تحفظات ۔۔۔ موقعہ ضائع نہ کریں

تحفظات ۔۔۔ موقعہ ضائع نہ کریں
 تحفظات ۔۔۔ موقعہ ضائع نہ کریں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 پشاور سانحے نے پورے معاشرے کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور برسوں سے دہشت گردی کے ستائے ہوئے عوام کے سیاسی اور فوجی قائدین سب اختلافات بھلا کر اے پی سی میں سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور ہوگئے۔ عمران خان نے دھرنا ختم کردیا اور وزیراعظم آرمی چیف کے ساتھ پشاور اے پی سی میں جا بیٹھے تمام قیادت اس نتیجے پر پہنچی کہ دہشت گردی کے خلاف غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے بلاشبہ یہ لمحے وطن عزیز کے سنہری لمحات تھے جب ذاتی اختلافات بھلا کر پاکستان کے لئے سوچا گیا وہ پاکستان جو افغان جنگ کے اسلحے، اپنے ہمسایہ ممالک اور کچھ بین الاقوامی طاقتوں کی سازشوں کے تحت اندر سے کھوکھلا ہورہا ہے، جہاں مختلف ممالک کے مفادات کی جنگ لڑی جارہی ہے لیکن ہم نے اپنے گھر کے مفاد کے بارے میں کبھی نہیں سوچا نتیجاً دہشت گرد یا شدت پسند ہمارے ملک میں بعض سیاسی جماعتوں میں ہی گھس بیٹھے ۔۔۔ یہ بات اب راز نہیں ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے پیچھے کون سا ملک ہے۔ یہ بھی راز نہیں ہے کہ کون سے ممالک بلوچستان میں بدامنی چاہتے ہیں، یہ بھی راز نہیں کہ کن مذہبی جماعتوں کے اندر طالبان کا اسلحہ اور حمایت موجود ہے اس کا حل تو ان افراد کا قلع قمع کرنا ہے لیکن ماورائے عدالت قتل اب آزاد عدلیہ کی موجودگی میں ممکن نہیں تو آجاکر حکومت کی نظر فوجی عدالتوں پر آکر ٹکی کہ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدام کی ضرورت ہے لیکن افسوس اس مرحلے پر ہر کسی کے ذاتی مفادات غالب آگے بالکل ان لالچی دوستوں کی طرح جن میں سے ہر کوئی یہ چاہتا تھا کہ اشرفیاں مجھے مل جائیں چاہے باقی دوست مرجائیں اب لسانی تنظیم چاہتی ہے کہ اس کے دہشت گرد فوجی عدالتوں میں نہ جائیں، سیاسی تنظیمیں چاہتی ہیں کہ ان کے کارکنوں اور لیڈروں کے ساتھ بھی ایسا نہ ہو، ان سب کی بات مان کر آئین کی ترمیم کے مسودے میں ان کی تسلی کرادی گئی لیکن مذہبی جماعتوں نے بھی یہ چاہا کہ مسلک اور مذہب کے لفظ کو اس ترمیم سے منہا کردیا جائے پر ایسا نہ ہوسکا اور آئین میں ترمیم کو ان کے تحفظات کے باوجود منظور کروالیا گیا۔ جو سنہری موقعہ اتفاق رائے حاصل کرکے حاصل کیا گیا تھا وہ ضائع ہوتا نظر آتا ہے۔ مجھے شاید پہلی دفعہ مولانا کے تحفظات جائز نظر آتے ہیں جن کا ادراک نہیں کیا گیا ۔۔۔ کہیں ہم مسالک کی جنگ کا شکار نہ ہو جائیں، کہیں اس کے پیچھے جہادی اسلام سے چھٹکارا پاکر صوفی اسلام کو پروان چڑھانے والا مشرف دور کا نظریہ تو کار فرما نہیں کیونکہ ایسا اسلام مغرب کے نزدیک زیادہ لبرل اور فرینڈلی ہے۔ وجہ جو بھی ہو، اگر نیتوں میں خلوص ہو تو حل نکل ہی آتا ہے۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کو کھلے دل سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت جاری رکھنی چاہئے اور حکومت کو بھی دہشت گرد کی تعریف کرتے ہوئے مسلک اور مذہب کی بجائے آئین پاکستان اور ریاست پاکستان کو نہ ماننے والے کو دہشت گرد قرار دینا چاہیے۔ اس طرح کسی کو اعتراض نہیں ہوگا اور اسی طرح سب یکجا ہوکر یہ جنگ جیت سکتے ہیں ورنہ خلیج بڑھے گی اور قومی اتفاق رائے جو وقت کی اہم ضرورت ہے پارہ پارہ ہوجائے گا۔(کالم نگار بیکن ہاؤس سکول میں اردو کے استاد ہیں)

مزید :

کالم -