈ باجے کا بندوبست کروں“ ۔ ’نہیں نہیں ، اس کی ضرورت نہیں ۔۔۔ آپ خود ہی کافی ہیں ۔ کہنے والے نے ثابت کر دیا کہ وہ واقعی میرا بھائی لگتا ہے ۔
اپنے بارے میں جلوس اور بینڈ کی اصطلاحات اس لئے اچھی لگیں کہ دونوں کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہے ۔ ہمارے ملک میں جلوس مذہبی جوش و عقیدت ، عدالتی آزادی ، آئین کی بالادستی اور عوامی مفادات کے ترجمان ہوا کرتے ہیں ۔ بینڈ بھی مختلف سائز کے ڈھول تاشوں ، باجوں اور جھالر والی بینوں کے سُر تال کے درمیان ایک عظیم الشان ہم آہنگی کی علامت ہے ۔ پھر اکثر بینڈ والے اس عسکری طائفے کے لوگ ہوتے ہیں جو محض ایک آدھ پلٹن کے مورال کو بلند نہیں رکھتا ، بلکہ ضرورت پڑنے پر اور کبھی کبھار بلا ضرورت ساری قوم کے اخلاق کو سدھار نے کا مشن اپنا لیتا ہے ، مگر کیا کیا جائے ، اکثر و بیشتر یہ سویلین لوگ ، جنہیں قطار بندی تک کی تمیز نہیں ، اس کی راگ راگنیوں کو سمجھنے اور ساتھ قدم ملانے کی کوشش ہی نہیں کرتے ۔
ہمارے واہ والے سکول میں صبح کی اسمبلی ایک ایسے بینڈ ماسٹر صاحب کی کمان میں ہوتی، جو شمالی پنجاب کے ہزاروں تنخواہ دار مسلمانوں کی ہمراہی میں دوسری عالمی جنگ میں انگریز کے حق میں داد شجاعت دے چکے تھے .... لیکن جنرل ایوب کے ابتدائی دور حکومت میں ان کے جذبہ ءانتقام کا ہدف اڈولف ہٹلر کی جگہ منتخب بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو تھے ۔ کئی بار جوش خطابت میں انہوں نے موصوف کی غیرت کو للکارا اور ایک دن کسی اور جذبے کے تحت بینڈ کے سب لڑکوں کو اپنے کمرے میں جمع کر کے یہ فرضی اعلان کر دیا کہ ”اساں نا بینڈ انگلینڈ جاسی“ ۔ پھر اس کام کے لئے صدر ، سیکرٹری اور خزانچی مقرر ہو گئے ۔ خزانچی نا سمجھی میں پوچھ بیٹھا کہ خزانہ کہاں سے آئے گا ۔ بینڈ ماسٹر نے فوری طور پہ سادہ اور عمدہ غذا کے علامتی موازنے پر مبنی یہ طعنہ دیا کہ ”کھانیاں مولیاں تے ڈھرکارے پلاواں نے“ اور پھر انگلینڈ نہ جانے کا فیصلہ سنا دیا ۔
یہاں تک تو میری بات شخصی حوالے سے تھی ، مگر آپ چاہیں تو ہر قوم کے لئے بھی کوئی نہ کوئی تعارفی تشبیہ تلاش کی جاسکتی ہے ۔ انگریز کے لئے نپولین نے دکاندار قوم کی پھبتی کسی تھی ۔ خود فرانس نت نئے فیشنوں کا اکھاڑہ رہا ہے ۔ امریکہ والے ایک وکھرا ڈرامہ ہیں ۔ تو سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کیا کہیں ؟ متفقہ جواب ہو گا کہ وطن عزیز ایک سیاسی سرکس ہے، جہاں پہلے پہل ہم نے شیروں ، ریچھوں اور لومڑوں کے نظارے لئے اور بالآخر زیڈ، زیبرا دیکھا، جس کے نام کے ساتھ بچے افریقہ کا دھاریدار گھوڑا کہا کرتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے ، سرکس اور سرکسیت کے تعارف میں ان شائقین کو میری یہ وضاحت ناکافی لگے ، جنہوں نے میاں فرزند علی مرحوم کے لکی ایرانی سرکس کی مقبولیت سے پہلے بھی کئی روسی ، چینی اور دیگر ملکی و غیر ملکی سرکس دیکھ رکھے تھے ۔
خاص طور پر پچھلے ہفتے دارالحکومت میں جو کچھ ہوا ، اس سے دھیان ایک اینگلو انڈین فیملی کے اولمپیا سرکس کی طرف جاتا ہے ، جس نے ہمارے بچپن میں ملک بھر میں دھوم مچا دی ۔ آغاز تو بینڈ باجے سے ہی ہوتا ، لیکن تنی ہوئی رسی پر چلتے ہوئے بازی گروں سے لے کر چھریوں سے مزین آگ کا گولہ پھلانگنے والے ”سینڈو‘ ‘ تک ہر آئٹم میں شائقین کے لئے زبردست تفریح کا سامان تھا ۔ پہلے تو آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایک عمودی تختے کے سامنے کھڑی معصوم سی لڑکی کی طرف تلواریں پھینکنے والا آدمی دل دہلا دیتا ، پھر منہ سے ”بیشکو مکاشا‘ ‘ کی ڈراﺅنی آواز نکالنے والے پروفیسر کے ۔ بی ۔ نندہ کا میجک شو ، لکیر دار پاجاموں میں چھپے بانس کے سہارے قد آدم سے کئی گنا لمبے لم ڈھینگ اور پنڈال کے سب سے اونچے مقام پر ایک سے دوسرے جھولے پر لپکتے ہوئے مسخرے .... مگر سر فہرست تھا موت کا کنواں ، جسے ایک چونی میں وہ بھی دیکھ لیتے، جن میں سرکس کے اندر جانے کی سکت نہ ہوئی ۔
کالج کے آخری درجے میں اپنے سے دو سال جونیئر ایک ہم مکتب کی زبان سے یہ سن کر حیرت ہوئی کہ اس نے موت کا کنواں کبھی نہیں دیکھا ۔ چنانچہ ہم دو تین ساتھی امتیاز احمد عرف تاج کی فرمائش پوری کرنے کے لئے بڑے اہتمام سے تماشہ گاہ میں پہنچے ۔ ٹکٹ گھر کے باہر تیسرے کھڑکی توڑ ہفتے کی لائن لگی ہوئی تھی ، ذرا ہٹ کر بازاری سا رقص ، بلکہ جوش ملیح آبادی کے الفاظ میں ”اعضا ءکی شاعری‘ ‘ ہو رہی تھی ، ساتھ ہی لاﺅڈ اسپیکر پرسے اعلان کہ ”آپ کے شہر میں پہلی مرتبہ ، کراچی والا موت کا کنواں“ .... اب تماشہ شروع ہوا ۔ موٹر سائیکل مسلسل چکر کاٹتی ہوئی اوپر کو اٹھ رہی ہے ، یہاں تک کہ لکڑی کی منڈیر کو چھونے لگی ۔ موٹر سائیکل والا مکمل پُر اعتماد ،پچھلی سیٹ پر بیٹھی لیڈی کی اشارہ بازی عروج پر ۔ اچانک پتا نہیں کیا ہوا ۔۔۔ میرے خدا ! ایک دھماکہ اور دونوں چلتی موٹر سائکل سمیت کئی فٹ نیچے زمین پر ۔
تماشائیوں پر مکمل سکوت طاری ہو گیا ۔ حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔ کسے خبر کہ تماشہ دکھانے والوں کی جان بچی ہے یا نہیں ؟ بڑی سرکس گاہ میں تو بلندی سے کودنے والوں کے لئے سیفٹی نیٹ لگا ہوتا ہے ، یہاں تو سیدھے زمین پر گرے ہیں ۔۔۔ لمحے بھر میں ذرا سی جنبش ہوئی ، جیسے بے سدھ دھڑ میں جان پڑ گئی ہو ۔ زخمیوں کو اٹھا کر لے جانے والے آئے تو لگتا تھا کہ دونوں تماشہ گروں کی جان بچ گئی ہے ۔ سب نے سکھ کا سانس لیا ، لیکن قربان جاﺅں امتیاز احمد تاج کی سادگی کے ۔ کہنے لگے ”یار ! یہ اسی طرح ہوا کرتا ہے یا کوئی حادثہ ہو گیا ہے “ ؟.... پچھلے ہفتے مَیں تو اسلام آباد میں تھا نہیں ، لیکن لانگ مارچ کے سرکس کے بعد امتیاز احمد کی طرح میرا سوال بھی یہی ہے کہ یار ، جو کچھ ہوا ، کیا وہ تماشے کا حصہ تھا یا کوئی سدھایا ہوا شیر ، لومڑ یا زیبرا اپنا سکرپٹ الٹا پڑھ گیا ہے ؟ ٭