شفاف الیکشن کا ایک اور شفاف طریقہ:آئی ووٹنگ
آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات بلاشبہ کسی بھی نوخیز جمہوری اور تیسری دنیا کے ملک کی تیز رفتار معاشی ترقی اور معاشرتی یکجہتی کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ بھارت، امریکہ اور یورپی یونین کی تازہ ترین ترقی یافتہ مثالیں ہمارے سا منے روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ تمام تر اندرونی خلفشار، عالم اسلام سے امتیازی سلوک ، نسلی امتیاز اور اقوام متحدہ میں متاثر کن ساکھ کے باوجود ان ممالک کا اتحاد و وفاق سلامت ہے، تو خود ان کا اپنا منصفانہ اندرونی جمہوری و انتخابی سسٹم اور مالیاتی کرپشن سے پاک حکومتی نظام ہے۔ کئی صدیاں پیچھے چلے جائیں، خلافت راشدہ، امویہ، عباسیہ، عثمانیہ اور برصغیر میں ہزار سالہ مسلم حکمرانی میں وسیع اسلامی سلطنت کی یکجہتی کا باعث جہاں جہاد، مسلم حکمرانوں اور اشرافیہ کی ذاتی اخلاقی خوبیاں تھیں، وہاں عوام کی رائے و مشاورت کو اہمیت دینے والا نظام خلافت بھی تھا۔ جب تک خلافت کا ادارہ اور نظام قائم و دائم رہا، مسلم سلطنت کا اتحاد و تسلسل جاری و ساری رہا، جونہی نظام خلافت ختم ہوا،مسلم اتحاد پارہ پارہ ہو گیا اور بادشاہتیں اور آمریتیں چھوٹے چھوٹے مسلم ممالک کی شکل میں سر اٹھانے لگیں۔
پاکستان جیسے تیسری دنیا کے نوخیز جمہوری، اسلامی ملک میں جہاں جمہوری، اسلام اور اخلاقی قدروں کو دانستہ پنپنے نہیں دیا گیا۔ ہمارے ہاں مئی2013ءکے الیکشن میں دھاندی اور فنگر پرنٹس کا شور مچا ہوا ہے، اب تو سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی الیکشن کے ذریعے اختیارات عوام تک نچلی سطح پر منتقل کئے جا رہے ہیں تو نئی حلقہ بندیوں، 60کروڑ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا دیو ہیکل مسئلہ مُنہ کھولے کھڑا ہے۔ اس کے حل کے لئے مختلف صحافتی و سیاسی حلقوں کی طرف سے مختلف تجاویز دی جا رہی ہیں، جن میں سرفہرست نادرا کا ای ووٹنگ سسٹم ہے، مگر اس سلسلے میں الیکشن کمیشن اور نادرا کی طرف سے کروڑوں کی مشینری و کمپیوٹر اخراجات کی طویل لسٹ پیش کی جا رہی ہے۔ سب سے بڑھ کر اس تمام مشینری و کمپیوٹرز و تربیت یافتہ سٹاف کو ملک کے طول و عرض میں تعینات کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
کسی کی نیت پر شک و شبہ نہیں، مگر الیکشن کمیشن، نادرا، سپریم و ہائی کورٹ کے ارباب حل و عقد کی خدمت میں ایک اور انقلابی حل پیش ہے۔ آج کل انٹرنیٹ بینکنگ اور موبائل فون بینکنگ کا ہر طرف چرچا ہے۔ نادرا کے آئی ٹی حکام، بالخصوص موجودہ چیئرمین نادرا طارق ملک انٹرنیٹ بینکنگ کی طرز پر انٹرنیٹ اور موبائل ووٹنگ سسٹم ڈویلپ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر اس طریقے پر فوری طور پر عمل کر لیا جائے، تو نہ صرف شفاف اور منصفانہ تاریخی انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکتا ہے، بلکہ شفاف الیکشن کی راہ میں حائل مذکورہ رکاوٹیں اور درج ذیل چار بھاری اخراجات کی بچت بھی ہو سکتی ہے۔
٭.... بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ کے اخراجات۔
٭.... مقناطیسی سیاہی کے اخراجات۔
٭.... ای ووٹنگ مشین انسٹالیشن اخراجات۔
٭.... پولنگ سٹیشن، پولنگ سٹاف کے اخراجات
جبکہ اس آئی ووٹنگ سسٹم میں چار چیزوں کی ضرورت ہو گی۔
٭.... کالر ہیلپ لائن۔
٭.... آن لائن ووٹنگ سافٹ ویئر اور ویب پورٹل۔
٭.... ایس ایم ایس سروس۔
٭.... سنٹرل الیکشن کمیشن آفس۔
اس سسٹم کی بدولت ہر ووٹر آن لائن ووٹ رجسٹریشن کے بعد گھر بیٹھے اندرون ملک یا بیرون ملک سے کسی بھی نیٹ کیفے/ اپنے موبائل فون سے ووٹ کاسٹ کر سکے گا۔ صرف کمپیوٹر کی سوجھ بوجھ کی ضرورت ہو گی۔ یہاں یہ سوال یقینا قارئین کے ذہنوں میں مچل رہا ہو گا کہ پاکستان کی 70فیصد دیہی آبادی غربت اور ناخواندگی کے جال میں جکڑی ہوئی ہے۔ یہاں کمپیوٹر کا تصور بھی محال ہے، لیکن موبائل فون تو بلوچستان و آزاد کشمیر، بلتستان کے دور داز پہاڑی دیہات و شہروں کے غریب و امیر، بڑے و بچے، سب کے پاس دستیاب ہیں۔ ویسے بھی ووٹ بنوانے اور ڈالنے کی عمر18سال ہے۔ 18سال کی عمر میں تو انسان موبائل بآسانی آپریٹ کر سکتا ہے۔ اگر حکومت چاہے تو موبائل فون آپریٹر کمپنیوں، مثلاً یو فون، موبی لنک وغیرہ کی فرنچائزز کو بھی بطور ای ووٹنگ پولنگ سٹیشن استعمال کر کے ان کے بائیو میٹرک سسٹم ڈیوائسز سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ آن لائن انٹرنیٹ و موبائل فون ووٹنگ سسٹم کی بدولت جہاں انتخابی نتائج کے فوری ، بلا تاخیر اور شفاف حصول میں مدد مل سکتی ہے، وہاں18کروڑ اندرون و بیرون ملک ووٹر جاگیرداری، دہشت گردی اور ہر قسم کے خوف و دباﺅ سے آزاد ہو کر ووٹ کا بنیادی جمہوری حق گھر بیٹھے استعمال کر سکتا ہے، امن و امان کا بھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہو گا، جیسا کہ حالیہ انتخابات میں کراچی میں خوف و ہراس کی مہیب فضا دیکھنے میں آئی۔
مثال کے طور پر ضلع نارووال کے دور دراز کے پسماندہ گاﺅں سے ایک شخص الیکشن کمیشن/ نادرا کی ہیلپ لائن/ کال سنٹر پر فون کرتا ہے کہ مجھے ووٹ کاسٹ کرنا ہے۔ کال سنٹر کا نمائندہ خود کار کمپیوٹر سافٹ ویئر پر موجود آن لائن فارم میں اس کا آئی ڈی کارڈ نمبر درج کرے گا، تو ایک سنٹرل ڈیٹا بیس سے اس کے تمام کوائف کی فوری تصدیق ہو جائے گی، جبکہ ضروری ہے کہ جس موبائل ہینڈ سیٹ اور سم سے کالر کال کر رہا ہو، وہ اِسی کے نام اور شناختی کارڈ پر رجسٹرڈ ہو۔ اس کا آئی ایم ای آئی کوڈ بھی ہیلپ لائن میں موصول ہو جائے گا، جس سے ووٹر کے وقوعہ کی شناخت بھی ہو جائے گی.... اب اس شخص سے درج ذیل کوائف کی مدد سے پہلے اس کے آن لائن ووٹ کی رجسٹریشن کی جائے۔
٭.... ووٹ نمبر، انتخابی حلقہ، شماریاتی کوڈ
٭.... والد، والدہ کا نام، شناختی کارڈ، دیگر رشتہ داروںکے نام، شناختی کارڈ نمبر۔
٭.... شناختی علامت، تاریخ و مقام پیدائش، بلڈ گروپ۔
٭.... ڈرائیونگ لائسنس نمبر/ این ٹی این نمبر۔
٭.... پاسپورٹ/ اسلحہ لائسنس نمبر وغیرہ۔
٭....بجلی/ سوئی گیس/ ٹیلی فون بل کا ریفرنس نمبر۔
٭.... برتھ سرٹیفکیٹ/ میٹرک سرٹیفکیٹ کی تصدیق۔
اس سب کچھ کے بعد اس کا آن لائن ووٹ رجسٹرڈ کر لیا جائے گا اور کالر یعنی ووٹر سے کہا جائے گا کہ آپ کے اس نمبر پر ایک کوڈ موصول ہو گا۔ اسے8300 کی طرز کے فلاں نمبر پر ایس ایم ایس میں سینڈ کر دیں گے تو ایک جوابی ایس ایم ایس میں اسے اس کے انتخابی حلقے کے تمام امیدواروں کے انتخابی نشان بمعہ کوڈ موصول ہوں گے، وہ جس امیدوار/امیدواروں کو ووٹ ڈالنا چاہتا ہے، اتنی بار رپلائی کر کے متعدد کوڈ بھیج سکتا ہے۔ اس طرح ایک کوڈ تین یا چار بار استعمال کے بعد غیر موثر ہو جائے گا اور متعلقہ کوڈ کے ساتھ اس کا ووٹ الیکشن کمیشن ویب پورٹل پر متعلقہ امیدوار کے کوڈ میں موصول ہو کر کمپیوٹر آٹو میٹک گنتی کر دے گا، جیسا کہ اخبارات کے ویب/ ایس ایم ایس کے ذریعے الیکشن پول میں ہوتا ہے، یعنی گراف بھی بن جاتا ہے اور ووٹنگ اکاﺅنٹنگ بھی ہو جاتی ہے۔ اب صرف آئی ٹی ماہرین کو یہ مسئلہ حل کرنا ہے کہ ایک امیدوار کا کوڈ ووٹر کے موبائل ہینڈ سیٹ اور نمبر سے اسی امیدوار کے خانے میں جائے اور دو بار استعمال نہ ہو، کسی اور موبائل سے، نہ اِسی موبائل سے۔ ہر امیدوار کا الگ کوڈ ہو، جس میں امیدوار، انتخابی حلقے، شمارتی کوڈ، ووٹر سیریل نمبر، ضلع، صوبہ ، ملک کوڈ نمبر کی نمائندگی ہو۔ ہر امیدوار کے لئے الگ الگ کوڈ حاصل کرنے کے لئے نئی کال کرنا یا ویب پورٹل سے درخواست بھیجنا بھی لازمی کیا جا سکتا ہے۔
اس سسٹم میں ”ووٹ رجسٹریشن“ کے لئے دو طریقے ممکن ہیں۔
٭.... ویب پورٹل سے آن لائن فارم
٭.... موبائل فون ووٹنگ ہیلپ لائن
پڑھے لکھے، خواندہ افراد اول الذکر، جبکہ اَن پڑھ افراد موخر الذکر طریقے سے ووٹ رجسٹرڈ کروا سکتے ہیں، جبکہ ووٹ کاسٹ کرنے کے بھی دو طریقے ممکن ہیں۔
٭.... ایس ایم ایس
اس طریقے میں آن لائن ووٹ فارم میں رجسٹرڈ موبائل فون نمبر.... (جو ووٹر کے اپنے نام، سی این آئی سی پر رجسٹرڈ ہو)۔ سے مخصوص ووٹ کاسٹنگ کوڈ آن لائن ہیلپ لائن سے حاصل کر کے ایک خصوص ایس ایم ایس سسٹم پر بھیجنے کے نتیجے میں ایک ایس ایم ایس بیلٹ پیپر موصول ہو، جس میں انگریزی یا اردو میں امیدوار کے انتخابی نشان کے ساتھ ایک کوڈ ہو گا۔ جس امیدوار کو ووٹ ڈالنا مقصود ہوگا، اس کا کوڈ جوابی ایس ایم ایس کے ذریعے متعلقہ امیدوار کو کاسٹ ہو جائے گا۔
٭.... آن لائن انٹرنیٹ
اس طریقے سے آن لائن درخواست بھیج کر کوڈ موبائل فون پر منگوایا جا سکتا ہے۔ آن لائن ہی اس کوڈ کی مدد سے آن لائن آٹو میٹنگ سافٹ ویئر سسٹم کے ذریعے کاسٹ کیا جا سکتا ہے۔ ایک بار ایک امیدوار کے حق میں ایک کوڈ ایک بار ہی استعمال ہو سکتا ہے، پھر زائد المیعاد ہو کر نیا کوڈ حاصل کرنا پڑے گا۔ تمام ضروری معلومات فارم فل کے بعددس سے زیادہ بار ایک موبائل فون یا سی این آئی سی استعمال ہونے پر وہ موبائل فون بلاک یا سی این آئی سی فراڈ مارک کیا جا سکتا ہے نادرا کے سسٹم کے ذریعے.... اگر الیکشن کمیشن اور نادرا 8300 جیسا ووٹ نمبر، انتخابی حلقہ، شماریاتی کوڈ، پولنگ سٹیشن معلوم کرنے کا تاریخی، منفرد اور انقلابی ووٹنگ ایس ایم ایس سسٹم تشکیل دے سکتے ہیں اور اس پر الیکشن کمیشن کو دو انٹرنیشنل ایوارڈ بھی مل سکتے ہیں تو یقینا ہمارے قابل فخر آئی ٹی انجینئر ایسا ہی ایک اور ووٹ کاسٹنگ اینڈ رجسٹریشن سسٹم ڈویلپ کر کے دنیا میں پاکستان کا نام روشن کر کے تاریخ میں اپنا منفرد مقام بنا سکتے ہیں۔ ٭