معیشت پر توجہ کون دے گا؟
عالمی مالیاتی فنڈ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ پاکستان کو دئیے گئے قرضے نہ معاف ہوں گے نہ ری شیڈول کئے جائیں گے۔ پاکستان آئے ہوئے آئی ایم ایف وفد کے سربراہ جیفری فرینک نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ صوبوں کی رضامندی کے بغیر پاکستان کو نیا قرضہ نہیں مل سکتا۔ پاکستان کے زرمباد لہ کے ڈخائر تین ما ہ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے بھی ناکافی ہیں۔ پاکستان کی کرنسی میں مزید کمی کی گنجائش موجود ہے۔ مالی خسارہ بڑھنے کی بڑی وجہ بجلی چوری ہے جو کہ معیشت کے لئے بہت بڑا نقصان ہے۔ موجودہ سال بجٹ خسارہ ایک ہزار چھ سو چوبیس ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے۔ آمدنی بڑھانے کے لئے ٹیکس چھوٹ اور بے جا رعائتوں کو ختم کرنا ہوگا۔ پاکستان نے نئے قرضے کے لئے ابھی درخواست نہیں دی ۔ پاکستان کے لئے نئے قرضے کا پروگرام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے مشروط ہے۔پاکستان کو افراط زر، توانائی کے شعبہ اور بجٹ خسارہ کو بہتر کرنا ہوگا۔ پاکستان کی معاشی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔ سرکاری اداروں کے نقصانا ت اور حکومتی قرضہ جات بڑے مسئلے ہیں۔قرضے کے حصول کے لئے ملکی معاشی حکمت عملی کو مکمل طور پر تبدیل کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی معیشت کو اربوں ڈالر کی ضرورت ہے ۔
پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ کو قرضے معاف کرنے کی کوئی درخواست نہیں دی۔ فنڈ کا وفد نئے قرضوں کے سلسلے میں پاکستانی حکام سے بات چیت کے لئے پاکستان آیا ہے۔ لیکن اس کی طرف سے پاکستانی معیشت اور مالیاتی معاملات کے متعلق جو حقائق بیان کئے گئے ہیں وہ تشویشناک ہیں۔ جیفر ی فرینک کی طرف سے یہ باتیں اس وقت کہی گئیں جب موجودہ حکومت کی مدت میںصرف دو ماہ باقی ہیں ۔ انتخابات کے سال میں نئے ٹیکس عائد کرنا یا ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا حکومتی سیاسی جماعت کے لئے شاید ممکن نہ ہو۔ لیکن حکومتی اخراجات میں کمی کرکے خسارہ پورا کرنا کسی بھی حکومت کے اپنے بس میں ہوتا ہے۔ حکومتی اداروں اور ان کی نفری میں توسیع کئے چلے جانا ہماری حکومتوں کا مزاج رہا ہے۔ حکومتی اخراجات اور وسائل میں تناسب کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے۔ صرف پیداواری اور ترقیاتی مقاصد ہی کے لئے نہیں ہماری حکومتیں غیر پیداواری مقاصد کے لئے بھی قرض لیتی رہی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ماضی میں ہم نے سخت شرائط اور بھاری شرح سود پر بھی قرضے لئے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان کے بچے بچے پر قرضوں کا بھاری بوجھ لدا ہوا ہے۔ یہ کہنا اس لئے بھی بہت درست ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور شاہ خرچیوں کا خمیازہ ہماری آئندہ نسلوں ہی نے بھگتنا ہے۔ ہم نے اپنے بچوں کو نہ خوشگوار اور آسودگی بخش حال دیا اور نہ ہی ان کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لئے کچھ کیا۔ بجلی کی پیداوار کے لئے کوئی سنجیدہ کوششیں کی گئیں نہ غیر ضروری اخراجات میں کمی کی گئی نہ آمدنی میں اضافے کے لئے ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا گیا۔
اپنے وسائل کے علاوہ تن آسان اور کرپٹ حکمرانوں کی نظر بیرونی قرضوں پر رہی ۔ اس سے ایک تو انہیں زیادہ مال بنانے کی سہولت میسر آجاتی ہے دوسرے مالی مشکلات آئندہ آنے والی حکومتوں کو منتقل کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ پاکستان کے نصف کروڑ تارکین وطن بیرون ملک سے اپنے عزیزوں کوپاکستان میں مسلسل زرمبادلہ کی صورت میں رقوم بھیج رہے ہیں ، جس سے ہمیں اپنی بیرونی تجارت کا خسارہ پورا کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود حکومتوں کے اخراجا ت کی بے اعتدالیوں او ر فنڈز کے ضیاع کا یہ عالم ہے کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر اختتام کے قریب ہیں ، ان کی صورت حال مزید بگڑی تو ہماری بیرونی تجارت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اقوام عالم میں ہماری مالی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے۔ قرضے دینے والے ہمارے لئے شرائط مزید سخت کر سکتے ہیں۔ ہماری کرنسی کی قدر میں مزید کمی ہو سکتی ہے۔ بجلی بحران کی وجہ سے ہماری انڈسٹری پہلے ہی شدید بحران سے دوچار ہے اور برآمدات میں نمایاں کمی ہو چکی ہے۔ اگر ہم زرمبادلہ کمائیں گے نہیں تو بیرونی تجارت کے معاملات چلائیں گے کیسے؟
اس وقت جبکہ ہمارے حکمرانوں کی تمام تر توجہ آئندہ انتخابات پر ہے اور وہ ہر صورت اپنے سیاسی مخالفین کو پچھاڑنے کے لئے نت نئی تکنیکس آزمانے میں مصروف ہیں ، پہلے ہی سے بہت بگڑی ہوئی معیشت کی حالت مزید بگڑ رہی ہے۔ اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ جمہوریت اور صاف ستھرے اور بروقت انتخابات کی اہمیت اپنی جگہ ۔ لیکن سیاست اور حکومت کا مقصد اگر عوام کی خوشحالی اور ملکی استحکام ہے تو یہ معیشت کو درست اور مضبوط کئے بغیر ممکن نہیں۔ ہمارے ہاں معیشت کو سیاست اور سیاستدانوں کے مفادات کے تحفظ کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی ریت رہی ہے۔ کسی نے سیاست کو معیشت کے لئے استعمال نہیں کیا۔ اگر ٹیکس چوروں کی چوری نظر انداز کی گئی تو صرف سیاسی وجوہ کی بناءپر۔ اگر بجلی پانی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے کا لا باغ ڈیم نہیں بنایا گیا تو محض سیاسی مخالفت اور سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے۔ اگر سٹیل ملز ، پی آئی اے اور ریلوے جسیے اداروں پر بے انتہاءملازمین کا بوجھ لاد کر انہیں خسارے سے دوچار کردیا گیا تو سیاسی مفادات کے لئے۔ اگر بے شمار ترقیاتی اور قوم کی خوشحالی کے منصوبے ناکام ہوئے یا ادھورے چھوڑ کر ان پر خرچ ہونے والے اربوں روپے ضائع کردئیے گئے تو ان کے پیچھے بڑے مگر مچھوں کی کرپشن یا سیاسی مصلحتوں کا ہاتھ رہا۔ اگر خسارے میں جانے والے بڑے قومی اداروں کی نج کاری کی جانے لگی تو اس کام میں بھی اربوں کی کرپشن کو آگے رکھ لیا گیا جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کو بھی مداخلت کرنا پڑی۔ قوم کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے سیاست ان کے مفادات کے تحفظ اور عوام کی ہمدردی میں ان کی فلاح وبہبود کے کاموں کے لئے نہیں بلکہ ملک کا سب کچھ چھین کر برسراقتدار لوگوں کی جیب میں ڈال دینے کا نام ہے۔ اس دور میں تقریبا ہر ملک میں حکومتی ادارے اپنے سائز میں کمی کرکے زیادہ سے زیادہ ذمہ داریاںعوام کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کے عمل میں مصروف ہیں۔ حکومتی اخراجات اور ذمہ داریوں میں ہر جگہ کمی ہو رہی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں جو اختیار کسی کے ہاتھ میں آتا ہے اس میں وہ اضافہ کرنے او ر اپنے دائرے سے بھی باہر جا کر اپنی طاقت و اختیار آزمانے کے شوق میں مبتلا نظر آتا ہے۔ موجودہ حکومت نے عوام کے لئے اور عوام کے ساتھ جو کچھ کرنا تھا وہ کرچکی۔ اب جو معاملات آئی ایم ایف کے ساتھ طے ہونے ہوں ان میں دوسری سیاسی جماعتوں اور صوبوں کا اتفاق رائے ضروری ہے اس طرح ان مالی امور میں ذمہ داری بھی سب کی مشترکہ ہوگی ۔ یہ کام مل کر زیادہ اعتماد سے کیا جاسکتا ہے۔ انتخابات ہی نہیں پاکستان کی معیشت کا استحکام اور اس کے لئے بنیادی کام بھی پاکستان کے مستقبل کے لئے ضروری ہے۔