اسلامی نظریہ اور ریاستِ پاکستان۔۔۔ (6)

ایک صحت مند ریاست اور نظریاتی لحاظ سے کامیاب ملک کے لئے تو ریاست کے سارے ہی ستون اہم اور ناگزیر ہیں۔ تاہم ان اداروں کے باہمی تقابل میں فوج کو ایک گونہ اضافی اہمیت (Weight age) حاصل ہے۔ جیسے تذکرہ ہوا کہ پاکستان کا نظامِ تعلیم ریاستی نظریہ کے مطابق نہیں ہے اور روز اول سے اس پر توجہ نہیں دی گئی ۔ علامہ اقبالؒ کے بعد ڈاکٹر رفیع الدین صاحب نے ذرا کام کیا اور بس! مگر ملک جیسے تیسے چل رہا ہے۔ ملکی تاریخ میں سیاستدانوں نے ملکی سیاست کے ساتھ کیا کیا۔ گورنر جنرل غلام محمد، جنرل یحییٰ خان تو عجوبہ روز گار تھے دیگر وزراء اور سیاسی زعماء کا حال بھی واقفانِ حال جانتے ہیں۔ کتاب ’نگار خانے سے پارلیمینٹ تک، کا مطالعہ کافی ہے۔ ’سیاست کے فرعون، نامی کتاب پڑھ لیں تو مقننہ و انتظامیہ کے نظریاتی لیول اور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا معیار سامنے آ جائے گا۔ ملک پھر بھی چل رہا ہے۔عدلیہ کا معاملہ تحصیل لیول سے لے کر سپریم کورٹ تک ملکی تاریخ کے بعض ادوار میں بڑا نا گفتہ بہ رہا ہے گزشتہ چند سالوں سے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا مجھے معلوم نہیں تحصیل اور ضلع کی سطح کی عدالتوں کا حال بہت پتلا ہے۔ ملک پھر بھی چل رہا ہے۔
ملک بھر میں میڈیا نے جو نظریاتی سطح پر نظریۂ پاکستان کے خلاف مواد عام کرنے میں کردار ادا کیا ہے وہ کسی طرح بھی اصحابِ عقل و دانش سے پوشیدہ نہیں۔ ملک کی جڑیں کھوکھلی ہو رہی ہیں ملک پھر بھی چل رہا ہے۔ ریاست کا ستون ’فوج‘ ایسا ستون ہے کہ دوسرے ستون کمزور ہو بھی جائیں تو یہ ’فوج‘ کا ستون اضافی بوجھ لے کر ایک حد تک ریاستی ڈھانچہ اور ملک کی سرحدوں کو محفوظ (Intact) رکھنے کی ذمہ داری ادا کرتا ہے اور ملک کے عوام ’فوج‘ کے ادارہ سے اس کی توقع بھی رکھتے ہیں۔ اسی لئے فوج کو انتظامیہ اور مقننہ کے علاوہ عدلیہ کے معاملات، غیر ملکی رابطے اور دشمن ملکوں سے تعلقات پر نگاہ رکھتی پڑتی ہے اور جب معاملہ ’ملکی بقا‘ یا استحکام کا ہو تو مداخلت بھی کرنا پڑتی ہے۔ یہی ہمارے ملک کی تاریخ ہے یہ دوسرے اداروں کی نا اہلی ہی شمار ہوتی ہے۔ تاہم اس ضمن میں ’فوج‘ پر نگاہ رکھنا اور اس کے ان تمام فیصلوں اور مداخلت کے ’جواز‘ کو ثابت کرنے کے لئے سوائے ایک نظریہ یا نظریاتی نظامِ تعلیم کے کوئی قدغن، علم کی دنیا میں موجود نہیں ہے اور صاف ظاہر ہے فوج کے افراد بھی انسان ہیں اور نظریاتی افلاس ان پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے فوج کی اہمیت کہ وہ نظریاتی ہو۔۔۔ باقی تمام اداروں سے مقابلتاً زیادہ ضروری ہے۔ اگرچہ یہ ادارہ صدر یا وزیر اعظم / مقننہ کے ماتحت ہوتا ہے مگر اکثر اوقات ان ’ستونوں‘ میں ٹکراؤ کی کیفیت اور عدم اعتماد کا ماحول رہتا ہے۔ اس کیفیت کو ملک کے حالات میں عام آدمی بھی کبھی کبھی محسوس کرنے لگتا ہے۔لہٰذا ریاست کے معاملات کو صحیح رخ یعنی اسلام کے اصولوں اور فکر اقبال کے مطابق چلانے کے لئے فوج کے نظریاتی ہونے پر دوسرے اداروں سے مقابلتاً زیادہ توجہ دینا ضروری ہے۔
نظریاتی انحراف کا نتیجہ
اس نظریاتی انحراف کے جہاں ملک میں اندرونی اور بیرونی طور پر عوام پر ’خوفناک‘ نتائج نکلے ہیں وہیں خالق کائنات بھی جس نے ہمیں یہ ملک عطا کیا تھا، ہم سے ناراض بلکہ بیزار ہے اور سود جیسی اقتصادی لعنت کو گلے لگانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے جس کے نتیجے میں نا گہانی آفات، خانہ جنگی، بے سکونی اور باہمی عدمِ اعلماد کی کیفیت ہم پر مسلط ہیں۔ 1947ء اور اس کے کچھ عرصہ بعد کم از کم اس ملک کے دانشور حضرات اور مخلص مسلمان زعماء کو یاد تھا کہ یہ ملک کیوں بنا تھا اور اس کے بانیان علامہ اقبالؒ اور محمد علی جناح (اللہ ان پر رحمتیں نازل فرمائے) کے بیان کردہ مقاصد کیوں حاصل نہ کئے جا سکے۔ اب یہ سبق کسی کو بھی مستحضر نہیں۔ اس اجتماعی اور قومی جرم میں کئی پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں مگر اس بحث کا حاصل باہمی بد اعتمادی میں اضافے کے سوا کچھ نہیں ہوگا لہٰذا۔۔۔ اب آگے کی فکر کی ضرورت ہے۔
اصلاحِ احوال کے لئے۔۔۔ کرنے کا کام؟
ملک خداداد پاکستان کو واقعتاً ایک نظریاتی ریاست بنانے کے لئے ایک عزمِ نو کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لئے ریاست کے تمام ستونوں کی ذمہ داری یکساں ہے کہ اس میں اپنے اپنے حصہ کا کام کریں اور اس سلسلے میں سب سے پہلے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہمارے اندر ایک عزم پیدا ہو اور اپنے نظریہ۔۔۔ دو قومی نظریہ۔۔۔ نظریۂ پاکستان۔۔۔ فکر اقبالؒ یعنی اسلامی انقلابی فکر اور Islamic Thought کو اپنانے کا جذبہ بیدار ہو۔ ہم سب کے لئے کرنے کا مشترک کام یہ ہے کہ ہم ذاتی سطح پر، خاندان کی سطح پر، برادری، محلے، صوبے، ملک اور ہر ریاستی ادارے کی سطح پر اپنا قبلہ درست کر لیں اور پانی نگاہیں۔۔۔۔۔۔ عالمی طاقتوں، صہیونیت، امریکہ اور UNO وغیرہ سے ہٹا کر اللہ تعالیٰ اور اس کے نمائندے حضرت محمدؐ اور قرآن مجید کے ساتھ خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ کے ساتھ علماء، فقہاء و صلحائے اُمت کی طرف رجوع کر لینے کا اٹل فیصلہ کر لیں۔ اس فیصلے کے بعد ضرورت پیدا ہو گی کہ اب کیا کیا جائے؟ جس کے لئے کرنے کے بہت سے شعبے اور درجے ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ یہاں یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ ہمیں کیا کیا کرنا ہوگا حقیقتاً ’جہاں چاہ وہاں راہ‘ Where there is will, there is a way کا معاملہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ خود راہیں دکھاتا چلا جائے گا اور آسانیاں پیدا ہوتی چلی جائیں گی۔ اس کام میں ہمیں فکر اقبال کے انقلابی پہلو کو سامنے رکھنا ہوگاا ور سماجی، اقتصادی اور سیاسی سطح پر وہ تمام تبدیلیاں لانی ہوں گی جو اسلام کا تقاضا ہے جو علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام اور ابلیس کی مجلس شوریٰ نامی نظم میں ابلیس کی زبانی نشاندہی کی ہے۔ غیر حاضر زمینداری کا خاتمہ، ہر سطح پر ہر طرح کے سودی لین دین کا قلع قمع اور ملک کے تمام قوانین کو جلد از جلد اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کا کام کرنا ہوگا۔ نیز نظامِ تعلیم کو اسلام کے تصورات کے مطابق بنانا ہوگا Co-Education کا خاتمہ، پردہ، نظامِ عفت و عصمت کی اہمیت وغیرہ) مغرب کے گمراہ کن نظریات از قسم ڈارون کا فلسفہ فرائڈ کا فلسفہ ارسطو کے ابلیسی خیالات اور کارل مارکس کے نظریات سے نظامِ تعلیم کو پاک کر کے پاکستان کے ہر شہری کو حقیقی انسان اور سچا مسلمان بنانا ہوگا۔ اگر ہم ایسا کر سکے تو پاکستان حقیقی معنوں میں ایک اسلامی ریاست کا روپ دھار لے گا اور ایسا ہوگا تو یہ نظریۂ ریاست Export بھی ہوگا اور پھیلتے پھیلتے ساری دنیا پر پھیل جائے گا۔۔۔ یہی فکر اقبال بھی ہے اور قرآن و سنت کی منشا اور پیش گوئی بھی۔ اس سطح پر طویل المیعا منصوبہ بندی (Long- term planning) اور مختصر المیعاد منصوبہ بندی (Short- term planning) کی اشد ضرورت ہو گی۔ مختصر المیعاد منصوبہ بندی کے کچھ نتائج فوراً نکلنے سے قوم میں مجموعی طور پر حوصلہ پیدا ہوگا ہمت بڑھے گی اور جذبہ عمل پروان چڑھے گا کہ ہم صحیح سمت میں جا رہے ہیں۔
ہنگامی اقدامات
مریض کے مرض کی شدت کے پیش نظر اسے پہلے ہنگامی یا ایمرجنسی امداد فراہم کی جاتی ہے تاکہ مریض کو فوری قدرے آرام ملے۔ اسی طرح ہمارے ملک کے مجموعی حالات میں جو بے چینی، عدم اعتماد، بے انصافی، ظلم، عدم برداشت، دھونس، دھاندلی، لوٹ کھسوٹ، افلاس، علاج معالجہ کی سہولتوں کا عام ادمی کی پہنچ سے باہر ہونا، بنیادی ضرورتوں کی عدم دستیابی جیسے معاملات ہیں ان سے عوام کو فوراً ریلیف نہ ملا تو حالات ایسے ہیں کہ عوام مزید کسی وعدہ فرد اور لمبے طویل المیعاد منصوبے کا انتظار نہیں کر سکتے اور صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ ہنگامی اور نظریاتی اقدمات نہ کئے گئے تو ملک میں شدید خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔
ہماری ناقص رائے میں ملکی سطح پر انتظامیہ، عدلیہ، فوج اور مقننہ بھی اپنے اپنے داخلی معاملات اور اپنی خارجی تصویر (Public image) کو صحیح اور نظریاتی بنانے کے لئے Self Assessment کریں اور ایک شعر کے مطابق ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی، سے پہلے آپ ہی طرزِ تغافل پر ذرا غور کریں، والا معاملہ ہونا چاہئے جناب وزیر اعظم صاحب بھی جلا وطنی کے دور میں حرمین شریفین میں اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے وعدوں کو یاد فرمائیں اور ان پر خلوص دل سے عمل کریں۔(جاری ہے)