شودر طالب علم کی خودکشی، مودی سرکار کو تنقیدی حملے کا سامنا
تجزیہ: آفتاب احمد خان:
بھارت کی حیدرآباد یونیورسٹی میں شودر طالب علم کی خودکشی پر ہونے والے ہنگاموں کا رخ مرکزی حکومت کی طرف ہوگیا ہے جس سے وزیراعظم نریندر مودی کو ایک اور پریشانی لاحق ہوگئی ہے۔ مظاہرے کرنے والے طلباء اور حکومت مخالف سیاستدانوں نے خودکشی کے واقعہ پر تنقید بڑھا دی ہے جس سے بی جے پی کیلئے ایک اور محاذ کھل گیا ہے۔
خودکشی کرنے والے پی ایچ ڈی کے چھبیس سالہ طالب علم روہیت ویمولا سمیت پانچ دلت (شودر) طلباء پر کچھ عرصہ پہلے بی جے پی کی ذیلی طلباء تنظیم اکھیل بھارتیہ ودھیارتی پریشد کے ارکان نے تشدد کیا تھا اور ان شودروں نے مزاحمت کی تھی۔ اگرچہ یہ خالصتاً یونیورسٹی انتظامیہ کا معاملہ تھا مگر ایک مرکزی وزیر اس میں ملوث ہوگئے اور بندارو دتاتیریا کی طرف سے وائس چانسلر کو خط لکھے جانے پر پانچوں شودر طلباء کو ہاسٹل سے نکال دیا گیا جس پر انہوں نے رہائش کیلئے یونیورسٹی کے باہر کیمپ لگا لیا، اسی دوران میں گزشتہ اتوار کو صورتحال سے تنگ آئے ہوئے روہیت ویمولا نے اپنے کمرے میں جاکر پھانسی لے لی کہ ایسے جینے سے تو موت اچھی۔
پولیس نے روہیت ویمولا کی خودکشی کے حالات پیدا کرنے والے جن افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے ان میں مرکزی وزیر بندارو دتاتیریا، وائس چانسلر اور اکھیل بھارتیہ ودھیارتی پریشد کے دو ارکان شامل ہیں۔ پی ایچ ڈی کے طالب علم روہیت ویمولا کا پچیس ہزار روپے کا وظیفہ پچھلے سال جولائی میں بند کردیا گیا تھا اور دسمبر میں اسے چار دیگر شودر طلباء کے ساتھ یونیورسٹی سے معطل کردیا گیا تھا۔ یونیورسٹی کی صورتحال کے حوالے سے مرکزی وزیر بندارو دتاتیریا نے انسانی وسائل کی ترقی کی وزارت کو اگست میں خط لکھا جس کے بعد شودر طلباء یونیورسٹی انتظامیہ کی جانبداری کی زد میں آگئے۔
حیدرآباد کے بعد دہلی اور ممبئی میں بھی طالب علم کی خودکشی کے معاملے پر مظاہرے ہوئے ہیں اور مذکورہ مرکزی وزیر اور وائس چانسلر کی برطرفی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اس مطالبے میں بھارتی سیاستدان بھی شامل ہوگئے ہیں جن میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کانگریس بھی شامل ہے۔ اس طرح وزیراعظم نریندر مودی ایک اور تنقیدی حملے کی زد میں ہیں۔ مرکزی وزیر کے خلاف مقدمہ درج ہونے سے حکومت کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے اور اگر تحقیقات غیر جانبدارانہ ہوئی تو ہوسکتا ہے کہ ان کی گرفتاری ہو اور انہیں وزارت چھوڑنا پڑے۔