شیخ مجیب الرحمان کی نا تما م یاد داشتیں
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے9 جنوری کو میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ شیخ مجیب الرحمان محب وطن تھا مگر اسے باغی بنا دیا گیا۔ نواز شریف کے اس بیان نے سیاسی جماعتوں اور میڈیا کے کئی حصوں کو با قاعدہ ایک موضوع فراہم کر دیا ہے۔اس بیان کو 10روز سے زیا دہ کا عرصہ ہو چکا ہے، مگر تاحال اپوزیشن جماعتیں اور میڈیا کے کئی حصے اس بیان کی شدید مذمت کررہے ہیں۔اس بیان اور اس کے نتیجے میں آنے والے شدید ردعمل نے مجھے یہ تحریک دی کہ میں 2012ء میں شائع ہونے والی مجیب الرحمان کی کتاب ۔۔۔The Unfinished Memoirs۔۔۔ (ناتمام یادداشیں) سے ایک مرتبہ پھر رجوع کروں۔ مجھے اس بحث سے کوئی غرض نہیں کہ نواز شریف نے یہ بیان دے کر صیحح کیا یا غلط کیا۔ اس لئے اس کالم کا دائرہ صرف ’’ناتمام یادداشتیں‘‘ تک ہی محدود رہے گا۔ یہ فیصلہ خود قارئین کا ہو گا کہ شیخ مجیب باغی تھا یا اسے باغی بنایا گیا۔ مجیب الرحمان کی کتاب ’’ناتمام یادداشتیں‘‘ پر بات کرنے سے پہلے تھوڑی سی تمہید ضروری ہے۔
سیا سی تا ریخ اور ادب کے حوالے سے بہت سی شاہکار کتا بیں ایسی ہیں جن کو قید کے دوران رقم کیا گیا، حتی ٰکہ Don Quixote جسے تنقید نگاروں کی اکثریت دنیا کا پہلا نا ول ما نتی ہے، اسے بھی Miguel de Cervantes (ہسپانوی مصنفٖ) نے اپنی قید کے دوران (1605) میں رقم کیا، جبکہ سیا سی اعتبار سے Mein Kampf جیسی بڑی کتاب بھی ہٹلر نے اپنی قید کے دوران ہی لکھی، جس میں اس نے اپنے سیا سی نظریات بھی پیش کئے۔ امریکی سیاہ فام نسل کے رہنما مارٹن لوتھر کی جانب سے۔۔۔ Letter from Birmingham City Jail۔۔۔ جیسا شاہکار نمونہ بھی قید کے دوران ہی لکھا گیا۔ برصغیر میں نہرو کی کتابیں۔۔۔ Discovery of Indiaاور Glimpses of World History۔۔۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی’’غبار خاطر‘‘ جیسی بڑی کتابیں بھی قید ہی کے دوران لکھی گئی، جبکہ قیام پاکستا ن کے بعد بھی سیاستدانوں کی جانب سے کئی اہم کتابیں قید کے دوران سامنے آئیں۔ ولی خان نے اپنی کتاب ۔۔۔FACTS ARE FACTS ۔۔۔ کا بڑا حصہ قید کے دوران ہی لکھا ،جبکہ بھٹو نے بھی اپنی کتاب۔۔۔ ASSASSINATED IF I AM ۔۔۔ اور ۔۔۔My Dearest Daughter: A letter ۔۔۔ بھی قید کے دوران ہی رقم کیں۔ ان کتابوں میں آج بھی سیاست اور تاریخ کے طالب علموں کے لئے رہنمائی اور سبق ہے۔ اس کے علاوہ یوسف رضا گیلانی کی ’’ چاہ یوسف سے صدا‘‘ جاوید ہاشمی کی ’’ہاں میں باغی ہوں‘‘ اور ’’زندہ تاریخ‘‘ اور منظور وٹو کی ’’جر م سیاست‘‘ سمیت بے شمار کتابیں سیاستدانواں اور کارکنوں کی جانب سے قید کے دوران ہی لکھی گئی۔
مشرقی پاکستان اور 1971ء کے بعد بنگلہ دیش کے با رے میں اگرچہ پاکستانی ، بنگالی اور مغربی مورخین کی بہت سی کتابیں موجود ہیں، مگر کوئی ایسا شخص جو خود بھی سیاسی عمل کا ایک فعال کردار رہا ہو، اس کی جانب سے لکھی گئی کتاب تاریخ کے طالب علموں کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ یہ عین ممکن تھا کہ شیخ مجیب الرحمان کی جانب سے 1967ء سے 1969ء کی قید کے دوران لکھی گئی یادداشتیں ۔۔۔ The Unfinished Memoirs ۔۔۔کبھی منظر عام پر نہ آتی، کیونکہ یہ تو سب کو معلوم تھا کہ مجیب الرحما ن اپنی قید کے دوران اپنی یادداشتیں لکھ رہا ہے، مگر 1969ء کے بعد کے ہنگامی دور اور پھر 1975ء میں ان کے قتل کے بعد کسی کو بھی یہ معلو م نہ تھا کہ شیخ مجیب کی یادداشتیں کس کے پا س محفوظ ہیں؟ یہ تو 2004 ء میں شیخ حسینہ واجد کو اتفاقی طور پر ایسے خستہ حا ل کاغذات ملے، جن پر کئی الفاظ سے سیاہی بھی خشک ہو چکی تھی۔ ماہرین کی مدد سے ان کاغذا ت پر لکھے گئے الفاظ کو نئے صفحات میں محفوظ کروایا گیا اور ان یادداشتوں کو بنگا لی سے انگریزی میں منتقل کروا کر انہیںThe Unfinished Memoirs کے نام سے شائع کر وایا گیا۔ یوں برصغیر، مشرقی پاکستان اور پھر بنگلہ دیش کے ایک اہم سیاسی کردار کی یادداشتیں ہم تک پہنچیں۔
اگر چہ یہ یادداشتیں 1955ء تک کی ہی ہیں، مگر اس کے باوجود ان سے شیخ مجیب کی سیاسی سوچ کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ گراس روٹ لیول یا بالکل نچلی سطح سے سیاست کا آغا ز کرنے کی وجہ سے شیخ مجیب بنگال کی سیاست، مسلم لیگ میں اندرونی چپقلش، بنگال میں مسلم لیگ کے کردار، سمیت بہت سے اہم پہلوں کے عینی شاہد تھے۔ خا ص طور پر 1940ء کی دہا ئی میں جب مسلم لیگ ،بنگا ل سمیت برصغیر میں تحریک پاکستان چلا رہی تھی اس وقت بنگال میں مسلم لیگ نظریاتی اعتبار سے دو دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی۔ مجیب کے مطابق بنگال کے جاگیرداروں، نوابوں اور برطانیہ نواز خان زادوں کے دھڑے کی قیادت خواجہ ناظم دین، جبکہ متوسط اور زیریں طبقہ حسین شہید سہروردی کی قیادت میں مسلم لیگ کو عام آدمی کی جماعت بنانے کا خواہاں تھا۔ حسین شہید سہروردی کئی بار واضح کر چکے تھے کہ اگر انہیں اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو وہ زرعی اصلاحات کرکے بنگال سے جاگیر داری نظام کا خاتمہ کر دیں گے۔ سہروردی کا یہی موقف تھا جس کی بنا پر بنگال کے جاگیردار مسلم لیگیوں نے ان کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ شیخ مجیب الرحما ن کے مطابق مرکزی مسلم لیگ نے بھی اس لڑ ا ئی میں سہروری کا سا تھ دینے کی بجائے خوا جہ ناظم دین کا سا تھ دیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی جانب سے اردو کو قومی زبان قرار دینے پر مجیب الرحمان کا مو قف یہ ہے کہ جب قیا م پاکستان کے ساتھ ہی اردو اور بنگا لی کا تنازعہ شروع ہوا تو خواجہ ناظم الدین نے مرکزی مسلم لیگی قیادت کو صورت حال کی سنگینی کا احساس دلا نے کی بجا ئے یہ باور کروا یا کہ اگر قائداعظم خود مشرقی پاکستان کا دورہ کرکے اردو کو قومی زبان قرار دے دیں گے تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ قائد اعظمؒ کی جانب سے اردو کو قومی زبان قرار دینے پر اگر چہ وہا ں پر موجود طلبا نے ’’نو ،نو‘‘ کے نعرے بھی لگائے، تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اس خطاب کے بعد جناح کی وفات تک اس مسئلہ کی شدت کسی حد تک کم رہی۔ ان یادداشتوں کو پڑھنے کے بعد یہ با ت کہی جا سکتی ہے کہ 1955ء تک شیخ مجیب الرحمان نے پاکستان سے الگ ہو نے کے با رے میں نہیں سوچا تھا۔
ان یادداشتوں کو پڑھ کر ایک ایسے مجیب الرحمان کی صو رت ابھرتی ہے جو ایک ایسے پاکستان پر یقین رکھتا تھا ، جہاں جاگیرداری نظام نہ ہو، جہاں وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو اور اقتدار تک عام آدمی کی بھی رسائی ہو۔ ان یادداشتوں میں مجیب کی قائد اعظمؒ کے لئے واضح طور پر عزت جھلکتی ہے۔ مجیب الرحمان لکھتا ہے کہ جب تک جناح زندہ رہے سیاستدانوں کو سازشیں کرنے کی جرات نہ ہوئی، جبکہ ان کی موت کے ساتھ ہی سازشیں شروع ہو گئیں۔ جناح کی جانب سے لارڈ ماونٹ بیٹن کو پاکستان کا گورنر جنرل نہ بنانے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے مجیب الرحمان لکھتا ہے کہ مسلم لیگ کے اندر بھی کئی لو گ جناح کے اس فیصلے پر حیران تھے، کیونکہ ان کی یہ سوچ تھی کہ انڈیا کی طر ح پاکستان کا گورنر جنرل بھی ماونٹ بیٹن کو ہونا چاہے، مگر مجیب کے مطا بق چونکہ جناح ہم سب سے زیادہ عقل مند اور فہم رکھنے والے انسان تھے۔ اس لئے ان کا یہ فیصلہ بھی درست ہی ثابت ہوا،کیونکہ ماونٹ بیٹن پاکستان کا گورنر جنرل بن کر پاکستان کو مزید نقصان بھی پہنچا سکتا تھا۔ مجیب الرحمان کی یہ یادداشتیں چونکہ1955ء تک ہی محدور ہیں اور ظاہر ہے کہ1955ء سے1971ء تک پاکستان میں کئی ایسے بڑے واقعات ہوئے جنہوں نے مجیب الرحمان سمیت پاکستان کے اس وقت کے سیاسی راہنماؤں پر بھی اپنے اثرات واضح کئے۔ مجیب الرحمان باغی کیسے بنا؟ اس بحث کی اس کالم میں گنجائش نہیں، تاہم قارئین اس کالم کو پڑھ کر یہ اندازہ ضرور لگا سکتے ہیں کہ 1955ء تک مجیب الرحمان کی سیاسی سوچ کیا تھی، جن قارئین کو اس معا ملے میں واقعی دلچسپی ہے۔ وہ خود بھی مجیب الرحمان کی اس کتاب The Unfinished Memoirsکا مطالعہ ضرور کریں۔’’ادھوری یادداشیں‘‘ کے نام سے اس کا اُردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔